بالی وڈ کی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو وقت کے دھارے میں بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، اور یش جوہر کا نام ان میں سب سے نمایاں ہے۔لاہور کی گلیوں سے نکل کر فلمی دنیا کے بڑے پردوں تک پہنچنے والے اس پروڈیوسر کی کہانی، خواب اور جدوجہد بہت سوں کے لیے آج بھی ایک مثال ہے۔یہ کہانی ہمیں لے جاتی ہے یش جوہر کے ابتدائی دنوں سے لے کر اُن کے پروڈکشن ہاؤس دھرما کے عروج تک، اور بتاتی ہے کہ کس طرح ایک خاندان نے بالی وڈ پر اپنا راج قائم کیا۔
بات ہو رہی ہو یش جوہر کی تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کرن جوہر کا ذکر نہ ہو کیوں کہ کرن نہ ہوتے تو یش جوہر کا دھرما پروڈکشنز کو بالی وڈ کا سب سے بڑا پروڈکشن ہاؤس بنانے کا خواب شاید تشنہ رہ جاتا۔یہ بات مگر کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ یش جوہر یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے بیٹے کرن فلم ’دل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘ کے ذریعے اپنے فلمی سفر کا آغاز کریں۔ وہ تو یہ چاہتے تھے کہ اُن کا بیٹا آدتیہ چوپڑا کے علاوہ کسی اور فلم ڈائریکٹر کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کرے۔کرن جوہر نے اپنے ایک پرانے انٹرویو میں معروف صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’آدتیہ چوپڑا نے اُنہیں ’دل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘ میں بطور معاون شامل ہونے پر مجبور کیا کیوں کہ وہ تین ہفتوں تک فلم کے سکرپٹ پر ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کرتے رہے تھے۔‘کرن جوہر نے ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انہوں نے ایک دن اچانک کہا کہ اب جب تم اس سکرین پلے کے اس قدر قریب ہو چکے ہو، تو میری مدد کرنے سے کیوں گریزاں ہو؟‘’میں نے اُنہیں بتایا کہ میں ہندی فلم نہیں بنا سکتا۔ یہ میرے بس کی بات نہیں۔ میں فلم کی ہدایت کاری نہیں کر سکتا۔‘ آدیتہ چوپڑا نے کہا کہ ’سوچو، تم میں یہ صلاحیت موجود ہے۔‘بات جب بن نہ سکی اور کرن اپنے والد کو اپنے فیصلے پر رضامند نہ کر سکے تو انہوں نے اپنی والدہ سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے کرن کو ایک بار پھر والد سے بات کرنے کا کہا۔باپ اور بیٹے کا یہ مکالمہ ’دل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘ کی تخلیق کی بنیاد ثابت ہوا جو بالی وڈ کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ہے۔
یش جوہر نے کرن جوہر سے کہا کہ ’تم یش چوپڑا کے ساتھ کام کرو کیونکہ وہ بڑے آدمی ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یش جوہر نے کرن سے استفسار کیا کہ ’تم آدتیہ کی مدد کیوں کر رہے ہو؟ یش چوپڑا کی مدد کرو۔ وہ بڑے آدمی ہیں۔‘کرن نے اپنے والد کو قائل کرنے کے لیے کہا کہ ’میرا دل کہتا ہے کہ مجھے اُن کی مدد کرنی چاہیے۔ آپ مجھے بس یہ ایک سال دے دیجیے اور پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اور یوں یہ سب ہوا۔‘ذکر آدتیہ چوپڑا کا ہوا تو یہ بتاتے چلیں کہ وہ ایک اور عظیم فلم میکر یش چوپڑا کے بیٹے ہیں۔ یہ وہ یش چوپڑا ہی ہیں جن کی جنم بُھومی لاہور ہے اور انہوں نے اپنی جوانی کے اہم ماہ و سال اسی شہرِ پُرکمال میں گزارے۔ان کی ایک بہن ہیرو چوپڑا تھیں جن کی شادی یش جوہر سے ہوئی تو یوں کرن جوہر اور آدتیہ چوپڑا فرسٹ کزن بھی ہیں۔عظیم فلم میکر بی آر چوپڑا یش چوپڑا کے بڑے بھائی تھے اور غیرمنقسم ہندوستان کے شہر لاہور میں کئی برس تک فلمی صحافت سے منسلک رہے۔بالی وڈ کے یہ عظیم میکر آج ہی کے روز 6 ستمبر 1929کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ کچھ جگہوں پر اُن کی جائے پیدائش امرتسر بھی درج ہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چوپڑا اور جوہر خاندان لاہور سے تھے جن کے بنائے پروڈکشن ہاؤسز دھرما پروڈکشنز اور یش راج فلمز بالی وڈ میں مرکزی دھارے کے سنیما کے اہم ترین نام ہیں۔یش جوہر ان فلم میکرز میں سے ایک ہیں جو سیکھ کر آگے آئے بلکہ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1950 کی دہائی کے اوائل میں پبلسِسٹ اور سٹِل فوٹوگرافر کے طور پر کیا۔
باپ اور بیٹے کا مکالمہ ایک کامیاب ترین فلم ’دل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘ کی تخلیق کی بنیاد ثابت ہوا (فائل فوٹو: یش راج فلمز)
ریڈیف میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق یش جوہر نے 1952 میں فلم انڈسٹری میں سنیل دت کے پروڈکشن ہاؤس اجنتا آرٹس سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ وہ فلموں جیسے ’مجھے جینے دو‘ اور ’یہ راستے ہیں پیار کے‘ کی پروڈکشن ٹیم سے منسلک رہے۔انہوں نے اس زمانے میں لیجنڈ اداکار دیو آنند کی یادگار فلم ’گائیڈ‘ کی پروڈکشن میں مدد کی، جو باکس آفس پر زبردست کامیاب رہی۔ وہ اگلے کئی برس تک دیو آنند کی نیوکٹن فلمز کے ساتھ کام کرتے رہے اور ’جیول تھیف‘، ’پریم پجاری‘ اور ’ہرے رام ہرے کرشنا‘ جیسی فلموں کی پروڈکشن ٹیم میں شامل رہے۔یہ سال 1976 تھا جب یش جوہر نے ’دھرما‘ کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس قائم کیا۔ کمپنی کی پہلی فلم ’دوستانہ‘کی ہدایت کاری راج کھوسلہ نے کی جو باکس آفس پر زبردست کامیاب رہی۔ یہ راج کھوسلہ کی بطور ہدایت کار آخری کامیاب ترین فلموں میں سے ایک تھی۔لدھیانہ کے راج کھوسلہ نے لیجنڈ فلم میکر گرو دَت کے معاون کے طور پر کام شروع کیا تھا اور وہ اپنے عہد کے کامیاب ترین ہدایت کاروں میں سے ایک تھے۔کرن جوہر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میرے والد 30 سال تک پروڈکشن کنٹرولر رہے اور جب انہوں نے اپنی پہلی فلم ’دوستانہ‘ پروڈیوس کی تو بہت بھاری قرضہ لیا اور یہ فلم کامیاب ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے کئی اور فلمیں بنائیں لیکن یہ سب فلاپ ہو گئیں۔‘
یش جوہر کی بطور پروڈیوسر 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کبھی خوشی کبھی غم‘ نے زبردست کامیابی حاصل کی (فائل فوٹو: دھرما پروڈکشن)
انہوں نے اپنے اس انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ’جب یش جوہر کی پروڈیوس کردہ چند فلمیں فلاپ ہو گئیں تو انڈسٹری اُن کو نظرانداز کرنے لگی۔‘ہدایت کار نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دھرما پروڈکشنز نے جب اپنے بہترین دور میں قدم رکھا تو ان کے والد ان کے ساتھ موجود نہیں تھے۔‘یش جوہر نے ’دوستانہ‘ کے بعد یکے بعد دیگرے بہت سی فلمیں پروڈیوس کیں جن میں دنیا (1984)، اگنی پتھ (1990)، گمراہ (1993) اور ڈپلیکیٹ (1998) نمایاں ہیں۔آگے بڑھنے سے قبل کچھ ذکر فلم ’اگنی پتھ‘ کا ہو جائے جس کے بارے میں فلم فیئر میگزین لکھتا ہے کہ ’یہ فلم کاروباری طور پر تو زیادہ کامیاب نہیں رہی، لیکن اس نے ایک کلٹ سٹیٹس ضرور حاصل کر لیا، اور اس کی مقبولیت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔‘گذشتہ ہزاریے کی آخری دہائی میں یش جوہر نے وہ کامیابی دیکھی جو بہت کم پروڈیوسرز کو حاصل ہوئی جس کا آغاز بالی وڈ کی کلٹ فلم ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ سے ہوا۔ اس کے ہدایت کار تو تھے نوجوان کرن جوہر مگر پروڈیوسر یش جوہر تھے۔ یہ فلم شاہ رُخ خان، کاجول اور رانی مکھرجی کے کیریئر کے لیے بھی اہم سنگِ میل ثابت ہوئی۔فلم فیئر میگزین اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’یہ وہ فلم تھی جس نے دھرما پروڈکشنز کو نمبر ون فلم سٹوڈیو بنا دیا۔
یش جوہر کے بیٹے کرن جوہر کا شمار بالی وڈ کے کامیاب ترین فلم میکرز میں ہوتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یش جوہر کے بیٹے کرن جوہر کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم ایک کمنگ آف ایج ڈرامہ تھی، جس میں دل کو گرمانے والی محبت کی کہانی پیش کی گئی تھی۔ شاندار پروڈکشن، ڈیزائنر کپڑے اور کچھ بہترین گانے اور یہ تمام آٹھ گیت کامیاب رہے اور آج بھی مقبول ہیں جنہوں نے فلم کو ایک الگ ہی شناخت دی۔ شاہ رخ خان، کاجول اور رانی مُکھرجی کی بہترین اداکاری نے اسے انڈیا اور بیرون ملک باکس آفس کا ریکارڈ توڑنے میں مدد دی۔‘یش جوہر کی بطور پروڈیوسر اگلی فلم ’کبھی خوشی کبھی غم‘ تھی جس کے ہدایت کار ایک بار پھر ان کے بیٹے کرن جوہر تھے۔ سال 2001 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم بھی زبردست کامیاب رہی۔فلم فیئر میگزین لکھتا ہے کہ ’فلم میں امیتابھ بچن، جیا بچن، شاہ رخ خان، کاجول، ریتک روشن اور کرینہ کپور نے مرکزی کردار ادا کیے، اور یہ واقعی تمام ملٹی سٹارر فلموں کی ’باپ‘ تھی۔‘میگزین مزید لکھتا ہے کہ ’یش جوہر نے یقینی بنایا کہ پروڈکشن ویلیوز کے لحاظ سے یہ فلم تمام موجودہ معیارات سے بالاتر ہو، اور فلم کی شوٹنگ وسیع پیمانے پر برطانیہ اور مصر میں کی گئی۔‘’ہدایت کار کرن جوہر نے ہمیں ایک ایسا ویژوئل تجربہ فراہم کیا جو بالکل کسی پینٹنگ سے نکلتا ہوا محسوس ہوتا تھا اور انہوں نے اپنی شاندار کاسٹنگ سے بہترین نتائج حاصل کیے۔‘
یش جوہر چاہتے تھے کہ اُن کا بیٹا آدتیہ چوپڑا کے علاوہ کسی اور فلم ڈائریکٹر کے ساتھ فنی سفر شروع کرے (فائل فوٹو: اے این آئی)
اس دوران یش جوہر نے سال 1999 میں شاہ رخ خان، جوہی چاؤلہ اور عزیز مرزا کی پروڈکشن اور تقسیم کار کمپنی ڈریمز ان لمیٹڈ کے قیام میں عملی کردار ادا کیا اور پروڈکشن ہاؤس کی اولین فلم ’پھر بھی دل ہے ہندوستانی‘ (2000) کی پروڈکشن کی ذمہ داری سنبھالی۔یش جوہر کی بطور پروڈیوسر آخری فلم ’کل ہو نہ ہو‘ تھی۔ یہ سال 2003 کی کامیاب ترین فلم قرار پائی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کے ہدایت کار کرن جوہر نہیں بلکہ ایک سندھی ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والے نکھل ایڈوانی تھے۔فلم فیئر میگزین لکھتا ہے کہ ’یہ کئی برسوں کے بعد پہلی بار تھا کہ دھرما پروڈکشنز نے بیرونی ٹیلنٹ کی طرف دیکھا اور نکھل ایڈوانی سے ہدایت کاری کروائی۔ کرن جوہر نے بیک سیٹ لی اور نوآموز نِکھِل ایڈوانی کو فلموں میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع دیا۔ یہ فلم نیو یارک میں شُوٹ کی گئی تھی اور اس میں جیا بچن، شاہ رخ خان، سیف علی خان اور پرِیتی زنٹا نے مرکزی کردار ادا کیے۔‘یش جوہر نے نصف صدی پر محیط اپنے طویل فنی کیریئر میں تقریباً نو فلمیں پروڈیوس کیں۔ ان کی سب سے بڑی کامیابیاں ان کے بیٹے کرن جوہر کی ہدایت کاری کی مرہونِ منت تھیں، اور یہ حقیقت ہمیشہ کرن جوہر کے لیے باعثِ دکھ رہی کہ ان کے والد کی کئی فلمیں ناکام رہیں۔
چوپڑا اور جوہر خاندان لاہور سے تھے جن کے پروڈکشن ہاؤسز بالی وڈ میں سنیما کے اہم ترین نام ہیں (فائل فوٹو: وِکی میڈیا)
انہوں نے اس کا ذکر اپنے ایک انٹرویو میں بھی کیا کہ ’فلمیں جب کامیاب نہیں ہوتیں تو انڈسٹری کا ردِعمل مختلف ہوتا ہے۔ ہمیں فلموں کے پریمیئرز پر مدعو کیا جاتا تھا، لیکن بہت ہی معمولی نشستیں دی جاتی تھیں۔‘’والد صاحب خود نہیں جاتے تھے، لیکن وہ مجھے جانے کے لیے کہتے تھے اور میں نے اُن کی آنکھوں میں درد دیکھا۔ سوال یہ ہے کہ انہیں مدعو ہی کیوں کیا جاتا تھا جب اُن کی عزت نہیں کی جا رہی تھی۔ ناکامی قبول کرنا کسی طور پر آسان نہیں۔‘یش جوہر زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے رہے اور بالآخر وہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔اس دوران وہ کینسر جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہوگئے اور 26 جون 2004 کو اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔ اس وقت اُن کی عمر 74 برس تھی۔ انہوں نے ایک طویل اور بھرپور زندگی گزاری۔یہ بھی ایک منفرد اعزاز ہی ہے کہ ان کی آخری تین فلمیں ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’کبھی خوشی کبھی غم‘ اور ’کل ہو نہ ہو‘ نے ان کی ماضی کی ناکامیوں کے تمام داغ دھو دیے۔ ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ نے تو بہترین فلم کا فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔یش جوہر کے بیٹے کرن جوہر کا شمار بالی وڈ کے کامیاب ترین فلم میکرز میں ہوتا ہے اور یش جوہر کا قائم کیا گیا پروڈکشن ہاؤس ’دھرما‘ بالی وڈ میں کامیابی کی ضمانت بن چکا ہے۔
کینسر جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد یش راج 26 جون 2004 کو چل بسے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کرن جوہر نے رواں سال عالمی یومِ پدر پر اپنے والد یش جوہر کو کچھ ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا کہ ’انہوں نے رُوح کے ساتھ اور رُوح کے لیے فلمیں بنائیں… اور وہ زندگی کو اس سے بھی زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ جیتے تھے۔‘انہوں نے مجھے سکھایا کہ اچھی کہانی سنانے کا آغاز خود سے اور تمہارے اچھے دل سے ہوتا ہے۔ شکریہ کہ آپ نے مجھے گہرائی سے محسوس کرنے کی ہمت دی۔ شکریہ کہ آپ نے مجھے یہ احساسات بڑے پردے پر دکھانے کی ہمت دی۔‘بالی وڈ میں بہت سے پروڈیوسر اور ہدایت کار گزرے ہیں، کچھ اپنی زندگی میں کامیاب ترین تھے مگر تاریخ اُن کو فراموش کر چکی ہے۔تاہم یش جوہر کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے کیوں کہ اُن کی فنی میراث کو ان کے بیٹے کرن جوہر کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں جنہوں نے والد کے خواب دھرما پروڈکشنز کو بالی وڈ میں وہ مقام عطا کیا کہ آج یش جوہر کا نام بالی وڈ کے اتہاس میں امر ہو چکا ہے۔