لتا منگیشکر: سروں کی ملکہ کی نور جہاں سے واہگہ پر ملاقات، جس پر دونوں طرف کے فوجی بھی روئے

اُردو وائر  |  Feb 06, 2022

لتا منگیشکر اور نور جہاں کے درمیان بہت گہری دوستی تھی ملک کی تقسیم کے بعد نور جہاں پاکستان چلی گئی تھیں۔ سنہ 1952 میں جب ایک بار لتا امرتسر گئیں تو ان کا دل چاہا کہ نور جہاں سے ملاقات کی جائے جو کہ صرف دو گھنٹے کی دوری پر لاہور میں رہتی تھیں۔ لتا نے نور جہاں کو فون کیا اور ایک گھنٹے تک بات ہوتی رہی بعد میں دونوں نے واہگہ سرحد پر ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ مشہور موسیقار سی رامچندرن اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ’میں نے اپنے تعلقات کا استعمال کر کے یہ ملاقات اس جگہ کروائی جسے فوج کی زبان میں ’نو مین لینڈ‘ کہا جاتا ہے۔ ’جیسے ہی نورجہاں نے لتا کو دیکھا، وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور لتا کو زور سے گلے لگا لیا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ہم لوگ بھی جو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اپنے آنسو نہیں روک پائے، یہاں تک کہ دونوں طرف کے فوجی بھی رونے لگے۔‘ نور جہاں لتا کے لیے لاہور سے مٹھائی اور بریانی لائی تھیں، نور جہاں کے شوہر بھی ان کے ساتھ تھے اور لتا کے ساتھ ان کی بہنیں اوشا اور مینا بھی کے گانے کی شروعات پانچ سال کی عمر ہی ہوئی تھی۔ نسرین منی کبیر کی کتاب ’لتا ان ہر اون وائس‘ میں خود لتا بتاتی ہیں کہ ’میں اپنے والد دینا ناتھ منگیشکر کو گاتے دیکھتی تھی لیکن خود ان کے سامنے گانے کی ہمت نہیں کر پاتی تھی۔ ایک مرتبہ میرے والد اپنے ایک شاگرد کو موسیقی سکھا رہے تھے، اُنھیں کہیں جانا پڑ گیا تو اُنھوں نے کہا کہ تم ریاض کرو میں ابھی واپس آتا ہوں۔ میں بالکنی میں بیٹھی ان کے شاگرد کو سن رہی تھی میں اس کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ تم یہ بندش غلط لگا رہے ہو پھر میں نے اسے گا کر سنایا اتنی دیر میں میرے والد آ گئے اور میں وہاں سے بھاگ گئی۔ اس وقت میں چار سے پانچ سال کی تھی اور میرے والد کو نہیں معلوم تھا کہ میں گاتی ہوں۔‘ یوں تو لتا منگیشکر نے کئی موسیقاروں کے ساتھ کام کیا لیکن غلام حیدر کے لیے ان کے دل میں خاص مقام تھا۔ اُنھوں نے سکھایا تھا کہ ’بیٹ‘ پر آنے والے بولوں پر تھوڑا زیادہ وزن دینا چاہیے اس سے گانا اٹھتا ہے جبکہ انل بسواس سے اُنھوں نے گاتے وقت سانسوں پر قابو پانا سیکھا تھا۔ ہریش بھیمانی اپنی کتاب ’لتا دیدی: عجیب داستاں ہے یہ‘ میں لکھتے ہیں ’انل اس بات پر زیادہ زور دیتے تھے کہ گاتے وقت سانس ایسی جگہ پر لینا چاہیے کہ سننے والے کو کھٹکے نہیں، اُنھوں نے بتایا تھا کہ دو لفظوں کے درمیان سانس لیتے وقت آہستہ سے چہرہ مائیکروفون سے دور لے جاؤ۔ یوں تو لتا منگیشکر نے بہت سے گلوکاروں کے ساتھ گایا لیکن محمد رفیع کے ساتھ ان کے گانوں کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ رفیع کے بارے میں بات کرتے ہوئے لتا نے ایک دلچسپ قصہ سنایا تھا ’ایک بار میں اور رفیع صاحب سٹیج پر گا رہے تھے، گانے کی لائن تھی ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو تم سب کی طرف، لوگ ایسی ہی اداؤں پر فدا ہوتے ہیں‘، رفیع صاحب نے پڑھا ’لوگ ایسے ہی فداؤں پر ادا ہوتے ہیں‘ یہ سن کر لوگ قہقہے لگا کر ہنسنے لگے ۔ رفیع صاحب بھی ہنسنے لگے اور میری بھی ہنسی چھوٹ گئی، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اس گانے کو پورا ہی نہیں کر پائے اور منتظمین کو پردہ گرانا پڑا ۔‘

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More