بالی وڈ میں متوازی سنیما کی روایت کے پارکھ شیام بینیگل نے جب ہدایت کاری شروع کی تو ان کو ایسے اداکاروں کی تلاش تھی جو معاوضہ تو کم لیتے مگر وہ اداکاری حقیقت کے قریب تر کر پاتے۔ان کی اس تلاش کا نتیجہ کچھ یہ نکلا کہ بڑے پردے پر کئی نئے اداکار نظر آنے لگے جن میں ایک نصیرالدین شاہ بھی تھے جو آج ہی کے روز 20 جولائی 1950 کو اتر پردیش کے شہر بارہ بنکی کے ایک نواب خاندان میں پیدا ہوئے۔
ان کے پرکھوں میں جان فشار خان ریاستِ سردھانا کے نواب تھے۔ یہ چھوٹا سا قصبہ اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں واقع ہے۔
نصیرالدین شاہ پہلی بار سنہ 1967 میں ریلیز ہونے والی فلم ’امن‘ میں نظر آئے جس میں راجندر کمار اور سائرہ بانو نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کا نصیرالدین شاہ کو صرف ساڑھے سات روپے معاوضہ ملا تھا مگر اس فلم میں کام کرنے کی خوشی اداکار کو ہمیشہ رہی کیونکہ انہوں نے پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا تھا۔اداکار نے اس بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’میں اُس خوشی کو بیان نہیں کر سکتا۔ زندگی میں پہلی بار میں نے کیمرے دیکھے۔ ایک سین تھا، جو بعد میں کاٹ دیا گیا، جس میں ہمیں ایک قطار میں کھڑا کیا گیا اور کیمرہ ایک ایک کر کے ہم سب کی تصویریں لے رہا تھا۔ لیکن جب کیمرہ میرے چہرے کے سامنے آیا، تو اچانک رک گیا اور میں نے اپنے چہرے کا عکس دیکھا۔ وہ لمحہ جادوئی تھا۔‘’امن‘ میں بطور ایکسٹرا کام کرنے کے بعد اداکار کو پہلی بار فلم ’نشانت‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا جس کے ہدایت کار شیام بینیگل تھے اور اس فلم میں شبانہ اعظمی، امریش پوری اور سمیتا پٹیل جیسے اداکاروں نے کام کیا تھا۔نصیرالدین شاہ کے فنی سفر میں یہ فلم اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے بعد ہی درحقیقت ان پر فلم انڈسٹری کے دروازے کھلے۔انہوں نے اپنے ایک پرانے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میرے لیے سب سے یادگار بات یہ ہے کہ انہوں (شیام بینیگل) نے مجھے میری پہلی فلم اور معاوضے کا پہلا چیک دیا۔ شیام کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ان فلم سازوں کے لیے دروازے کھولے جو ایسی فلمیں بنانا چاہتے تھے جن پر وہ یقین رکھتے تھے۔ وہ آج بھی ایسی ہی فلمیں بنا رہے ہیں جن پر ان کا یقین ہے، اور انہوں نے کبھی روایتی بھیڑ چال کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے ان کی فلموں کا حصہ بننے پر بہت زیادہ فخر محسوس ہوتا ہے۔‘نصیرالدین شاہ ’نشانت‘ کے بعد شیام بینیگل کی کئی فلموں میں نظر آئے جن میں ’منتھن‘، ’جنون‘ اور ’منڈی‘ کے علاوہ بہت سی فلمیں شامل ہیں۔نصیرالدین شاہ نے فلم ’معصوم‘ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ خوش قسمت تھے کہ ان کو اس فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ (فوٹو: یوٹیوب)دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنے بہت سے ہم عصروں کی طرح سپرسٹار بننا چاہتے تھے مگر متوازی سنیما میں آنے کی وجہ سے ان کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔انہوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں 20 سال کی عمر میں ہر دوسرے اداکار کی طرح سپر سٹار بننا چاہتا تھا۔ یہ محض ایک اتفاق ہی تھا کہ مجھے آرٹ فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔‘نصیرالدین شاہ نے ایک جانب تو ’آکروش‘، ’سپرش‘، ’مرچ مسالا‘، ’البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے‘، ’موہن جوشی حاضر ہو!‘، ‘اردھ ستھیا‘ اور ’جانے بھی دو یارو‘ جیسی فلموں میں کام کیا تو دوسری جانب 80 کی دہائی میں وہ مرکزی دھارے کی فلموں میں بھی نظر لگے جس کی ایک اہم مثال سنہ 1986 میں ریلیز ہوئی فلم ’کرما‘ ہے جس میں دلیپ کمار، جیکی شیروف، انیل کپور، نوتن اور سری دیوی جیسی بڑی کاسٹ شامل تھی۔آنے والے برسوں میں وہ کئی کامیاب فلموں میں نظر آئے جن میں ’اجازت‘، ’جلوہ‘، ’ہیرو ہیرالال‘ اور ’مالا مال‘ جیسی فلمیں شامل ہیں۔نصیرالدین شاہ کی ایک اہم فلم ’معصوم‘ تھی جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ خوش قسمت تھے کہ ان کو اس فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم کے گیت بھی یادگار رہے۔نصیرالدین شاہ نے اس زمانے میں کئی مسالا فلموں میں کام کیا جن میں ’غلامی‘، ’وشواتما‘ اور ’مہرا‘ جیسی فلمیں شامل ہیں مگر ان کی شناخت متوازی سنیما کے اداکار کے طور پر نمایاں رہی۔ وہ خود بھی کسی حد تک اس تاثر کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ ایک موقع پر برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ تجارتی سنیما سے بڑی حد تک اس لیے دور رہے کیونکہ ان کی کئی کوششوں کے باوجود وہ خود کو اس قسم کے تفریحی انداز میں کامیاب نہیں سمجھتے۔نصیرالدین شاہ نے کچھ ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی کام کیا جن میں اہم ترین ’مرزا غالب‘ ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)انہوں نے سنہ 2019 میں نیوز 18 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی کسی کمرشل فلم میں اچھا رہا ہوں، حالاںکہ میں نے کوشش ضرور کی۔ میں نے کوشش کی اور ناکام ہوا۔‘’مجھے ماننا پڑے گا کہ میں ایک مقبول ہیرو بننا چاہتا تھا۔ میں نے کبھی حد سے زیادہ محنت کی، اور کبھی بالکل بھی نہیں کی۔ سچی بات یہ ہے کہ ان فلموں کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور ان سے محبت بھی ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے، میرے ساتھ یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔ اسی لیے، مجھے واقعی نہیں لگتا کہ سوائے ’تری دیو‘ کے، ان فلموں میں کیے گئے میرے کردار کامیاب ہوئے۔‘اداکار فلموں کے ساتھ تھیٹر میں بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے سنہ 1977 میں تھیٹر کمپنی قائم کی جس نے پہلا کھیل سنہ 1979 میں پیش کیا مگر وہ اس سے پہلے سے تھیٹر کر رہے تھے، اور ان کی اپنی اہلیہ رتنا بھاٹک سے ملاقات بھی سنہ 1975 میں ستیہ دیو ڈوبے کے ڈرامے ’سمبھوک سے سنیاس تک‘ کی ریہرسل کے دوران ہی ہوئی تھا۔نصیرالدین شاہ نے این ڈی ٹی وی کو اپنے ایک پرانے انٹرویو میں اپنی محبت کی کہانی سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’تھیٹر کی تمام عظیم محبتیں ریہرسل سے ہی شروع ہوتی ہیں۔‘نصیرالدین شاہ کہتے ہیں کہ وہ پہلی ہی نظر میں دل دے بیٹھے مگر رتنا نے ان پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ ان کے لیے وہ صرف ایک اور باصلاحیت اداکار تھے جو اس ڈرامے میں شامل ہوئے تھے۔تاہم جب دونوں نے ریہرسلز میں ایک ساتھ زیادہ وقت ساتھ گزارا، تو رتنا بھی نصیر کی طرف مائل ہو گئیں۔ رتنا نے اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ڈرامے کا نام ’سمبھوک سے سنیاس تک‘ واقعی بہت بامعنی تھا۔ یہی ہماری زندگی کی کہانی ہے۔ بس اب سنیاس لینا باقی ہے۔‘نصیرالدین شاہ کہتے ہیں کہ وہ پہلی ہی نظر میں دل دے بیٹھے مگر رتنا نے ان پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)نصیرالدین شاہ اور رتنا کی شادی میں پہلی رکاوٹ تو یہ تھی کہ اداکار کی پروین مراد سے شادی ہو چکی تھی اور ان کی ایک بیٹی ہیبا بھی تھی۔ اگرچہ دونوں الگ ہو چکے تھے مگر ان میں قانونی طور پر طلاق نہیں ہوئی تھی جس میں کچھ وقت لگا۔رتنا پھاٹک نے ایک پوڈ کاسٹ میں اپنی محبت کے ابتدائی دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک مرتبہ جب وہ اور نصیر کسی ریستوران میں ڈیٹ پر گئے، تو کھانے کا آرڈر دینے کے بعد دونوں کو اپنے اپنے بٹوے نکال کر پیسے گننے پڑے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ بل ادا کرنے کے لیے رقم پوری بھی ہے یا نہیں۔‘یہ دونوں پریمی چھ برس کے طویل تعلق کے بعد بالآخر یکم اپریل 1982 کو رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ ان کی شادی نہایت سادہ انداز میں رتنا کی والدہ، دینا پاٹھک کے گھر پر ہوئی۔رتنا نے اپنی شادی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ یہ اُن چند نایاب شادیوں میں سے ایک تھی جس میں دلہا اور دلہن نے مہمانوں جتنا ہی، بلکہ شاید اُن سے بھی زیادہ لطف اٹھایا۔نصیرالدین شاہ اور دینا پھاٹک دونوں کی یہ پریم کہانی تھیٹر سے شروع ہوئی اور یہ دونوں اب بھی تھیٹر کر رہے ہیں بلکہ یہ دونوں کچھ عرصہ قبل لاہور آئے تو انہوں نے شہربے مثل میں اپنا ایک ڈراما بھی پیش کیا تھا۔نصیرالدین شاہ دوٹوک رائے دینے کی وجہ سے بھی تنازعات کی زد میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کبھی راجیش کھنہ کو اوسط درجے کا اداکار قرار دیا تو کبھی دلیپ کمار پر تنقید کرنے کی وجہ سے خبروں میں رہے جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ ’انہوں (دلیپ کمار) نے کبھی اپنے تجربے کا فائدہ دوسروں کو منتقل نہیں کیا، نہ ہی کسی کی رہنمائی کرنے کی کوشش کی، اور سنہ 1970 سے پہلے کی اپنی چند پرفارمنسز کے علاوہ انہوں نے آنے والے اداکاروں کے لیے کوئی خاص ورثہ نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ ان کی خودنوشت بھی صرف پرانے انٹرویوز کا خلاصہ ہے۔‘نصیرالدین شاہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی کسی کمرشل فلم میں اچھا رہا ہوں، حالاںکہ میں نے کوشش ضرور کی۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے اس وقت بھی کھل کر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا جب ایسا کرنا ممکن نہیں تھا اور ان کے ہم عصر تک مقبول بیانیے کو دہرانے میں مشغول تھے، تو یہ نصیرالدین شاہ تھے جنہوں نے دوٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ ’انڈین عوام کو تاریخی پس منظر سے آگاہ کیے بغیر یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک دشمن ملک ہے۔‘انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ہم پاکستان کے حوالے سے جس قسم کا رویہ رکھتے ہیں، اس سے ہم آخر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ دراصل ایک غنڈہ گردی کا انداز ہے جس کے ذریعے کوئی شخص اپنی برتری جتانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ہمارے پڑوسی ہیں، ہمارے بالکل ساتھ رہتے ہیں۔‘انہوں نے اسی طرح مغلوں پر ایک تواتر کے ساتھ ہو رہی تنقید کے تناظر میں کہا تھا کہ ’مغل یہاں لوٹ مار کرنے نہیں آئے تھے۔ وہ اسے اپنا ملک بنانے آئے تھے اور انہوں نے یہی کیا۔ ان کے اقدامات سے کون انکار کر سکتا ہے؟‘حال ہی میں جب دلجیت دوسانجھ پر فلم ’سردار جی 3‘ کی وجہ سے تنقید ہوئی تو یہ نصیرالدین شاہ تھے جنہوں نے ان کی حمایت میں پوسٹ کی جس کے باعث ان پر یہ تنقید ہوئی کہ وہ ہمیشہ ‘ملک دشمن‘ سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔اداکار نے بعد میں یہ پوسٹ ڈیلیٹ کر دی تھی۔نصیرالدین شاہ 200 سے زائد فلموں میں کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے بہترین اداکاری پر تین فلم فیئر اور تین نیشنل ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ لیکن وہ فلم فیئر ایوارڈ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے جس کا وہ بارہا اور کھل کر اظہار کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی اداکار جو کسی کردار کو نبھانے میں اپنی زندگی اور محنت لگا دیتا ہے، وہ ایک اچھا اداکار ہے۔ آپ اگر صرف ایک شخص کو چن کر یہ کہیں کہ ’یہ سال کا بہترین اداکار ہے‘، تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘نصیرالدین شاہ نے کہا تھا کہ ’میرے لیے سب سے یادگار بات یہ ہے کہ انہوں (شیام بینیگل) نے مجھے میری پہلی فلم اور معاوضے کا پہلا چیک دیا۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)اداکار نے مزید کہا تھا کہ ’مجھے ایسے ایوارڈز پر کوئی فخر نہیں۔ میں تو اپنے آخری دو ایوارڈز لینے بھی نہیں گیا۔‘’میں نے جب فارم ہاؤس بنایا، تو فیصلہ کیا کہ یہ ایوارڈز وہیں رکھوں گا۔ جو بھی واش روم جائے گا، اُسے یہ ایوارڈز ضرور ملیں گے، کیوںکہ دروازوں کے ہینڈلز فلم فیئر ایوارڈ سے ہی بنے ہوئے ہیں۔‘نصیرالدین شاہ نے کچھ ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی کام کیا جن میں اہم ترین ’مرزا غالب‘ ہے جس میں انہوں نے اردو کے بے مثل شاعر مرزا غالب کے کردار میں روح پھونک دی تھی۔انہیں بلاشبہ بالی وڈ کے ان اداکاروں میں شامل کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ہر طرح کے کردار ادا کیے اور تھیٹر سے بڑے پردے تک ہر جگہ اداکاری کی اور اپنی صلاحیتوں کے بل پر وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم اداکاروں کو حاصل ہوا ہے۔