پاکستانی فلم ساز جمشید محمود جامی کو ہتک عزت کے جرم میں دو سال قید بامشقت کی سزا

بی بی سی اردو  |  Jul 09, 2025

کراچی کی ایک عدالت نے فلمساز جمشید محمود رضا (جامی) کو ہتک عزت کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے دو برس قید بامشقت اور دس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں جامی کو مزید ایک ماہ قید بامشقت بھگتنی ہوگی۔

جمشید محمود پر الزام تھا کہ 15 فروری 2019 کو انھوں نے اپنے فیس بک پیج ’جامی مور‘ پر ایک خط شائع کیا تھا جس میں ریپ کے ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے میوزک ویڈیوز اور ٹیلی ویژن کمرشلز بنانے والے ایک ڈائریکٹر پر الزام لگایا گیا تھا۔

اگرچہ اس خط میں کسی کا نام واضح طور پر نہیں لیا گیا تھا تاہم بعد میں محمد سہیل جاوید نامی ہدایتکار نے جمشید محمود کے خلاف عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا جس کا فیصلہ منگل کو سنایا گیا۔

فیصلے کے بعد جامی کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے ایک ساتھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ جامی کو عدالت سے ہی گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔

عدالتی فیصلے کی تحریری کاپی میں مدعی کی جانب سے بتایا گیا ہے ’لوگوں نے واضح طور پر تبصروں میں ان کا نام ’شکاری‘ کے طور پر لینا شروع کر دیا اور ملزم نے غلط فہمی کو درست کرنے کے بجائے حوصلہ افزائی کی اور یہاں تک کہ ایک سکرین شاٹ بھی پوسٹ کیا جس میں واضح طور پر مدعی کا نام موجود تھا۔‘

مدعی کے مطابق ’ملزم نے ’لاہوتی میلہ 2019‘ نامی ایک تقریب میں بھی اس خط کو عوامی طور پر بلند آواز میں پڑھا، جسے ہزاروں افراد نے دیکھا اور یوٹیوب پر بھی شیئر کیا گیا، جس سے مدعی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔‘

مدعی نے دلیل دی کہ ’یہ الزامات سراسر جھوٹے اور من گھڑت تھے اور ملزم کے اقدامات بدنیتی پر مبنی تھے اور انھوں نے انھیں بدنام کیا۔‘

تحریری فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ 18 فروری 2019 کو ’ملزم جامی کو ایک قانونی نوٹس بھیجا گیا تھا جس میں غیر مشروط عوامی معافی اور فیس بک کی اشاعت کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اسے نظر انداز کر دیا گیا۔‘

ایڈیشنل سیشن جج جنوبی کی عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے کے مطابق ملزم نے مدعی کے تمام الزامات کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ خط اسے ’لاہوتی میلہ‘ کے منتظم نے دیا تھا اور اسے اس کے مواد کے بارے میں پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دیکھنے والوں نے مدعی کا نام لیا، جس کے بعد انھوں نے پوسٹ اور اپنا فیس بک اکاؤنٹ دونوں حذف کر دیے۔‘

انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان کا ’کسی کو بدنام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا‘ اور انھوں نے کبھی بھی مدعی کا نام براہ راست نہیں لیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں بتایا ہے کہ ’یہ ثابت ہو گیا کہ خط ملزم نے فیس بک پر عوامی طور پر پوسٹ کیا تھا اگرچہ پوسٹ میں مدعی کا نام براہ راست نہیں لیا گیا تھا لیکن اس میں اتنی شناخت کنندہ معلومات اور ذاتی خصوصیات موجود تھیں جو واضح طور پر ان کی طرف اشارہ کرتی تھیں جس سے دیکھنے والوں کے فوری ردعمل نے مدعی کا نام لیا۔‘

عدالت نے نوٹ کیا کہ ’ملزم کے دفاع میں شواہد کی کمی تھی اور وہ یہ واضح کرنے میں ناکام رہا کہ غلط شناخت کو تسلیم کرنے کے باوجود اس نے مواد کو دوبارہ پوسٹ کرنا اور ایسے تبصروں کا جواب دینا کیوں جاری رکھا جس نے ہتک عزت کو بڑھا دیا۔‘

عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’ملزم نے جان بوجھ کر اور لاپرواہی سے مدعی کو بدنام کیا اور یہ الزام ہتک عزت کے کسی بھی استثنیٰ میں نہیں آتا تھا۔‘

عدالت کے مطابق ’ہتک عزت کے معاملے کی غلطی اس وقت تک فرض کی جاتی ہے جب تک کہ اسے سچ ثابت نہ کر دیا جائے۔‘

جامی کی جانب سے ریپ کے الزامات پر حمید ہارون کی تردید’پاکستان کے شہری لوگوں کے مرنے کے عادی ہوگئے ہیں‘ثنا یوسف کا قتل: انسیل کلچر اور پاکستانی ڈراموں میں مجرمانہ ذہنیت کے ’ہیرو‘خاتون کا شوہر پر دورانِ سیکس جنسی تشدد کا الزام: ’ساس سے شکایت کی تو انھوں نے کہا میاں بیوی کے رشتے میں ایسا ہی ہوتا ہے‘’وہ جلد ضمانت پر رہا ہوں گے‘

جامی کی گرفتاری پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر تنقید کی جا رہی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے جبران ناصر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’جامی اپنے ضمیر کی آواز کی وجہ سے جیل میں ہیں کیوں کہ وہ اپنے اصولوں کے ساتھ کھڑے رہے اور بے آواز لوگوں کی آواز بنے۔‘

جبران ناصر نے لکھا کہ ’جامی خود بھی ایک متاثرہ شخص ہیں جنھوں نے کئی مشکل سال کاٹنے کے بعد ایک اور متاثرہ شخص کے حق میں آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا اور مقدمات کے باوجود اپنی آزادی اور کریئر کو خطرے میں ڈالتے ہوئے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا۔‘

جبران ناصر نے لکھا کہ ’جامی کا موقف تعریف کا ہی نہیں بلکہ حمایت کا بھی حقدار ہے۔ وہ اپنی آسانی کے لیے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ انھوں نے ہراسانی کے خلاف لڑائی کے لیے خود کو وقف کر دیا۔‘

جبران ناصر نے لکھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ وہ جلد ضمانت پر رہا ہوں گے اور ان کو دی جانے والی سزا بھی ختم ہو گی۔‘

فریحہ عزیز نے ایکس پر لکھا کہ ’جامی کو سزا دیے جانے پر خوفزدہ ہوں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’یہ ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں می ٹو کے دعووں کو بھی سزا ہوئی۔‘

ہتک عزت کا قانون

ایڈووکیٹ مکیش تلریجا کے مطابق ’پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 499 کے تحت کسی شخص کے بارے میں الفاظ کے ذریعے، چاہے وہ بولے گئے ہوں یا پڑھے گئے ہوں، یا اشاروں کنایوں کی صورت میں ادا کیے گئے ہوں، کوئی ایسی تہمت لگانا یا شائع کرنا جس کا مقصد اس شخص کی شہرت کو نقصان پہنچانا ہو، یا یہ جانتے ہوئے یا یہ یقین کرنے کی معقول وجہ رکھتے ہوئے کہ ایسی تہمت اس شخص کی شہرت کو نقصان پہنچائے گی، ہتک عزت کہلاتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس میں کچھ استثنی بھی حاصل ہے جیسے اگر عدالتی کارروائی ہے اس کو شائع کیا جاتا ہے، عوامی اداروں کے بارے میں کوئی بات یا شکایت کی جاتی ہے وہ شائع ہوسکتی ہے یا اگر کسی کی تحریر یا پرفارمنس پر کوئی تبصرہ کیا جاتا ہے تو یہ استثنی کے زمرے میں آتا ہے۔‘

ایڈووکیٹ مکیش تلریجا، جو سابق میجسٹریٹ بھی رہے ہیں، کا ماننا ہے کہ اگرعوامی مفاد میں کوئی کسی کو انتباہ کرتا ہے تو وہ ہتک عزت نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جامی کے کیس میں می ٹو موومنٹ کا پس منظر ہے۔ اس وقت ہر کوئی اپنی اپنی کہانی لکھ رہا تھا تو جامی کے پاس ایک سٹوری آئی جو انھوں نے عوامی مفاد عامہ کے لیے شیئر کی۔‘

جمشید محمود رضا کون ہیں؟

جمشید محمود رضا جو عام طور پر جامی کے نام سے جانے جاتے ہیں، معروف پاکستانی فلم ساز، مصنف، اور ہدایت کار ہیں۔

انھوں نے امریکہ کے آرٹ سینٹر کالج آف ڈیزائن، پاساڈینا سے فلم کی تعلیم حاصل کی اور 1998 میں اپنے آبائی شہر کراچی واپس آ کر اپنی آزاد فلم کمپنی قائم کی۔

جامی نے فیچر فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن اشتہارات اور میوزک ویڈیوز کی ہدایت کاری میں بھی اپنی شناخت بنائی اس کے علاوہ انھوں نے ابھرتے نوجوان فلم سازوں کی رہنمائی اور کراچی اور بلوچستان کے فلمی سکولوں میں پڑھانے کے لیے بھی وقت صرف کیا ہے۔

جامی کے سب سے زیادہ بااثر کاموں میں سے ایک 2015 کی ڈرامہ فلم ’مور‘ ہے، جس کا مطلب پشتو میں ’ماں‘ ہے۔

جو بلوچستان کے ریلوے نظام کی افسوسناک زوال پذیری کو گہرائی سے بیان کرتی ہے، یہ کہانی ایک ایسے خاندان کے گرد گھومتی ہے جس کی زندگی ایک ریلوے سٹیشن سے اٹوٹ طور پر جڑی ہوئی ہے، جو منظم بدعنوانی اور ایک ٹوٹے ہوئے نظام کے تباہ کن اثرات سے جدوجہد کر رہا ہے۔

اس فلم کو 2015 میں اکیڈمی ایوارڈز کے لیے منتخب کیا گیا اور جامی نے خود لکس اسٹائل ایوارڈز میں ’مور‘ کے لیے بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ حاصل کیا۔

تاہم 2019 میں انھوں نے ایک معروف میڈیا شخصیت کی نامزدگی پر اعتراض کیا اور اپنا ایوارڈ سڑک پر پھینک دیا۔

ثنا یوسف کا قتل: انسیل کلچر اور پاکستانی ڈراموں میں مجرمانہ ذہنیت کے ’ہیرو‘خاتون کا شوہر پر دورانِ سیکس جنسی تشدد کا الزام: ’ساس سے شکایت کی تو انھوں نے کہا میاں بیوی کے رشتے میں ایسا ہی ہوتا ہے‘جامی کی جانب سے ریپ کے الزامات پر حمید ہارون کی تردید’پاکستان کے شہری لوگوں کے مرنے کے عادی ہوگئے ہیں‘انور مقصود کے ’ہاؤس اریسٹ‘ کا اجازت نامہ اچانک منسوخ: ’شو کینسل نہیں سینسر ہو گیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More