کراچی کے ایک فلیٹ سے ملی حمیرا اصغر علی کی لاش کا معاملہ اب سنگین اخلاقی و سماجی سوالات کو جنم دے چکا ہے۔ اپنے گھر والوں کی جانب سے لاش وصول کرنے سے انکار کے بعد یہ مسئلہ محض ایک موت نہیں رہا، بلکہ معاشرتی بے حسی کی عکاسی بن چکا ہے۔ پولیس کے مطابق، اداکارہ کے والد نے بیٹی کی تدفین کی ذمہ داری لینے سے انکار کرتے ہوئے بتایا کہ حمیرا کا خاندان سے دو سال سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
اداکارہ کی لاش کئی دن تک فلیٹ میں پڑی رہی، عدالتی حکم پر بیلف کی موجودگی میں جب دروازہ کھولا گیا تو لاش شدید حد تک گل چکی تھی، اور ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ کا تعین فوری طور پر ممکن نہیں ہو سکا۔ جسم سے حاصل کردہ نمونے اب تجزیے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
اس افسوسناک صورتحال میں جب والد بھی لاش لینے کراچی نہ پہنچے، تو فنکار برادری اور چند ہمدرد افراد نے قدم آگے بڑھایا۔ معروف اداکارہ سونیا حسین نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ اگر اگلے دن تک کسی نے لاش لینے کی ہامی نہ بھری تو وہ خود انسانیت کے ناتے تدفین کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہیں۔ سونیا نے والدین سے سوال کیا کہ کون سا ایسا گناہ تھا جس کے بدلے بیٹی کو مرنے کے بعد بھی تنہا چھوڑ دیا گیا؟
اداکار یاسر حسین نے سونیا کے پیغام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں موقع نہ ملا تو وہ خود اس فرض کو ادا کرنے کے لیے موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک فنکارہ کو اس کے پیشے کی وجہ سے گھر والوں نے ٹھکرا دیا ہے، تو وہی انڈسٹری اس کی آخری رسومات کے لیے حاضر ہے۔
اس سے پہلے ایک کاروباری خاتون مہربانو سیٹھی نے چھیپا سرد خانے سے حمیرا کی لاش کی ذمہ داری لے کر اعلان کیا کہ وہ انہیں باعزت طریقے سے دفنائیں گی۔ فیشن میگزین کے ایڈیٹر دانش مقصود احمد نے بھی فیس بک پر اعلان کیا کہ وہ اداکارہ کی نماز جنازہ اور تدفین کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حمیرا گزشتہ برس اکتوبر سے لاپتا تھیں اور انہوں نے متعدد میڈیا اداروں سے ان کی گمشدگی کی خبر شائع کرنے کی درخواست کی تھی، مگر کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔
حمیرا کی آخری رسومات کی ذمہ داری لینے والے یہ افراد صرف ہمدردی یا شہرت کے لیے نہیں، بلکہ اس خاموشی کے خلاف آواز بنے ہیں جو اکثر ان لوگوں کو گھیر لیتی ہے جو شہرت کے باوجود تنہائی کے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔