’طیب بات نہیں کرنی، طیب تمھاری جرات نہیں سوال کرنے کی۔‘ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہنیں جب پیر کو اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کے لیے آئیں تو آغاز میں ہی وکیل نعیم پنجوتھہ سامنے زمین پر براجمان صحافی طیب بلوچ سے کچھ یوں مخاطب ہوئے۔
طیب بلوچ کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے وکیل کے اِن الفاظ کے بعد وہاں تناؤ بڑھ گیا۔ اچانک کچھ لوگ طیب بلوچ کی طرف بڑھے اور انھیں دھکا دے کر زمین پر گِرا دیا۔ اس دوران کچھ لوگوں نے صحافی کو بچانے کی بھی کوشش کی۔
جہاں ایک طرف وکیل نعیم پنجوتھہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ صحافی طیب بلوچ علیمہ خان کی گفتگو میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے تو دوسری طرف خود طیب بلوچ نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں عمران خان کی بہن علیمہ خان سے سخت سوال پوچھنے پر زد و کوب کیا گیا ہے۔
بعد ازاں خود علیمہ خان نے اپنی پریس ٹاک کے دوران الزام لگایا کہ ’تین، چار لوگوں کو یہاں خواتین پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔‘
تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ ’یہاں لوگوں کو جذباتی طریقے سے اس کا جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایسے لوگ جن کو خاص تنگ کرنے کے لیے یہاں بھیجا جاتا ہے، ان کو جذباتی جواب دینے کا فائدہ نہیں ہے۔‘
دریں اثنا پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صحافی طیب بلوچ کو صرف اور صرف اختلافِ رائے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو کہ نا قابلِ قبول ہے۔ سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
Getty Imagesپیر کو علیمہ خان کی پریس کانفرنس کے دوران کیا ہوا؟
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے دو مختلف ورژن ہیں۔ مگر ویڈیو میں یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگوں نے طیب بلوچ کو دھکا دے کر زمین پر گِرایا اور انھیں زد و کوب کرنے کی کوشش کی۔
جب بی بی سی نے صحافی طیب بلوچ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں علیمہ خان کی ’امریکہ میں مبینہ جائیداد پر سوال کرنے پر‘ ہدف بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب علیمہ خان اڈیالہ جیل سے باہر نکلیں تو میں صحافیوں کے درمیان جا کر بیٹھ گیا تاکہ سوال کر سکوں۔‘
ان کے بقول گذشتہ منگل انھوں نے علیمہ خان سے ان کی امریکہ میں مبینہ جائیداد سے متعلق سوال پوچھا تھا جس پر انھوں نے ’بہت بُرا منایا۔‘
طیب کا الزام ہے کہ پیر کو بھی اڈیالہ جیل کے باہر یہی سوال پوچھنے سے پہلے نعیم پنجوتھہ نے انھیں فوراً ٹوک دیا اور ’کارکنان کو تشدد پر اُکسایا۔‘
طیب بلوچ کے مطابق ’مجھ پر تشدد بھی کیا گیا۔‘ تاہم صحافی کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں ’بچانے والے بھی پی ٹی آئی کے ہی لوگ تھے۔‘
دوسری طرف نعیم پنجوتھہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ صحافی طیب بلوچ علیمہ خان کی گفتگو میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے۔
وکیل کے مطابق انھوں نے کارکنان سے طیب بلوچ کو اسی وجہ سے وہاں سے نکالنے کو کہا تھا کیونکہ وہ ’تواتر سے علیمہ خان سے بدتمیزی سے پیش آ رہے تھے۔‘
خیال رہے چند روز قبل علیمہ خان نے صحافی طیب بلوچ پر میڈیا گفتگو کے دوران یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان سے بدتمیزی سے سوالات کرتے ہیں۔
جبکہ طیب بلوچ نے علیمہ خان کے اس الزام کی تردید کی ہے۔
’پی ٹی آئی کو معافی مانگنی چاہیے‘
جہاں حکومت کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے وہیں بعض صحافی بھی اس پر پی ٹی آئی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
صحافی مطیع اللہ جان نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’اگر صحافیوں پر تشدد پی ٹی آئی کی پالیسی نہیں ہے تو انھیں اس واقعے کی مذمت اور اس پر فوری معافی مانگنی چاہیے۔‘
صحافی مریم نواز خان نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’پی ٹی آئی اگر تشدد کو جائز سمجھتی ہے تو پھر اس کا اعلان کرے، بصورت دیگر طیب بلوچ پر تشدد قبول کرے۔‘
’تشدد کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔‘
دوسری جانب کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ طیب بلوچ نے علیمہ خان سے ’نامناسب‘ انداز میں سوالات کیے۔
جیسے احمد وڑائچ اپنی ایک پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ ’صحافی چھوڑیں کیا کوئی بھی مناسب انسان بزرگ خاتون سے ایسے مخاطب ہوتا ہے؟
’بنیادی تہذیب، اخلاق، شائستگی سے عاری شخص کو صحافت کی آڑ نہ دیں۔‘
ادھر ایکس پر پی ٹی آئی کی جانب سے اظہر مشوانی کا ایک پیغام ری پوسٹ کیا گیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’صحافت کی کالی بھیڑوں کا تمام ایونٹس اور پریس کانفرنسز سے داخلہ بند کرنا چاہیے۔‘
’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ کے بارے میں آئی ایس پی آر کی تردید پر سہیل وڑائچ کی وضاحت: ’جن نکات کی اتنے بڑے پیمانے پر تردید کی گئی ہے ان کا ذکر تو کہیں تھا ہی نہیں‘مطیع اللہ جان اور اسد طور کے یوٹیوب چینل بلاک کرنے کا حکم معطل: ’درخواست گزاروں کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا‘پاکستان کے نجی چینلز سے اینکرز ’آف ایئر‘: ’عمران خان دور میں جو سکھایا گیا، اس پر اب شہباز شریف حکومت عمل پیرا ہے‘ارشد شریف کی بیوہ کو زرِ تلافی دینے کا حکم ’کینیا میں پولیس اہلکاروں کے لیے وارننگ شاٹ کے مترادف ہے‘’فوراً فون آجاتا ہے کہ خبر ہٹا دیں‘: پاکستان آزادی صحافت کی عالمی فہرست میں ایک سال میں چھ درجے نیچے کیوں آ گیا؟