BBC/David Wilkins
تین کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ مالیت کا روسی پرتعیش بحری جہاز جس کا نام ’فی‘ ہے، کو بحیرۂ روم اور کیریبین کے پانیوں میں سفر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا تاہم 59 میٹر طویل یہ بحری جہاز اپنے پہلے سفر کے بعد سے تین سال سے زیادہ عرصے سے لندن کے پانیوں میں موجود ہے۔
یہ دنیا بھر میں ان ایک درجن سے زیادہ روسی بحری جہازوں میں سے ایک ہے، جو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد خبروں میں ہیں لیکن بہت سے لوگوں نے ان کے لیے ذمہ دار حکومتوں کو بڑی قانونی اور مالی پیچیدگیوں کے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں سینٹر فار فنانشل کرائم اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر ٹام کیٹنگ کا کہنا ہے کہ ’ان پرتعیش بحری جہازوں کو پکڑنا ایسے تھا کہ اس خبر کو اخبار کے پہلے صفحے پر ڈالا جا سکتا تھا۔‘
لیکن جنگ کے نقطۂ نظر سے اس سے انھیں کچھ زیادہ حاصل نہیں ہوا اور حکومتوں کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جن کی انھوں نے توقع نہیں کی تھی۔
آج برطانیہ کی سپریم کورٹ نے اس بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے اس بحری جہاز پر لگنے والی پابندیوں کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس جہاز کو برطانیہ میں روکنے اور اس کے مالک اور درخواست گزار مسٹر شوڈلر کے دیگر اثاثوں کو ضبط کرنے کا عمل ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت اور پراپرٹی کے حقوق کو سلب کرنے کے مترادف ہے لیکن یہ مداخلت اس لیے درست تھی کیونکہ اس کا مقصد قانونی ہے اور وہ یہ کہ اس کے ذریعے روسی ریاست پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ یوکرین میں اپنی جارحیت میں کمی لائے۔
BBC/David Wilkinsتین کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ مالیت کے اس روسی پرتعیش بحری جہاز کا نام ’فی‘ ہے
کیپٹن گائی بوتھ نے اس بحری جہاز میں داخل ہوتے ہوئے ہمیں کہا کہ ’فی‘ میں خوش آمدید۔۔۔‘ وہ اس بحری جہاز کی لگژری خصوصیات گنواتے ہیں جن میں ایک سوئمنگ پول بھی شامل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس کی گہرائی میں ردوبدل کر سکتے ہیں، یہ 1.7 میٹر گہرائی تک جا سکتا ہے۔‘
قریب ہی آتش دان بھی ہے اور بیٹھنے کی جگہ ہے جو سینما میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے مالک کے پینٹ ہاؤس اپارٹمنٹ میں ایک ہوادار علاقہ ہے۔
مارچ 2022 سے اس پرتعیش بحری جہاز کو اس قانون کے تحت تحویل میں لیا گیا جو برطانوی حکومت کو روس سے منسلک بحری جہازوں کو رکھنے کی اجازت دیتا ہے جس کا مقصد روس کی اشرافیہ پر دباؤ ڈالنا اور اس کے نتیجے میں صدر ولادیمیر پوتن پر دباؤ ڈالنا ہے۔
دنیا بھر میں روسی سپر یاٹس کو بعض حکومتوں کی جانب سے ضبط کر کے دیکھ بھال کی مد میں لاکھوں ڈالر کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
Sabri Kesen/Anadolu Agency via Getty Images59 میٹر طویل یہ بحری جہاز اپنے پہلے سفر کے بعد سے تین سال سے زیادہ عرصے سے لندن کے پانیوں میں موجود ہے
ایلیکس فن لے سی آئی اے کی سابقہ افسر ہیں۔ انھوں نے یورپ میں خدمات سرانجام دیں اور روسی بحری جہازوں کے بارے میں لکھا اور ان پر لگی پابندیوں پر بات کی۔
ان بحری جہازوں کی دیکھ بھال پر سالانہ بہت بڑا خرچ آتا ہے اور ان کی قیمت کا کم سے کم دس فیصد اس پر لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی سالانہ لاگت لاکھوں پاؤنڈ ہے۔
فن لے کا کہنا ہے کہ یہ کچھ حکومتوں کے لیے بہت بڑی قیمت ہے۔ فی کے مالکان پر مالی پابندیاں نہیں اور وہ اپنے بحری جہازوں کی دیکھ بھال کے لیے ادائیگی کر رہے ہیں۔
مگر بین الاقوامی سطح پر بہت سے ضبط ہونے والے بحری جہازوں کے مالکان پر مالی پابندیاں بھی ہیں، مطلب یہ کہ متعلقہ ممالک کے مقامی قوانین کے مطابق یہ مالکان اپنے بحری جہازوں کی دیکھ بھال کے لیے پیسے نہیں دے سکتے۔
مثال کے طور پر اٹلی میں حکام نے مارچ 2022 سے اب تک سیلنگ یاٹ اے جس کی قیمت 600 ملین امریکی ڈالر ہے، کی دیکھ بھال کے لیے 23 ملین پاؤنڈ خرچ کیے ہیں۔
ترکی بہت سے چھوٹے بحری جہازوں کی دیکھ بھال بھی کر رہا ہے۔ امریکہ کے پاس 106 میٹر لمبا اماڈیا بحری جہاز ہے جس کی قیمت 30 ملین ڈالر ہے۔
روسی حملے کا خطرہ جس نے ناروے جیسے پُرامن ملک کو بھی خفیہ فوجی بنکرز بحال کرنے پر مجبور کر دیا ہےپوتن کا خفیہ ہتھیار: سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کی جانے والی روس کی کارروائیاں جو مغربی دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہیں’عظیم فتح‘: یوکرین کا بھاری ہتھیاروں اور فوجی سامان کو منتقل کرنے والے بڑے روسی جنگی جہاز کو تباہ کرنے کا دعویٰیوکرینی جنگی قیدیوں کو لے جانے والا روسی طیارہ سرحد کے نزدیک گر کر تباہ: روسEUGENE TANNER/AFP via Getty Images)امریکہ کے پاس 106 میٹر لمبا اماڈیا بحری جہاز ہے، جس کی قیمت 30 ملین ڈالر ہے
سانتیاگو میں موجود حکام اس بحری جہاز کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس سے وہ ان کی دیکھ بھال کی فیس بھی لیں گے اور یوکرین جنگ کے لیے فنڈز جمع کریں گے۔
لیکن یہ عمل مستقل طوالت کا شکار ہے جس کی وجہ وہ قانونی جنگیں ہیں جن میں یہ پوچھا جا رہا ہے کہ یہ بحری جہاز کس کے ہیں۔
یوکرین میں موجود حکام کو بھی اسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔ سنہ 2022 سے انھوں نے روس سے تعلق رکھنے والا بحری جہاز رائل رومینس جو کہ کروشیا میں پکڑا گیا تھا، کو بیچنے کی کوششیں کیں لیکن وہ اب تک ناکام ہوئے ہیں۔
ابھی تک فقط ایک ہی بحری جہاز کو حکومت کی درخواست پر بیچا گیا۔
الفا نیرنامی پرتعیش بحری جہاز کا ایک ہفتے کا خرچ انٹیگوا اور باربوڈا کے لیے 28 ہزار امریکی ڈالر تھا اس لیے ان ممالک نے اسے بیچنے کا فیصلہ کیا۔
ترکی کے ایک کھرب پتی شخص نے اسے 40 ملین میں خرید لیا۔
مگر اب ہوا یہ ہے کہ انٹیگوا کی حکومت پر اس بحری جہاز کے مالک کی بیٹی نے مقدمہ کر دیا اور کہا کہ یہ ان کی ملکیت ہے۔
ان روسی بحری جہازوں کے حوالے سے قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں خاص طور پر اس وقت میں جب ان کی ملکیت کو دشمن ممالک کی طرف سے تسلیم نہیں کیا جا رہا۔
BBCان بحری جہازوں کی دیکھ بھال پر سالانہ بہت زیادہ خرچ آتا ہے اور ان کی قیمت کا کم سے کم دس فیصد اس پر لگتا ہے
برطانوی کپتان بوتھ پریشان ہیں کہ اس بحری جہاز کو ساؤتھ ڈاک پر روکا گیا، جہاں بندرگاہ یا دیگر سہولیات موجود نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سب سے زیادہ غلط جو ہو سکتا ہے وہ یہ کہ بحری جہاز میں بجلی کی تاروں کے باعث آگ لگ جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ ابھی اپنے پہلے سفر کے بعد مسائل کا شکار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آتشزدگی کی صورت میں آگ تیزی سے پھیلے گی۔ اس صورت میں یہ بحری جہاز یہیں کناری وارف میں ڈوب جائے گا۔‘
محکمۂ ٹرانسپورٹ سے جب اس بحری جہاز کو کناری وارف میں رکھنے کے خطرات کے بارے میں پوچھا گیا تو اس محکمے نے ایک بیان میں کہا کہ ’وہ کیپٹن بوتھ کے دعوؤں پر جواب نہیں دے سکتے کیونکہ ابھی قانونی کارروائی ہو رہی ہے۔‘
روسی جنگی جہازوں کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ ثابت ہونے والے یوکرین کے سمندری ڈرون جنگ کا پانسہ کیسے پلٹ رہے ہیں؟روس کے ’جاسوس جہاز‘ جو کشیدگی کی صورت میں بحیرہ شمالی میں ’تخریبی کارروائیاں کر سکتے ہیں‘’عظیم فتح‘: یوکرین کا بھاری ہتھیاروں اور فوجی سامان کو منتقل کرنے والے بڑے روسی جنگی جہاز کو تباہ کرنے کا دعویٰیوکرینی جنگی قیدیوں کو لے جانے والا روسی طیارہ سرحد کے نزدیک گر کر تباہ: روسپوتن کا خفیہ ہتھیار: سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کی جانے والی روس کی کارروائیاں جو مغربی دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہیںروسی حملے کا خطرہ جس نے ناروے جیسے پُرامن ملک کو بھی خفیہ فوجی بنکرز بحال کرنے پر مجبور کر دیا ہے