لذیذ کھانوں کے شوقین افراد کی ’جنت‘ جہاں کی بریانی اور کباب ہی نہیں بلکہ سبزی والی ڈشز بھی مشہور ہیں

بی بی سی اردو  |  Dec 20, 2025

Maroof Culmenمنہ میں گھلنے والے کباب لکھنؤ کی وجہِ شہرت ہیں

لذیذ کباب، خوشبودار بریانی اور پھولے ہوئے بادلوں جیسی مٹھائیاں۔

انڈیا کے شمالی شہر لکھنؤ کو اچھے کھانوں کے شوقین افراد کی جنت کہا جاتا ہے جہاں مقامی اور غیر ملکی سیاح کھانا کھانے آتے ہیں۔

گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے لکھنؤ کو ’گیسٹرونومی کے تخلیقی شہر‘ کی حیثیت سے تسلیم کیا اور منتخب عالمی شہروں کی فہرست میں شامل ہونے کے بعد اُمید ہے کہ لکھنؤ کے شاندار کھانے مزید نمایاں ہوں گے۔

لکھنؤ دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک کے اُن 408 شہروں کے نیٹ ورک میں شامل ہو گیا ہے جو ’تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے پائیدار شہری ترقی‘ کے فروغ کے لیے پرعزم ہیں۔

یونیسکو کے علاقائی دفتر برائے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر اور نمائندے ٹم کرٹس کا کہنا ہے کہ ’یہ اس شہر کے پکوان کی ثقافت اور کھانوں کے متنوع سسٹم کا اعتراف ہے۔‘

حیدر آباد کے بعد لکھنؤ انڈیا کا دوسرا شہر ہے جس نے عالمی شہروں کی فہرست میں جگہ بنائی۔

مشہور شیف رنویر برار نے کہا کہ ’میرے آبائی شہر کی تعریف کھانے سے محبت کرنے والوں کے لیے حیران کن نہیں۔ یہ پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یونیسکو کی اس پہچان کے ساتھ میرا پیارا، پرہجوم شہر لکھنؤ جو آبادی کے لحاظ سے انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا دارالخلافہ بھی ہے، اب اُس چیز کے لیے مرکزِ نگاہ ہے جو اُس کی پہچان اور روح ہے یعنی یہاں کے کھانے۔‘

صنعت کدہ ٹرسٹ کی بانی مادھوی ککریجا جو لکھنؤ کے باورچی خانوں کے ایک پراجیکٹ کی سربراہی کر رہی ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ جو چیز اس شہر کے کھانوں کو منفرد ذائقہ دیتی ہے وہ دھیمی آنچ پر زیادہ دیر تک پکائے گئے کھانے ہیں، جنھیں بنانے میں کافی وقت لگتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’لکھنؤ کے زیادہ تر گھروں میں صبح سے شام یہی بات ہوتی ہے کہ کیا پکایا جائے، کیسے پکایا جائے اور آپ کو کھانے کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔‘

لیکن کھانے پر یہ توجہ کوئی نئی بات نہیں، اس شہر کے بہت سے کھانوں کی تاریخ کئی سو سال پرانی ہے۔

Maroof Culmenبریانی دھیمی آنچ پر دم لگا کر تیار ہوتی ہے

لکھنؤ کو نوابوں کا شہر کہا جایا ہے اور یہاں 18ویں اور 19ویں صدی میں مسلمانوں رہنماؤں نے راج کیا۔

اس شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کے کباب منہ میں رکھتے ہی گھل جاتے ہیں اور بریانی کی ابتدا یہاں کے باروچی خانوں سے ہوئی۔

انشاہی باروچی خانوں میں فارسی اور مقامی انڈین کھانوں کے امتزاج سے اودھ کے کھانے وجود میں آئے۔

یہ وہ وقت تھا جب لکھنؤ کے کباب مشہور ہوئے۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ بکرے کے گوشت سے بنے گلاوٹی کباب اس لیے بنائے گئے تھے کیونکہ عمر رسیدہ نواب صاحب جن کے تمام دانت گر چکے وہ ان سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اس کے لیے شاہی باورچیوں نے گوشت میں کچا پپیتا، زعفران اور مسالے لگا کر تیار کیا تاکہ اس ریشمی کباب کو چبانے کی ضرورت نہ پڑے۔

لیکن اودھ کے باورچی خانوں کا سب سے اہم کام دم پخت کا طریقہ ایجاد کرنا تھا جس میں برتن کوڈھک کر آٹے کی لوئی سے سیل کر دیا جاتا اور پھر دھیمی آنچ پر دیر تک پکایا جاتا تھا۔

لکھنؤ کا کبابوں سے عشق اور آلودگی: ’کباب کوئلے کی جگہ گیس پر سینکے جائیں گے تو ظلم ہو گا‘بریانی کہاں سے آئی اور اس پر بحث کیوں ہوتی ہے؟نوابوں کی پسندیدہ میٹھے چاولوں کی ڈش متنجن کا آغاز کیسے ہوا’کوٹھے کی مٹھائی‘: ترکیہ کا مشہور پکوان جسے ’قدرتی ویاگرا‘ مانا جاتا ہے

کھانا پکانے کا یہ طریقہ 18ویں صدری میں نواب آصف الدولہ کے دورِ حکومت میں مقبول ہوا۔ اس دور میں علاقے میں قحط تھا اور سرکاری طور پر لوگوں کے لیے کھانوں کا بندوبست کیا گیا۔ اس کے لیے ایک بڑی ڈیگ میں چاول، گوشت، سبزیاں ڈال کر ڈھک کر ہلکی آنچ پر دیر تک پکایا جاتا تھا۔

اس دم پخت کی کہانی یہ ہے کہ نواب نے برتنوں سے نکلنے والی خوشبو سونگھی تو ذائقہ چکھنے کو کہا اور پھر دم پخت کی تکنیک کو سرکاری طور شاہی باورچی خانوں میں استعمال کیا گیا۔

اس تکنیک کو انڈیا میں شیف مرحوم امتیاز قریشی نے دوبارہ بحال کیا اور اسے کمرشل کھانوں میں مقبول کروایا۔

انھیں اودھ کے کھانوں کا ماہر کہا جاتا ہے اور انھوں نے دہلی کے مشہور ریستوران بخارا اور دم پخت میں یہ طریقہ متعارف کروایا۔ جس کی وجہ سے یہ ایشیا کے 50 بہترین ریستوران کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔

کباب اور بریانی کے علاوہ، قورمہ، شیرمال اور شاہی ٹکڑے ان ہی باروچی خانوں میں بنائے گئے۔

لیکن لکھنؤ صرف کباب اور بریانی کے لیے ہی مشہور نہیں بلکہ یہ سبزیاں کھانے والے افراد کے لیے بھی کسی جنت سے کم نہیں۔

Maroof Culmenمکھن ملائی سردیوں کی مشہور ڈش ہے

لکھنؤ میں موجود مقامی بنیا کمیونٹی نہ صرف سبزیاں کھاتی ہے بلکہ وہ موسمی سبزیوں کی پیداوار پر جشن بھی مناتے ہیں۔ شہر کی فوڈ سٹریٹ طرح طرح کے میٹھے، مسالے دار چاٹ اور کٹھے میٹھے پکوانوں سے بھری ہوئی ہیں۔

تقریباً ہر کونے میں، چھوٹی چھوٹی دکانیں اور کھوکھے ہیں، جن کے لذیذ کھانے مقامی لوگوں میں مقبول ہیں۔

شہر کے مرکز حضرت گنج میں صبح کے اوقات میںپانچ بجے ’شرما جی‘ کی چائے کے کھوکھے پر رش ہے جہاں چائے مٹی کے کوزوں میں دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ گرما گرم بن ملتے جن پر مکھن لگا ہوتا ہے۔

صبح کی سیر پر آنے والے، سیاست پر بات کرتے صحافی اس سٹال کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں جو 1949 سے کام کر رہا ہے اور اب سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

ناشتے کے لیے آپ ’نیترم‘جا سکتے ہیں جو پرانے علاقے ’امین آباد‘ میں 1880 سے قائم ہے اور تقریباً 150 سال گزرنے کےبعد بھی یہ جگہ اب بھی گرم کچوریوں اور جلیبیوںکے لیے بہت مشہور ہے۔

انمول اگروال اور اُن کے بیٹوں نےآباؤ اجداد کی ترکیبیں سنبھال کر رکھیں ہیں۔ اُن کے خاندان کی چھٹی نسل اب اس کاروبار کی مالک ہے۔

اُن کے بیٹے آٹوموبائل انجینیئر اپنی میراث کو جاری رکھنے کے بارے میں پرعزمہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میرے خون میں رواں ہے اور اس کے علاوہ میں کچھ نہیں کروں گا۔‘

Getty Imagesشرما جی کا سٹال اپنی منفرد چائے کے لیے مشہور ہے

اس شہر میں منفرد موسمی پکوان بھی ملتے ہیں جیسے سردیوں کے موسم میں بادل کی طرح منفرد مکھن ملائی، اسےبنانا کافی مشکل ہے اور یہ سائنسی عمل ہے۔

باورچی ہاتھ سے دودھ پھینٹتا ہے اور پھر اسے رات بھر کھلے آسمان میں شبنم میں چھوڑ دیتا ہے۔ جس سے پھٹا ہوا دودھ اور زیادہ جاگ دار ہو جاتا ہے۔

سردیوں کی سرد ترین صبح میں بھی امین آباد اور مختلف سڑکوں پر لائن میں کئی دکانیں ہیں تاہم بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچے یہ فن سیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔

لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے شیف رنویر برار کا کہنا ہے کہ یونیسکو کی پہچان سے حقیقی قدر تب ملے گی جب لکھنؤاپنے کم معروف کھانے کو بھی نمایاں کر سکے۔

مادھوری کریجا کہتی ہیں کہ لکھنؤ میں ہر پکوان کی ایک کہانی ہے، جس کے کردار کھانے پینے کے کاروبار کرنے والے افراد، خاندانی پکوانوں کی حفاظت کرنے والے ریستوران اور سڑکوں پر کھانے بیچتے فوڈ سٹالز ہیں۔

انھیں امید ہے کہ بین الاقوامی پذیرائی ملنے کے بعد دنیا بھر سے زیادہ سے زیادہ لوگ ان کہانیوں کو جاننے اور لکھنؤ کے لذیذ کھانوں کا ذائقہ چکھنے کے لیے شہر کا رخ کریں گے۔

لکھنؤ کا کبابوں سے عشق اور آلودگی: ’کباب کوئلے کی جگہ گیس پر سینکے جائیں گے تو ظلم ہو گا‘نوابوں کی پسندیدہ میٹھے چاولوں کی ڈش متنجن کا آغاز کیسے ہوا’دھاگے والا کباب‘ جس کے لیے لائن میں لگنا پڑتا ہے’کوٹھے کی مٹھائی‘: ترکیہ کا مشہور پکوان جسے ’قدرتی ویاگرا‘ مانا جاتا ہےبھنگ والی ٹھنڈائی: ’بابا کا پرساد‘ جو منھ میٹھا کر کے میلوں میں جان پھونک دیتا ہےبریانی کہاں سے آئی اور اس پر بحث کیوں ہوتی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More