نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو اور دیگر شہروں میں سوشل میڈیا پر پابندی اور بدعنوانی کے خلاف نوجوانوں کے شدید مظاہروں میں کم از کم 19 افراد کی ہلاکت کے بعد منگل کو وزیراعظم کے پی شرما اولی مستعفی ہو گئے۔نیپال کی فوج نے بدھ کے روز کھٹمنڈو کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا۔ فوج نے کرفیو نافذ کر کے احتجاجی رہنماؤں سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔اس وقت فوجی اہلکار دارالحکومت کی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں تاکہ اس ہفتے ہونے والے ہلاکت خیز احتجاج کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس افراتفری کے دوران پولیس کے مطابق ملک بھر سے 13,500 سے زائد قیدی جیلوں سے فرار ہو گئے ہیں۔’جنریشن زی کا احتجاج‘ کیا ہے؟نیپال میں حکومت کے خاتمے کا سبب بننے والے ان مظاہروں کو نیپال کی جدید تاریخ کے سب سے بڑے عوامی مظاہرے قرار دیا جا رہا ہے اور انہیں ’جنریشن زی کا احتجاج‘ کہا جا رہا ہے۔یہ مظاہرے اُس وقت شروع ہوئے جب حکومت نے گزشتہ ہفتے فیس بک سمیت کئی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کر دی۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر سیاست دانوں اور بااثر افراد کے بچوں یعنی ’نیپو کڈز‘ کے خلاف ایک آن لائن تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ اس پابندی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ان مظاہروں کو ’جنریشن زی کا احتجاج‘ اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ ان میں شریک بیش تر مظاہرین کی عمریں 18 سے 26 برس کے درمیان تھیں۔
’جنریشن زی‘ وہ نوجوان نسل ہے جو ٹیکنالوجی، آگاہی اور بیداری کے ساتھ پروان چڑھی ہے اور جو دنیا میں مثبت تبدیلی کے لیے فعال کردار ادا کر رہی ہے۔
مظاہرین نے منگل کو کھٹمنڈو میں پارلیمان کی عمارت پر دھاوا بول دیا جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں، واٹر کینن اور براہِ راست گولیاں استعمال کیں۔مظاہروں میں شدت آنے کے بعد ملک کے وزیرداخلہ نے استعفیٰ دے دیا جبکہ اگلے ہی دن حکومت نے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کر دی۔پرتشدد مظاہروں کے بعد دارالحکومت سمیت دیگر شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا لیکن حالات مزید بگڑتے گئے جو بالآخر حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے۔’نیپو کڈز‘ کون ہیں؟'نیپو کڈز' کا تصور ہالی وُڈ سے آیا ہے جہاں بااثر افراد کے بچے اپنی خاندانی حیثیت کی وجہ سے مراعات اور مواقع حاصل کرتے ہیں۔حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہدایت دی تھی کہ وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات میں رجسٹریشن کرائیں۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)نیپال میں شہریوں نے ٹک ٹاکاور ’ریڈٹ‘ جیسے پلیٹ فارمز پر سیاست دانوں اور سابق وزراء اعظم کے بچوں کی پرتعیش طرزِ زندگی اور عوامی وسائل کے مبینہ غلط استعمال کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہم کرپشن کے خلاف ایک آن لائن تحریک کی صورت اختیار کی۔#NepoKids، #PoliticiansNepoBabyNepal جیسے ہیش ٹیگز کے تحت لاکھوں افراد نے ان پوسٹس کو دیکھا۔ ایک ویڈیو کو تو 13 لاکھ سے زائد ویوز ملے۔اسی نوعیت کی تحریک فلپائن میں بھی دیکھی گئی ہے جہاں عوامی منصوبوں میں بدعنوانی کے خلاف 'نیپو بیبیز' کو نشانہ بنایا گیا۔احتجاج کیوں شروع ہوا؟معروف امریکی جریدے ٹائم میگزین کی رپورٹ کے مطابق نیپال میں سوشل میڈیا کا استعمال انتہائی عام ہے۔ 2025 کے آغاز میں ملک میں ایک کروڑ 43 لاکھ سے زائد فعال صارفین موجود تھے جو ملک کی تقریباً نصف آبادی کے برابر ہیں۔مظاہروں میں شدت آنے کے بعد ملک کے وزیر داخلہ نے استعفیٰ دے دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہدایت دی تھی کہ وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات میں رجسٹریشن کرائیں تاکہ ’نامناسب مواد‘ پر نظر رکھی جا سکے۔جب فیس بک، انسٹاگرام، اور واٹس ایپ جیسے بڑے پلیٹ فارمز نے اس حکم کی تعمیل نہ کی تو حکومت نے ان پر پابندی عائد کر دی۔دوسری جانب ٹک ٹاک اور وائبر جیسے پلیٹ فارمز نے رجسٹریشن کرا لی، اس لیے وہ فعال رہے۔یہ اچانک پابندی نہ صرف نیپالی صارفین بلکہ مقامی کاروبار، ڈیجیٹل کریئیٹرز اور میڈیا کی آزادی کے لیے بھی ایک شدید دھچکا ثابت ہوئی۔