Getty Imagesانڈین فضائیہ کے سربراہ نے حال ہی میں مئی 2025 میں پاکستانی لڑاکا طیارے گرانے کا دعویٰ کیا ہے
پاکستان اور انڈیا کے درمیان رواں برس مئی میں ہونے والی فضائی جھڑپوں کے لگ بھگ تین ماہ بعد انڈیا کی جانب سے پاکستانی طیارے گرائے جانے کے دعوؤں میں تیزی آ رہی ہے۔
اس کا آغاز گذشتہ سنیچر کو انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ کے اس دعوے سے ہوا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آپریشن سندور‘ کے دوران پاکستان کے پانچ لڑاکا طیارے اور ایک بڑا طیارہ مار گرایا گیا۔ انھوں نے مزید دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا کی جانب سے مار گرایا جانے والا ’یہ بڑا طیارہ ای ایل آئی این ٹی یا اے ای ڈبلیو اینڈ سی ہو سکتا ہے۔‘
انڈین ایئر چیف نے یہ نہیں بتایا تھا کہ انڈیا نے پاکستان کن لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنایا۔ لیکن ایئر چیف کا یہ دعویٰ تھا کہ انڈین حملے میں جیک آباد میں شہباز ایئر بیس کا ایک حصہ تباہ ہو گیا تھا، جہاں ایف-16 طیاروں کو بھی پارک کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈین ایئر چیف کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک بھی پاکستانی طیارے کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کوئی تباہ ہوا ہے۔‘
تاہم پاکستان کی جانب سے تردید کے باوجود انڈین میڈیا نے واضح انداز میں انڈین ایئر چیف کے طیارے گرانے سے متعلق دعوؤں کو کوریج دی۔
اور اب اسی سلسلے میں انڈین نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی ایک رپورٹ کا بھی چرچا ہے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب ’این ڈی ٹی وی‘ نے مئی 2025 میں پاکستان، انڈیا تنازعے کے دوران پاکستانی ایف 16 طیاروں کے مار گرائے جانے سے متعلق امریکی محکمہ دفاع (پیٹاگون) سے رابطہ کیا تو انھوں اس معاملے پر ’حکومتِ پاکستان سے رُجوع کرنے کا مشورہ دیا۔‘
اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 2019 میں پاکستان، انڈیا تنازع کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ایف-16 طیاروں کی تباہی سے متعلق انڈین دعوؤں کو رد کیا تھا، لیکن اب پاکستان کے پاس موجود ایف 16 طیاروں کی گنتی پوری کرنے کے بجائے امریکی حکام پاکستانی حکومت سے رُجوع کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
Getty Images
واضح رہے کہ امریکی ساختہ ایف 16 طیاروں کی دنیا بھر میں فروخت سے متعلق معاہدوں کے تحت امریکہ کسی بھی ملک کو فروخت کیے گئے ایف 16 طیاروں کی گنتی کر سکتا ہے۔ سنہ 2019 میں انڈیا کی جانب پاکستانی ایف 16 طیارہ گرائے جانے کے دعوے کے بعد امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے پاکستان کو دیے گئے طیاروں کی گنتی کی ہے اور وہ پورے ہیں (یعنی انڈین دعوؤں کے برعکس کوئی ایف 16 تباہ نہیں ہوا)۔
امریکہ کی جانب سے ایف 16 طیاروں کی فروخت کے معاہدوں میں امریکہ کی شرط ہوتی ہے کہ خریدنے والا ملک امریکی حکام کی جانب سے سازوسامان کا باقاعدگی سے معائنہ کروائے تاکہ فروخت کیے گئے ساز و سامان کی گنتی اور حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
اور اب انڈین میڈیا کا مؤقف ہے کہ اس بار پاکستانی ایف 16 طیاروں کی گنتی کا عمل کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکرفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیں
انڈین میڈیا میں اسی نوعیت کی رپورٹس کے بعد یہ الزام عائد کیے جا رہے ہیں کہ امریکہ کے اس جواب کے نتیجے میں انڈین ایئر چیف کے بیان کی کسی حد تک تصدیق ہوتی ہے کہ حالیہ فضائی جھڑپوں میں پاکستان کو طیاروں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
یاد رہے کہ تنازع کے لگ بھگ تین ماہ بعد انڈین ایئر چیف کی جانب سے اس نوعیت کے دعوے کو پاکستان نے ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان نے ان فضائی جھڑپوں کے دوران تین انڈین رفال طیاروں سمیت انڈیا کے پانچ طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا تھا کہ پاکستان نے فضائی جھڑپ کے فوری بعد تفصیلی بریفنگ میں انڈین طیارے مار گرانے کے ثبوت دنیا کے سامنے رکھے تھے۔ وزیرِ دفاع نے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ پاکستان اس کے لیے تیار ہے کہ غیر جانبدار ماہرین کی ٹیم دونوں ممالک کے طیاروں کا ریکارڈ اور اُن کی تعداد کی تصدیق کر لے۔
انڈیا نے ان دعوؤں کی براہ راست تصدیق نہیں کی تھی، تاہم سینیئر انڈین فوجی حکام متعدد مواقع پر یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ نقصانات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔
Getty Imagesامریکی ساختہ ایف-16 طیاروں کو پاکستانی فضائیہ میں شامل اہم جنگی جہازوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے سوشل میڈیا پر ردِعمل
اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
رشترا نیتی نامی صارف نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ انڈین ایئر چیف کُھلے الفاظ میں پاکستانی طیاروں کی تباہی کا بتا چکے ہیں لیکن اس کے جواب میں امریکہ کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔
پاکستانی صارف شیخ وجاہت نے لکھا کہ پاکستان کے وزیرِ دفاعطیاروں کی تعداد کی تفصیلات شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں، لہذٰا انڈیا کو یہ پیشکش قبول کرنی چاہیے تاکہ سچ سامنے آ سکے۔
رضوان حیات نامی صارف نے لکھا کہ ’چلیں آج انڈیا نے یہ تو تسلیم کیا کہ 2019 میں کوئی بھی ایف-16 طیارہ نہیں گرا تھا۔ ایک اور سبکی کے بعد انڈیا یہ بھی مان جائے گا کہ 2025 میں بھی پاکستان کا کوئی ایف-16 طیارہ نہیں گرا تھا۔‘
امریکہ اپنے کانٹریکٹرز پر مشتمل ٹیکنیکل سپورٹ ٹیم (ٹی ایس ٹی) کے ذریعے پاکستان کے زیرِ استعمال امریکی ساختہ ایف-16 طیاروں کی معلومات رکھتا ہے۔ یہ ٹیم اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ پاکستان نے جن شرائط کے تحت امریکہ سے یہ طیارے حاصل کیے تھے، کیا اُن کی شرائط کی خؒلاف ورزی تو نہیں ہو رہی۔
معاہدے کے تحت پاکستان پابند ہے کہ وہ یہ طیارے انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کے لیے استعمال کرے گا۔
یہ امریکی ماہرین ایف 16 طیاروں کی مرمت اور اُن کی دیکھ بھال میں پاکستان ایئر فورس کی معاونت کرتے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکرفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںچینی جے 10 سی اور فرانسیسی رفال طیارہ بنانے والی کمپنیوں کے شیئرز میں ’اتار چڑھاؤ‘ کا پاکستان اور انڈیا تنازع سے کیا تعلق ہے؟انڈین رفال طیارے گرائے جانے کے پاکستانی دعوے پر کیا انڈونیشیا کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟