ٹرمپ کے حامی چارلی کرک کے مبینہ قاتل کو 33 گھنٹوں میں کیسے گرفتار کیا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Sep 12, 2025

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور قدامت پسند تنظیم 'ٹرننگ پوائنٹ' کے شریک بانی چارلی کرک کو گولی مار کر قتل کرنے والے شخص کو گرفتار کرلیا ہے۔

جمعے کو فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) کے سربراہ کاش پٹیل اور دیگر سکیورٹی حکام کے ساتھ ایک نیوز بریفنگ کے دوران یوٹا کے گورنر سپینسر کوکس نے اعلان کیا کہ ’ہم نے اسے (مبینہ قاتل) کو پکڑ لیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 22 سالہ ملزم ٹائلر رابنسن کے خاندان کے ایک شخص نے اپنے ایک دوست کو بتایا کہ ٹائلر نے اعترافِ جرم کر لیا ہے، جس کے بعد اس دوست نے شیرف کے دفتر سے رابطہ کیا۔

خیال رہے بدھ کے روز ’ٹرننگ پوائنٹ‘ کے شریک بانی چارلی کرک کو یوٹا میں ایک تقریب کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

ان کی ہلاکت کی تصدیق خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے چارلی کرک کو ایک ’سچا محبِ وطن‘ کہا تھا اور ان کی ہلاکت کو امریکہ کے لیے ایک ’تاریک لمحہ‘ قرار دیا تھا۔

چارلی کرک کی تحقیقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے یوٹا کے گورنر سپینسر کوکس کا کہنا تھا کہ تفتیش کاروں نے ویڈیو فوٹیج کے ذریعے یہ معلوم کیا کہ ٹائلر 10 ستمبر کو مقامی وقت کے مطابق 8:29 پر ڈاج چیلنجر گاڑی میں جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔

ٹائلر پر چارلی کرک کے قتل کا الزام

یوٹا کے گورنر سپینسر کوکس نے نیوز بریفنگ کے دوران ملزم ٹائلر کے خاندان کا شکریہ کیا جنھوں نے ان کی گرفتاری میں مدد کی۔

ان کا کہنا تھا ملزم کے خاندان نے ’درست قدم‘ اُٹھایا اور انھیں سکیورٹی حکام کے حوالے کر دیا۔ اس موقع پر انھوں نے ٹائلر کے خاندان سے ملنے والی معلومات بھی میڈیا کے ساتھ شیئر کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملزم چارلی کرک کو پسند نہیں کرتے تھا۔

Getty Imagesچارلی کرک کی موت کی تصدیق خود امریکی صدر نے کی تھی

یوٹا کے گورنر کا کہنا تھا کہ ملزم کے خاندان کے ایک فرد نے بتایا کہ ٹائلر حالیہ برسوں میں 'زیادہ سیاسی' ہوگئے تھے۔

یوٹا لے گورنر مزید کہتے ہیں کہ ملزم کے خاندان کے فرد نے بتایا کہ 10 ستمبر سے قبل ٹائلر نے ایک رات کھانے سے قبل کہا تھا کہ چارلی کرک یوٹا ویلی یونیورسٹی آ رہے ہیں اور یہ کہ وہ انھیں ’اور ان کے نظریات کو پسند نہیں کرتے۔‘

سپینسر کوکس کے مطابق ٹائلر نے اپنے خاندان کے فرد کو کہا تھا کہ ’چارلی کرک کے اندر نفرت بھری ہوئی ہے اور وہ نفرت پھیلا رہے ہیں۔‘

اس موقع پر ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے چارلی کرک کے خاندان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی بیوہ اور بچے ملزم کو سزا دلوانے میں حکام کے ساتھ ساتھ ہوں گے۔

انھوں نے صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’میں تمام وسائل دینے پر ان کا شکر گزار ہوں۔ ہم نے چارلی کے لیے 33 گھنٹوں میں تاریخی کام کیا۔‘

پٹیل کا کہنا تھا کہ اس کیس میں تفتیش کاروں نے 33 گھنٹوں میں ’تاریخی پیشرفت‘ حاصل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ چارلی کرک کو بدھ کے روز 12 بج کر 23 منٹ پر گولی لگنے کے بعد 16 منٹ میں ابتدائی طور پر ایجنٹس جائے وقوعہ پر پہنچے۔ ایف بی آئی نے خصوصی اہلکاروں اور شواہد کی منتقلی کے لیے طیارے استعمال کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز ایف بی آئی نے مبینہ قاتل کی تصاویر جاری کیں اور اس کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالر مقرر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مبینہ قاتل کو گذشتہ شب تحویل میں لیا گیا تھا۔

ہم اب تک اس حملے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

31 سالہ چارلی کرک کو بدھ کے روز اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ یوٹا ویلی یونیورسٹی میں ایک تقریب میں شرکت کے لیے موجود تھے۔ اس تقریب میں تقریباً تین ہزار افراد شریک تھے۔

حملے کے وقت وہ ایک سفید رنگ کے ٹینٹ کے نیچے بیٹھے تھے اور ان کی اہلیہ اور گھر والے بھی ان کے ساتھ موجود تھے تاہم وہ سب اس حملے میں محفوظ رہے۔

انھیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن چند گھنٹوں بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چارلی کرک کی ہلاکت کی تصدیق اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے کی۔

AFP via Getty Imagesصدر ٹرمپ نے چارلی کرک کو ایک ’سچا محبِ وطن‘ کہا اور ان کی ہلاکت کو امریکہ کا ایک ’تاریک لمحہ‘ قرار دیا

حکام کا کہنا ہے کہ چارلی کرک کو گردن میں ایک گولی لگی تھی جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ گولی قریبی عمارت کی چھت پر کھڑے ایک شخص نے چلائی تھی۔

بی بی سی کی نامہ نگار نَدا توفیق لکھتی ہیں کہ چارلی کرک تقریر کے بعد اپنے مخصوص انداز میں لوگوں کے ساتھ مباحثے کے لیے بیٹھے تھے جب قریبی عمارت کی چھت پر گہرے رنگ کے کپڑے پہنے ایک شخص نمودار ہوا اور اس نے ایک گولی چلائی جو کرک کی گردن میں لگی۔

سابق امریکی کانگریس رکن جیسن چافیٹز نے فاکس نیوز کو بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ وہاں موجود تھے جب ’گولی سیدھی اس کی جانب آئی اور بھگڈر مچ گئی۔‘

ایڈم بارتھولومیو نے بتایا کہ ’لوگوں نے خارجی راستوں کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ رو رہے تھے۔‘

ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جس مقام پر چارلی کرک بیٹھے ہوئے تھے اس سے تقریبا 130 میٹر فاصلے پر چھت پر کوئی موجود تھا۔

ایڈم کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات پر حیرانی تھی کہ وہاں کوئی سکیورٹی موجود نہیں تھی۔ کسی نے میرا بیگ چیک نہیں کیا۔

نیتن یاہو کے پیغام میں پاکستان کا ذکر: ’اسرائیلی وزیراعظم کا قطر پر حملے کا جواز پیش کرتے ہوئے دو بار پاکستان کا ذکر کرنا حیران کُن ہے‘لارڈ ماؤنٹ بیٹن: جب انڈیا کے پہلے گورنر جنرل کو کشتی پر نصب بم کی مدد سے قتل کر دیا گیابنوں فوجی مرکز پر حملے میں ہلاک ہونے والے ’ایڈونچر پسند‘ میجر عدنان اسلم کون تھے؟ٹرمپ کے ’عظیم دوست‘: انڈیا میں امریکہ کے نئے نامزد سفیر کو ’نئی دہلی کے چہرے پر طمانچہ‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟’اسرائیل کا ایک شیر دل دوست، جس نے جھوٹ کا مقابلہ کیا‘

ٹروتھ سوشل پر جاری پیغام میں ٹرمپ نے لکھا کہ ’عظیم اور لیجنڈری چارلی کرک اب نہیں رہے ہیں۔ کوئی بھی امریکہ کے نوجوانوں کو اتنا نہیں سمجھتا تھا اور نہ ہی ان سے محبت کرتا تھا جتنا چارلی نے کیا۔‘

ٹرمپ اسے امریکہ کے لیے ایک تاریک لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا ’چارلی ایک سچا محب وطن تھا جس نے اپنی زندگی آزادی اظہار اور اپنے ملک ریاست متحدہ ہائی امریکہ کے لیے وقف کی ہوئی تھی جس سے اسے بے پناہ محب تھی۔‘

سابق امریکی صدر بارک اوبامہ، برطانوی وزیرِ اعظم سر کیئر سٹارمر اور اسرائیلی وزیرِ بنیامن نتن یاہو سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے چارلی کرک کے قتل کی مذمت کی ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ چارلی کرک کو سچ بولنے اور آزادی کا دفاع کرنے کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے۔

’اسرائیل کا ایک شیر دل دوست، جس نے جھوٹ کا مقابلہ کیا اور یہودی-مسیحی تہذیب کے لئے کھڑا ہوا۔‘

نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ان کی دو ہفتے قبل ہی چارلی کرک سے بات ہوئی تھی اور انھوں نے کرک کو اسرائیل آنے کی دعوت دی تھی۔ ’بد قسمتی سے اب یہ دورہ نہیں ہو گا۔‘

چارلی کرک غزہ اور اسرائیل کے بارے میں کافی سخت خیالات رکھتے تھے اور اکثر اسرائیلی اقدامات کا دفاع کرتے نظر آتے تھے۔

رواں سال جولائی کے دوران بھی انھوں نے اسرائیل پر غزہ میں لوگوں کو بھوکے مارنے کی الزام کی بھی تردید کی تھی۔

چارلی کرک کون تھے؟

31 سالہ چارلی کرک امریکہ کے سب سے ہائی پروفائل قدامت پسند کارکنوں اور میڈیا شخصیات میں سے ایک تھے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قابل اعتماد اتحادی سمجھے جاتے تھے۔

چارلی کرک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور پوڈ کاسٹ میں اکثر ان کے ایسے کلپس شیئر کیے جاتے ہیں جن میں وہ طلبا کے ساتھ ٹرانسجینڈرز کی شناخت، موسمیاتی کی تبدیلی، مذہبی عقائد اور خاندانی اقدار جیسے امور پر بحث کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ کرک شادی شدہ تھے اور اُن کے دو بچے ہیں۔

ان کے ہر پوڈ کاسٹ کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک کلپ چلایا جاتا ہے جس میں وہ کرک کا شکریہ ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’میں چارلی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، وہ ایک زبردست شخصیت ہیں، ان کا جذبہ، اس ملک سے ان کی محبت، آج تک کی نوجوانوں کی سب سے طاقتور تنظیموں میں سے ایک کی بنیاد رکھ کر تعمیر میں ایک حیرت انگیز کام کیا ہے۔‘

سنہ 2012 میں باراک اوبامہ کے دوسری مرتبہ صدر متخب ہونے کے بعد کرک نے 18 سال کی عمر میں ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے کی بنیاد رکھی جو ایک طالب علم تنظیم ہے۔ اس کا مقصد لبرل جھکاؤ رکھنے والے امریکی کالجز میں قدامت پسند نظریات کو پھیلانا ہے۔

اب اس تنظیم کی شاخیں امریکہ کے 850 سے زائد کالجز میں پائی جاتی ہیں۔

Bloomberg via Getty Imagesکرک نے 18 سال کی عمر میں ’ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے‘ کی بنیاد رکھی۔ اب اس تنظیم کی شاخیں امریکہ کے 850 سے زائد کالجز میں پائی جاتی ہیں

گذشتہ سال کے امریکی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر ریپبلیکن امیدواروں کے لیے ووٹروں کو باہر نکالنے میں ان کی تنظیم نے اہم کردار ادا کیا۔ چارلی کرک کو ہزاروں نئے ووٹرز کو رجسٹر کروانے اور صدر ٹرمپ کو ایریزونا ریاست میں جیت دلوانے کا سہرا بھی جاتا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جیت کے بعد ان کے اور امریکی صدر کے درمیان تعلقات مزید گہرے ہوئے اور انھوں نے جنوری میں صدر ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں بھی شرکت کی۔ ٹرمپ کے دونوں ادوار کے دوران ان کا وائٹ ہاؤس میں کافی آنا جانا رہا۔

رواں برس کےآغاز میں انھوں نے صدر ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے ساتھ گرین لینڈ کا بھی دورہ کیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب امریکی صدر گرین لینڈ کو امریکی کنٹرول میں لینے کی بات کر رہے تھے۔

چارلی کرک کی موت کا امریکی سیاست پر اثر؟

ڈونلڈ ٹرمپ چارلی کرک کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر کافی غصے میں اور ناراض نظر آئے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چارلی کرک نے ’سچائی اور آزادی کے لیے اپنی جان دی ہے۔‘

ٹرمپ نے اس ظلم اور دیگر حالیہ پرتشدد سیاسی حملوں میں حصہ لینے کے لیے بائیں بازو کی بنیاد پرست سیاست کو براہ راست مورد الزام ٹھہرایا۔

بی بی سی شمالی امریکہ کی ایڈیٹر سارا سمتھ لکھتی ہیں کہ اکثر اس طرح کے واقعات سیاسی اتحاد کی فضا پیدا کرتے ہیں۔

ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز دونوں جانب کے سیاستدانوں بشمول سابق امریکی صدور جو بائیڈن اور بارک اوبامہ نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکی جمہوریت میں اس قسم کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔

تاہم ٹرمپ اور کرک کے پیروکاروں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آ رہا ہے اور وہ انتقام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سارا سمتھ لکھتی ہیں کہ یہ امریکہ کے لیے ایک خطرناک موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

نیتن یاہو کے پیغام میں پاکستان کا ذکر: ’اسرائیلی وزیراعظم کا قطر پر حملے کا جواز پیش کرتے ہوئے دو بار پاکستان کا ذکر کرنا حیران کُن ہے‘طاقت کا مظاہرہ، ٹرمپ کی ناراضی اور عالمی قیادت: شی جن پنگ کی تقریر اور چین کی پریڈ میں چھپا ہوا پیغامٹرمپ کے ’عظیم دوست‘: انڈیا میں امریکہ کے نئے نامزد سفیر کو ’نئی دہلی کے چہرے پر طمانچہ‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟’دُنیا کے سب سے اچھے جج‘ فرینک کیپریو: عدالت میں ’رحمدلی کی علامت‘ جو پاکستان میں بھی مشہور تھے لارڈ ماؤنٹ بیٹن: جب انڈیا کے پہلے گورنر جنرل کو کشتی پر نصب بم کی مدد سے قتل کر دیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More