’سامان چھوڑو، بیوی بچوں اور بوڑھوں کو لے کر نالے سے دو ہوجاؤ‘: چرواہے کی گلیشیئر جھیل پھٹنے کی اطلاع جس نے گلگت بلتستان میں انسانی جانوں کو بچایا

بی بی سی اردو  |  Aug 23, 2025

وصیت خان ہر برس تقریباً اپنے 500 مویشیوں اور چند رشتہ داروں کے ہمراہ اس برس بھی موسمِ گرما گزارنے کے لیے گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے علاقے روشن میں واقع پہاڑوں پر موجود تھے جہاں نہ صرف گلیشیئرز ہیں بلکہ برف بھی پورا سال پائی جاتی ہے۔

لیکن انھیں نہیں معلوم تھا کہ اس برس ان کے سامنے ایک انتہائی بھیانک منظر آنے والا ہے اور نہ یہ کہ ان کی دور اندیشی یا پھرتی کے سبب سینکڑوں نہیں تو درجنوں افراد کی جانیں بچنے والی ہیں۔

جمعرات 21 اگست کو جب وصیت خان اپنے عزیزوں کے ہمراہ سونے کی تیاری کر رہے تھے تو موسم بالکل صاف تھا لیکن اگلے ہی روز جمعے کی صبح ان کی آنکھ ایک خوفناک آواز سے کھلی اور انھیں ایسا لگا جیسے کہ کوئی زلزلہ آیا ہو۔

وہ اپنے خیمے سے باہر نکل کر صورتحال کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ اچانک ان کی نگاہ روشن کی طرف جانے والے نالے پر پڑی جس میں تیزی سے ملبہ گر رہا تھا۔

یہ منظر دیکھتے ہی وہ فوراً سمجھ گئے: قریب ہی واقع گلیشیئر پھٹ چکا ہے۔

انھوں نے فوراً ہی اپنے ساتھیوں کو آوازیں دیں اور خواتین کو نسبتاً محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔ اب انھوں نے قریب ہی واقع ایک دوسرے پہاڑ کی طرف دوڑ لگائی جہاں موبائل فون کے سگنلز آتے ہیں۔

وصیت خان کہتے ہیں کہ ’یہ نالہ سیدھا تالی داس نامی گاؤں جاتا ہے جہاں ان کے اپنے گھر بھی واقع ہیں۔‘

’میں نے جوتے پہن رکھے تھے لیکن میرے ساتھی ننگے پاؤں تھے۔ ہمیں جلد ہی دوسرے پہاڑ پر پہنچنا تھا جہاں سگنلز آتے تھے تاکہ ہم اپنے پیاروں کو گلیشیئر پھٹنے اور ممکنہ سیلابی صورتحال سے آگاہ کر سکیں۔‘

وصیت خان اور ان کے ساتھیوں نے قیمتی جانوں کو بچایا

وصیت خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’سب سے پہلے میں نے اپنے والد صاحب کو فون کیا اور کہا کہ علاقہ خالی کریں کیونکہ چند ہی منٹوں میں یہ سیلاب گاؤں تک پہنچ جائے گا۔‘

’میرے پاس جتنے بھی فون نمبر تھے میں نے سب کو کال کی، کچھ نے فون اٹھایا اور کچھ نے نہیں۔ میں نے سب کو کہا کہ سامان چھوڑو، مکان چھوڑو، بیوی، بچوں اور بوڑھوں کو لے اس نالے سے دو ہوجاؤ تاکہ جانیں بچ سکیں۔‘

یہی کام وصیت خان کے ساتھ موجود ان کے ساتھی بھی کر رہے تھے۔

خیال رہے پاکستان کے متعدد علاقے اس وقت مون سون کی شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کی لپیٹ میں ہیں۔ ملک بھر میں اور اس کے زیرِ انتظام علاقوں میں 700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایسے میں وصیت خان اور ان کے ساتھیوں کی برق رفتاری اور حاضر دماغی نے متعدد جانوں کو بچایا ہے۔

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق وصیت خان اور ان کے ساتھیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’اس علاقے میں کبھی قبل از وقت وارننگ سسٹم لگایا گیا تھا مگر وہ برسوں سے خراب پڑا ہے۔‘

’یہ تو وصیت خان اور ان کے ساتھی تھے جنھوں نے بروقت اطلاع فراہم کر کے قیمتی جانوں کو بچالیا۔ تالی داس کے علاقے میں تقریباً 200 گھر ہوں گے اور ان میں 80 فیصد اب تباہ ہو چکے ہیں۔‘

کراچی کی غیر معمولی بارش، پانی میں ڈوبی سڑکیں اور پریشان حال شہری: ’نو گھنٹے پھنسے رہے، گھر آئے تو بجلی غائب‘سوات میں سیلاب کے بعد مینگورہ بازار کیچڑ کے ڈھیر میں تبدیل: ’ملبے نے پل کے ساتھ پھنس کر ڈیم کی شکل اختیار کر لی‘ظہور رحمان: بشونئی میں متعدد افراد کی جانیں بچانے والے استاد جنھیں پانی بہا لے گیا’آپ زمین پر نہیں، کسی کے گھر پر کھڑے ہیں‘: بونیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر پتھر کے نیچے کسی کا مکان دبا ہے‘

فیض اللہ فراق نے مزید کہا کہ ’علاقے کے لوگ سوئے ہوئے تھے اگر اس وقت ان کو بروقت آگاہ نہ کیا جاتا تو ممکنہ طور پر بہت خوفناک تباہی ہوتی۔ اب جانی نقصان نہیں ہوا مگر کچھ لوگ زخمی ضرور ہوئے ہیں۔‘

گلگت بلتستان پولیس نے سیلاب کی وقت پر اطلاع دینے پر وصیت خان کے لیے 10 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔

’نوجوانوں نے عارضی جزیرہ نما زمین سے لوگوں کو ریسکو کیا‘

شریف اللہ ضلع غذر کے علاقے میں ایک کمیونٹی رہنما ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وصیت خان نے جب اپنے والد کو فون کیا تو وہ فوراً حرکت میں آگئے اور انھوں نے آس پڑوس کے لوگوں کو نیند سے جگایا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد جماعت خانے اور مساجد سے لوگوں کے لیے اعلانات کروائے گئے۔

’بروقت اطلاع ملنے پر پوری کمیونٹی فعال ہوچکی تھی، اس موقعے پر کئی لوگ اپنے خاندانوں کو لے کر نکل گئے اور کچھ لوگ اپنا ساز و سامان اٹھانے میں لگ گئے۔‘

’جب وہاں پانی آنا شروع ہوا تو جس زمین پر وہ موجود تھے وہ جزیرے کی شکل اختیار کر گئی اور لوگ اس میں پھنس گئے۔‘

شریف اللہ کے مطابق یہ ایک نازک وقت تھے کیونکہ پانی اور گلیشیئر پھٹنے سے گِرنے والا ملبہ تیزی سے لوگوں کی طرف آ رہا تھا۔

’وہاں پر ایک نوجوان موجود تھا جس کا نام مجھے یاد نہیں۔ اس نے صورتحال دیکھی اور کہا کہ وہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اس کے سامنے عورتیں اور بچے اس سیلاب کی نذر ہوجائیں۔‘

کمیونٹی رہنما کے مطابق دیگر نوجوان بھی آگے آئے اور انھوں نے چند ہی منٹوں میں پانی کے بیچ میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو کیا، جس کے بعد وہ جزیرہ نما زمین بھی پانی میں ڈوب گئی۔

’تالی داس گاؤں میں اب صرف چند ہی گھر بچے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں وصیت خان گھر بھی شامل ہے، جنھیں پہاڑ سے ریسکیو کر کے ان کے گھر کے قریب اُتارا گیا تھا۔‘

وصیت خان اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال

دن کی روشنی میں لوگوں نے دیکھا کہ ان کے قریب بہنے والے دریائے غذر میں پانی کافی بڑی مقدار میں موجود تھا اور میں ٹھوس برف گر رہی تھی۔

شریف اللہ کہتے ہیں کہ تالی داس میں کوئی امدادی کام تھا نہیں اور انھیں اطلاع ملی تھی کہ وصیت خان اور ان کے ساتھی کسی محفوظ جگہ پر تو موجود ہیں مگر ان کے اطراف میں سیلابی ریلہ ہے۔

’ہم نے حکومت سے گزارش کی کہ وصیت خان اور ان کے ساتھیوں کی مدد کی جائے، جس کے بعد انھیں ریسکیو کرنے کے لیے فوجی ہیلی کاپٹر بھیجا گیا۔‘

وصیت خان کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ موجود خواتین کو ایک محفوظ مقام پر چھوڑ کر آئے تھے لیکن جسے راستے سے انھیں واپس جانا تھا وہاں پانی تیزی سے اکھٹا ہو رہا تھا۔

’جہاں پر ہمارے خیمے اور باڑہ تھا وہ سارا علاقہ ختم ہو چکا تھا۔ پانی ہمارے خیمے اور مال مویشی بہا کر لے گیا تھا، ہماری کُل جمع پونجی لُٹ چکی تھی۔‘

’ہم بس یہی امید کر رہے تھے کہ ہماری اطلاع پر لوگوں نے عمل کیا ہو کیونکہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک خطرناک منظر تھا اور بڑے بڑے پتھر نیچے گِر رہے تھے۔‘

تاہم جیسے ہی دوپہر کا وقت قریب پہنچا وصیت خان اور ان کے ساتھیوں کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر نظر آیا۔

وصیت خان کہتے ہیں کہ اس ہیلی کاپٹر نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کے بچانے کی متعدد کوششیں کی اور چوتھی مرتبہ کوشش کرنے پر انھیں کامیابی سے ریسکیو کیا گیا۔

’ہیلی کاپٹر نے ہمیں اپنے گھر کے قریب اُتارا اور مجھے یہ دیکھ کر سکون ملا کہ علاقے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘

گلیشیئر کے سبب بننے والی ایک اور جھیل کے پھٹنے خطرہ

غذر میں ریسکیو 1122 کے اہلکار راجہ اجمل نظیر کہتے ہیں کہ وصیت خان اور ان کے ساتھیوں کی ہمت کے سبب کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن علاقے میں انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

ان کے مطابق اس صورتحال میں ایک بڑا خطرہ یہ تھا کہ گلیشیئر کی برف کے سبب دریائے غذر بند ہو گیا تھا اور اگر گلیشیئر کے یہ ٹکڑے پگھلنے میں زیادہ وقت لیتے تو دریائے غذر میں پانی بڑھتا جاتا اس کے سبب اس سے منسلک دریائے گلگت میں بھی سیلاب صورتحال پیدا ہو جاتی۔

’دریائے گلگت میں سیلاب کا مطلب یہ تھا کہ نیچے کے علاقے بھی خطرے میں پڑ جاتے۔ لیکن دوپہر کے بعد دریائے غذر سے پانی نکلنا شروع ہو گیا جس کے بعد اب دریائے گلگت میں سیلاب کا خطرہ کم ہو چکا ہے۔‘

انٹرنیشنل سینٹر فور انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلوپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) سے منسلک گلیشیئرز پر گہری نظر رکھنے والے محقق ڈاکٹر شیر محمد کہتے ہیں کہ اس مقام پر کئی چھوٹے چھوٹے گلیئشیئرز کے علاوہ برف بھی موجود ہے۔

’ان گلیشیئرز کے کوئی نام نہیں ہیں۔ روشن کے علاقے میں گلیشیئر پھٹنے کے بعد ایک اور صورتحال سامنے آرہی ہے کہ اس علاقے میں گلیشیئرز کے پھٹنے سے وجود میں آنے والی کم از کم چار مزید جھیلیں موجود ہیں۔‘

ڈاکٹر شیر احمد نے مزید بتایا کہ انھیں سیٹلائٹ کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ روشن میں جو گلیشیئر جھیل پھٹی ہے وہ سب سے اوپر واقع تھی، جبکہ اس کے نیچے ایک اور جھیل موجود ہے جو کہ ’پھٹنے والی جھیل سے تین گُنا بڑی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں اسی مقام پر دو چھوٹی جھیلیں اور بھی موجود ہیں۔

’پھٹنے والی جھیل کا پانی اور ملبہ جا کر دوسری جھیل میں گرا ہے اور اب اس میں پانی اور ملبہ بہت زیادہ بھر چکا ہے، اس وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ بھی کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔‘

’جہاں جھیل واقع تھی وہاں گلیشیئر نظر نہیں آ رہا‘

آئی سی آئی ایم او ڈی سے منسلک ڈاکٹر شیر احمد کہتے ہیں کہ جس گلیشیئر پر جمعے کو پھٹنے والی جھیل موجود تھی وہ گلیشیئر 7 اگست تک موجود تھا مگر اب نظر نہیں آ رہا۔

’بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ گرمی کی وجہ سے وہ تیزی سے پگھلا اور پھر گذشتہ روز سیلاب کا سبب بن گیا ہے۔‘

AFP via Getty Imagesڈاکٹرعدنان طاہر کا کہنا تھا کہ گلیشیئر پگھلنے سے صرف پانی نہیں آتا بلکہ بڑے بڑے پتھر او دیگر ملبہ بھی آتا ہے

گلگت بلتستان کے علاقوں میں گرمی کی وجہ سے چھوٹے گلیشیئر تحلیل ہورہے ہیں جن کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

ایبٹ آباد میں کامسیٹس یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عدنان طاہر کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں درجہ حرارت اوسط سے پانچ سے سات درجہ زیادہ رہا ہے، جس وجہ سے گلیشیئر اور برف تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

ڈاکٹرعدنان طاہر کا کہنا تھا کہ گلیشیئر پگھلنے سے صرف پانی نہیں آتا بلکہ بڑے بڑے پتھر او دیگر ملبہ بھی آتا ہے اور اس کے راستے میں جو کچھ آتا ہے اس کے تباہ ہونے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔

’واضح طور پر پاکستانی گلیشیئرز موسمی تبدیلی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس صوتحال میں انسانی جان ومال کے تحفظ کے لیے ارلی وارننگ سسٹم کی اشد ضرورت ہے۔‘

بونیر کا گاؤں جہاں 80 سے زیادہ گھر سیلابی ریلے میں بہہ گئے’سکینہ کے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا، ایک نسل دفن ہو گئی‘: کشمیر اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے کئی گھر اجڑ گئےخیبر پختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاری سے ہلاکتیں 300 سے زائد: ’گھر والوں سے فون پر کہا کہ گھر سے نکل جاؤ مگر جب وہاں پہنچا تو کُچھ باقی نہیں بچا تھا‘پگھلتے گلیشیئرز، گِرتے برفانی تودے اور سیاحوں کی عدم موجودگی: گلگت بلتستان میں کیا ہو رہا ہے؟کوہستان میں گلیشیئر سے ملنے والی 28 برس پرانی لاش جس کی تدفین کے لیے جرگے کی مدد سے ’جنگ بندی‘ کروانا پڑی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More