Getty Imagesچین اور انڈیا جیسے ممالک میں صدیوں سے علمِ نجوم کا استعمال ہو رہا ہے
ہم میں سے بہت سارے لوگوں کا ایک نہ ایک دوست ایسا ضرور ہو گا جو کہ صرف اس لیے ستاروں کا علم رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ یہ معلوم کر سکے کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے وہ اس کی قسمت میں ہے یا نہیں۔
یہ ایک مذاق کی بات ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہو علمِ نجوم (ستاروں کے علم) کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی شخص کی پیدائش کے وقت سیاروں اور ستاروں کی چال ان کی زندگی اور شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
چین اور انڈیا جیسے ممالک میں صدیوں سے علمِ نجوم کا استعمال ہو رہا ہے۔ انڈیا میں کچھ سیاستدان نجومیوں سے صرف اس لیے رابطے کرتے ہیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ان کے الیکشن میں جیتنے کے امکانات کتنے ہیں۔
اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں بھی لوگ نہ صرف علمِ نجوم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اسے سیاسی اور بین الاقوامی واقعات کی پیش گوئی کرنے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح کے کام یورپ اور امریکہ میں بہرحال کم ہوتے ہیں، لیکن وہاں ایسا ہو ضرور رہا ہے۔
ٹک ٹاک پر شمالی امریکہ کے ایسے بہت سارے ٹک ٹاکرز موجود ہیں جو کہ علمِ نجوم کی مدد سے علاقائی صورتحال بتا رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ ایک نقشے کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں جس پر سورج، چاند اور ستارے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔
اُن کے مطابق یہ سورج، چاند اور ستارے اس وقت بھی اُن ہی مقامات پر موجود تھے جب امریکہ، عراق اور یورپی ممالک وجود میں بھی نہیں آئے تھے۔
ANTHONY WALLACE/AFP via Getty Imagesمغرب میں بھی لوگ نہ صرف علمِ نجوم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں
ایران پر امریکی حملے کے بعد ایک ٹک ٹاکر نے اپنی ویڈیو میں کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کے یورینس کی لکیر ایران کی طرف جا رہی ہے، جس کا مطلب خراب تعلقات ہوتے ہیں۔‘ ایک اور ٹک ٹاکر نے ایسی ہی ویڈیو اُسی دن پوسٹ کی جس میں یکم یا جو دو جولائی کو ایران پر حملے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
ایسی پیش گوئیاں اکثر غلط ثابت ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ایسے مواد کی بہت ڈیمانڈ ہے۔
گذشتہ پانچ برسوں میں گوگل ٹرینڈز پر ’علمِ نجوم‘ اور ’جنگ‘ جیسے لفظوں کو بہت سرچ کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس، پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ اور روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کے وقت ایسی سرچز میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
لندن میں موجود ایک ایرانی شہری نے مجھے بتایا کہ جس وقت تہران پر بمباری ہو رہی تھی انھوں نے اور ان کی بہن نے ماہرِ علم نجوم سے رابطہ کیا تاکہ اپنے ملک کے مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی حاصل کی جا سکے۔
یونیورسٹی آف واٹرلو سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر گیلن واٹس کہتے ہیں کہ ’بڑے علاقائی واقعات کو سمجھنے کے لیے علمِ نجوم کا استعمال کوئی اچھا آئیڈیا نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ علمِ نجوم کی ’تعریف‘ خود یہ بتاتی ہے کہ اس کے مؤثر ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
Majority World/Kuldeep Singh Rohilla/Universal Images Group via Getty Imagesانڈیا میں علمِ نجوم کو بہت سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے
نیو یارک میں موجود ماہرِ علم نجوم علیزا کیلی کو لوگوں کے ان کے علم میں دلچپسی پر خوشی ہے تاہم سوشل میڈیا پر اس سے متعلق مواد کی اخلاقی حیثیت پر ان کو تشویش ہے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’کسی ایٹمی حملے یا تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئی کے لیے 90 سیکنڈ کی ویڈیو بنانا، شاید یہ ایسی معلومات جاری کرنے کا اخلاقی طریقہ نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ایسی ویڈیوز کو زیادہ توجہ ملتی ہے لیکن یہ سب درست چیزیں نہیں ہیں۔
جادو ٹونے کے الزام میں ایک خاندان کے پانچ افراد قتل: ’مرنے والوں پر بچے کے علاج کے لیے دباؤ ڈالا گیا‘فلپائن کا وہ ’طلسماتی جزیرہ‘ جہاں آج بھی ہر بیماری کا علاج ’جادو ٹونے‘ سے کیا جاتا ہےمذہب، شیطان، جادو اور اچھائی کے گِرد گھومتی وہ پہیلی جسے دو ہزار سال میں کوئی بھی حل نہیں کر پایاانڈیا کے قبائلی علاقے جہاں جادو ٹونہ کرنے کے شکپر خواتین کو ’چڑیل‘ قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے
’یہ ایک خطرناک کھیل اس وقت بن جاتا ہے جب آپ کی ساکھ کا انحصار ایسی پیش گوئیوں پر ہوتا ہے۔ یہ وہ علمِ نجوم نہیں ہے جس کی پریکٹس میں کرتی ہوں۔‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ امریکہ کی اندورنی سیاست کے سبب بھی لوگوں کی علمِ نجوم میں دلچسپی بڑھی ہے۔
اس بات کا اندازہ انھیں اس وقت ہوا جب سنہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو شکست دی۔ وہ اس وقت ایک الیکشن واچ پارٹی میں موجود تھیں جہاں تمام مہمانوں کی آنکھیں ٹی وی سکرین پر تھیں اور سب الیکشن کا نتیجہ جاننے کے لیے بیتاب تھے۔
’لوگ اس وقت میرے پاس آنا شروع ہوگئے یہ پوچھنے کے لیے کہ ہو کیا رہا ہے؟ انھیں کیا توقع رکھنی چاہیں؟ ٹرمپ کا زائچہ کیا کہتا ہے؟ ہیلری کا زائچہ کیا کہتا ہے؟‘
کیلی کے مطابق ’اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ لوگ سیاسی اور علاقائی پیش رفت سمجھنے کے لیے بھی علم نجوم کے استعمال میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
Cassie Leventhalکورونا وائرس کے پھیلاؤ کے وقت کیسی کی علمِ نجوم میں دلچسپی بڑھی
کورونا وائرس کا پھیلاؤ ایک اور موقع تھا جب لوگ غیریقینی کی صورتحال میں جوابات کی تلاش میں تھے۔ اسی دوران کیسی لیونتھل نے اس وبا کے پھیلاؤ کی پیش گوئی کے لیے علمِ نجوم کا سہارا لیا۔ ان کے والدین اس وقت کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔
انھوں نے اپنے والدین کو احتیاطی تدابیر بتانے اور مزید چوکس بنانے کے لیے علمِ نجوم کا سہارا لیا۔
جب میں نے کیسی کو کہا کہ علمِ نجوم کی سائنسی بنیاد نہیں ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ اس معاملے کو ’اپنی ٹول کِٹ میں موجود ایک ایسا ٹول سمجھتی ہیں جو کہ ان کی سمجھ کو بہتر بناتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے امریکی سیاست کو سمجھنے کے لیے بھی علمِ نجوم کا سہارا لیا تھا۔
’ٹرمپ کے زائچے میں نہ کوئی سیارہ اور نہ کسی زمین کا نشان۔ ان کا چاند (جذبات سے منسلک سیارہ) برج قوس میں افراتفری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ کے مزاج میں افراتفری اور جلد بازی نظر آتی ہے۔ ‘
روحانیت یا مذہب؟
ڈاکٹر گلین واٹس کہتے ہیں کہ ’یہاں تکنیکی طور پر یہ کیس بنایا جا سکتا ہے کہ علمِ نجوم ایک روحانی یا شاید مذہبی معاملہ ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ جو افراد ہوروسکوپ دیکھتے ہیں وہ اس بات پر کہیں نہ کہیں یقین رکھتے ہیں کہ کہکشاں کے نظام کا ان کی ذاتی زندگیوں پر فرق پڑتا ہے۔
لیکن دنیا بھر میں علمِ نجوم کا مطلب ہر کسی کے لیے علیحدہ ہے۔
انڈیا میں علمِ نجوم کو بہت سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر وہاں علمِ نجوم کا استعمال ’کُنڈلی‘ بنانے کے لیے ہوتا ہے، جو کہ شادی سے قبل دیکھی جاتی ہے اور اسے دیکھ کر خاندان دو لوگوں کی شادی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر گلین واٹس کہتے ہیں کہ مغرب میں علمِ نجوم کا استعمال دوسرے طریقے سے ہوتا ہے اور اس کو دیکھنے کا انفرادی نظریہ سب کا الگ ہے۔
’جب وہاں لوگ اپنے ستاروں کا علم جانتے ہیں تو وہ بہت لچک دکھاتے ہیں۔ لوگوں کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کتنی بار اور کب اپنی قسمت کا حال جاننا چاہتے ہیں۔ وہ اس کو زیادہ سنجیدگی سے بھی نہیں لیتے۔‘
Photo by Morteza Nikoubazl/NurPhoto via Getty Imagesتنازعات کو سمجھنے کے لیے بھی لوگ علمِ نجوم کا استعمال کر رہے ہیںپیچیدہ سوالات کے آسان جوابات؟
مغرب میں علمِ نجوم کے استعمال میں اضافے کے باوجود پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں صرف 27 فیصد لوگ علمِ نجوم پر یقین رکھتے ہیں، سنہ 2017 اور سنہ 2024 میں یہ نمبر ایک جیسا رہا ہے۔
جب اعداد و شمار ایک بات کی نفی کر رہے ہیں تو پھر علمِ نجوم میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا سوال آ کہاں سے رہا ہے؟
ڈاکٹر گلین واٹس کہتے ہیں کہ مذہب اور روحانیت ماضی میں امریکہ میں عوامی بحث کے موضوعات نہیں تھے۔ لیکن سنہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد علاقائی سوچ میں تبدیلی آئی۔
’اب ہم ان موضوعات پر بھی بات کرتے ہیں جن پر ماضی میں بات نہیں ہوتی تھی، اب لوگ علمِ نجوم کے ماہرین سے بھی رجوع کر رہے رہیں۔‘
ان کے مطابق بہت سارے لوگ علمِ نجوم میں صرف تفریح کے لیے بھی دلچسپی لیتے ہیں۔
’ہم پیچیدہ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن کے حل آسان نہیں۔ شاید اسی لیے لوگ آسان جوابات حاصل کرنے کے لیے علمِ نجوم کا سہارا لیتے ہیں۔‘
پوپ فرانسس کی وفات کو ایک نجومی کی 500 سال پرانی پیشگوئیوں سے کیوں جوڑا جا رہا ہے؟کیا آپ کی تاریخ پیدائش آپ کی آنے والی زندگی اور قسمت پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟دلائی لاما کی 90ویں سالگرہ: بدھ مت کے روحانی پیشوا جو چین کے خلاف خود اپنے جانشین کا اعلان کرنا چاہتے ہیںبہائی مذہب کیا ہے اور قطر میں اس کے رہنما کو سوشل میڈیا پوسٹس پر سزا کیوں سنائی گئی؟’روحانی پیروں‘ کا مسائل کے حل اور جِن نکالنے کے نام پر خواتین کا ریپ اور جنسی استحصال کرنے کا انکشاف