Getty Imagesامریکہ نے سنہ 1945 میں ان تباہ کن ہتھیاروں کو استعمال کیا اور جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرائے
امریکہ کی جانب سے پہلے ایٹمی دھماکے کے 80 سال بعد ایران کا جوہری پروگرام مشرق وسطیٰ میں تناؤ کی وجہ بن گیا ہے۔
جون میں امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد دو جولائی کو ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے والے ایک قانون پر دستخط کیے۔
اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ حملے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے یہ حملہ ضروری تھا۔
یہ ابھی تک واضح نہیں کہ ان حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا اور اس کا خطے اور اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کا یہ معاہدہ 55 سال پہلے نافذ العمل ہوا تھا اور اس سے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو محدود کرنے میں مدد ملی تھی۔
دنیا میں اس وقت نو ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ ان ممالک نے انھیں کیسے حاصل کیا اور کیا اب دوسرے ممالک بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟
Universal History Archive/Universal Images Group via Getty Imagesہیروشیما اور ناگاساکی میں کم از کم دو لاکھ افراد مارے گئے تاہم یہ واحد موقع ہے جب کسی تنازعے میں جوہری ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا ہوکن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں؟
اس وقت دنیا میں امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، روس، انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا جوہری ہتھیار رکھتے ہیں جبکہ اسرائیل کے بارے میں یہی خیال ہے کہ اس کے پاس بھی جوہری ہتھیار موجود ہیں تاہم سرکاری طور پر اس کیتصدیق یا تردید نہیں کی جاتی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران مین ہٹن پروجیکٹ کے ذریعے خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کے بعد امریکہ پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔
امریکہ نے سنہ 1945 میں ان تباہ کن ہتھیاروں کو استعمال کیا اور جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرائے۔
ان بم دھماکوں میں کم از کم دو لاکھ افراد مارے گئے تاہم یہ واحد موقع ہے جب کسی تنازعے میں جوہری ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا۔
ہتھیاروں کی ماہر ڈاکٹر پیٹریشیا لیوس کا کہنا ہے کہ یہ ’جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا اصل آغاز تھا‘ جس سے دوسرے ممالک خاص طور پر سوویت یونین نے فوری طور پر اپنے جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنے ملک پر حملہ کرنے والے کسی بھی ملک کو ڈرا سکیں اور خطے اور عالمی سطح پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں۔
آگے کیا ہوا؟
دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے دو سال سے بھی کم عرصے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوا: امریکہ اور سوویت یونین اور ان دونوں کے اتحادیوں کے درمیان کشمکش جو 40 سال سے زیادہ جاری رہی اور اس دوران بعض مواقع پر اس کشیدگی کے جوہری تنازعے میں تبدیل ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہوا۔
سوویت یونین نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ایٹم بم بنانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں اور سنہ 1949 میں انھوں نے اس کا کامیاب تجربہ کیا، جس سے ایٹمی ہتھیاروں پر امریکہ کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوا۔
اس کے بعد دونوں ملکوں نے ایسے جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش شروع کر دی جو اس سے بھی زیادہ تباہ کن تھے۔
اگلے 15 برس میں تین اور ملک ایٹمی طاقت بن گئے۔
برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں امریکہ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور سنہ 1952 میں وہ دنیا کی تیسری ایٹمی طاقت بن گیا، جس کے بعد سنہ 1960 میں فرانس اور 1964 میں چین بھی جوہری طاقت بن گیا۔
Getty Imagesامریکی صدر آئزن ہاور نے دسمبر 1953 کو اقوام متحدہ میں ایک تاریخی تقریر میں کہا تھا کہ ’جوہری ٹیکنالوجی کو جب فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ انسانیت کے لیے خوفناک خطرہ بن جاتی ہے‘دیگر ممالک نے کب جوہری ہتھیار حاصل کیے؟
1960 کی دہائی تک دنیا میں پانچ ایٹمی طاقتیں تھیں: امریکہ، سوویت یونین، برطانیہ، فرانس اور چین۔۔۔ اور اس بارے میں خدشات بڑھنے لگے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔
اس خدشے کے پیش نظر اقوام متحدہ نے جوہری ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کو روکنے، تخفیف اسلحہ کو فروغ دینے، اور جوہری توانائی کے پرامن استعمال میں سہولت فراہم کرنے کے لیے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ (این پی ٹی) متعارف کروایا۔
یہ معاہدہ 1970 میں نافذ العمل ہوا لیکن تمام ممالک نے اس پر دستخط نہ کیے اور جوہری ہتھیار پھیل گئے۔
انڈیا 1974 میں جبکہ پاکستان 1998 میں جوہری طاقت بنا۔ ان دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے بارے میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔
اسرائیل نے بھی کبھی اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔
اسرائیلی حکام علاقائی خطرات اور تناؤ اور اپنے پڑوسی ممالک کی دشمنی کو اس معاہدے پر دستخط نہ کرنے کی وجوہات کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل کی سرکاری پالیسی کو ’دانستہ ابہام‘ کہا جاتا ہے اور یہ ملک ایسے ہتھیار رکھنے کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید۔
شمالی کوریا نے اس معاہدے پر دستحظ کیے تھے تاہم سنہ 2003 میں وہ جنوبی کوریا اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں کو جواز بنا کر اس معاہدے سے باہر نکل آیا۔
سنہ 2006 میں شمالی کوریا نے نیوکلیئر ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔
سنہ 2011 میں وجود میں آنے والا جنوبی سوڈان اقوام متحدہ کا وہ واحد رکن ملک ہے، جس نے اس معاہدے پر دستحظ نہیں کیے۔
جوہری ہتھیاروں کا مخالف وہ ملک جس نے کبھی خود بھی ایٹم بم بنانے کی کوشش کی تھیایران کا جوہری پروگرام جو دہائیوں قبل امریکہ کی مدد سے شروع ہوا تھااسرائیل: مشرقِ وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت جو ’جوہری ابہام‘ کی پالیسی کے ذریعے دہرا فائدہ حاصل کر رہی ہےوہ شخص جسے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر دو دہائیاں جیل میں گزارنا پڑیںکیا ایران کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں؟Getty Imagesسرد جنگ کے دوران بعض مواقع پر اس کشیدگی کے جوہری تنازعہ میں تبدیل ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہوا
برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیسٹر میں انٹرنیشنل پولیٹکس کے پروفیسر اینڈریو فٹر کہتے ہیں کہ جہاں تک انھیں معلوم ہے ’ایران نے ابھی تک ایٹم بم نہیں بنایا‘ لیکن تکنیکی طور پر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔
واضح رہے کہ ایران اقوام متحدہ کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر چکا ہے تاہم اس کا بارہا یہ کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے اور اس نے کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی۔
تاہم اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی ایک دہائی پر محیط تحقیقات میں یہ شواہد ملے کہ ’ایران نے 1980 کی دہائی کے آخر سے لے کر سنہ 2003 تک ایک جوہری دھماکہ خیز ڈیوائس کی تیاری سے متعلقہ سرگرمیاں کیں‘ جب ’پروجیکٹ عماد‘ کے نام سے مشہور منصوبوں کو روک دیا گیا تھا۔
Getty Imagesجون میں اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد اسرائیل کے انتہائی قریبی اتحادی امریکہ نے ایران کے فردو جوہری مقام سمیت تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا
سنہ 2015 میں ایران نے چھ بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستحظ کیے، جس کے تحت اس نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پر اتفاق کیا اور آئی اے ای اے کو مانیٹرنگ کی اجازت بھی دی گئی۔ ایران نے ایسا خود پر عائد بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کے بدلے کیا۔
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سنہ 2018 میں اپنے پہلے دور حکومت کے دوران اس معاہدے سے یہ کہتے ہوئے دستبردار ہو گئے کہ اس سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے میں بہت کم مدد ملی۔ ٹرمپ نے اس کے بعد ایران پر پابندیاں بھی بحال کر دیں۔
اس کے ردعمل میں ایران نے آئی اے ای اے کی پابندیوں کی متعدد بار خلاف ورزی کی، خاص طور پر ان پابندیوں کی جو یورینیئم کی افزودگی سے متعلق تھیں۔
12 جون 2025 کو 35 ممالک پر مشتمل آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے کہا کہ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا۔
اس سے اگلے ہی روز اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد اسرائیل کے انتہائی قریبی اتحادی امریکہ نے ایران کے فردو جوہری مقام سمیت تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
کیا اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں؟Getty Imagesاسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر موردیچائی وانونو کو 18 برس جیل میں گزارنا پڑے
اسرائیل نہ تو سرکاری طور پر جوہری ہتھیار رکھنے کا اعتراف کرتا ہے اور نہ ہی انکار کرتا ہے لیکن بین الاقوامی دُنیا کا ماننا ہے کہ اس کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں۔
اکتوبر 1986 میں سنڈے ٹائمز نے برطانوی صحافت کی تاریخ میں ایک اہم تحقیقاتی مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا ’راز افشا: اسرائیل کا جوہری اسلحہ۔‘
اس معلومات کا منبع اسرائیلی نیوکلیئر ٹیکنیشن موردیچائی وانونو تھے، جن کے بیانات نے اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات کی تصدیق کی، جس سے ہتھیاروں کے پروگرام کی موجودگی کی نشاندہی ہوتی ہے۔
اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر موردیچائی وانونو کو 18 برس جیل میں گزارنا پڑے اور سنہ 2004 میں انھیں رہائی ملی۔
تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کے مطابق اسرائیل اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنا رہا ہے۔
سپری کے مطابق سنہ 2024 میں اسرائیل نے ایک میزائل سسٹم کا تجربہ کیا تھا جو کہ جوہری بیلیسٹک میزائل جیریکو سے متعلق تھا اور بظاہر یہ کہ اسرائیل ڈیمونا سائٹ میں پلوٹینیئم کی پیداوار کو بڑھا رہا ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیل نے اپنے علاقائی حریفوں کو جوہری صلاحیتوں کے حصول سے روکنے کے لیے فوجی کارروائیاں بھی کی ہیں۔
ایران پر حملے کے علاوہ اسرائیل نے سنہ 1981 میں عراق میں ایک نیوکلیئر ری ایکٹر اور سنہ 2007 میں شام میں ایک مشتبہ جوہری سائٹ کو نشانہ بنایا۔
جوہری پروگراموں کو ترک کرنے والے ممالک کون سے ہیں؟
برازیل، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ نے جوہری ہتھیار تیار کرنے پر کام شروع تو کیا تاہم بعد میں اپنی مرضی یا بیرونی دباؤ پر اپنے جوہری منصوبوں کو ترک کر دیا گیا۔
جنوبی افریقہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے کامیابی سے جوہری ہتھیار تیار کیے تاہم بعد میں انھیں ںاکارہ بناتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو بھی ترک کر دیا۔
اینڈریو فٹر کہتے ہیں کہ جوہری دور میں یہ انتہائی منفرد عمل تھا کہ ایک ملک نے جوہری ہتھیار تیار کیے اور پھر انھیں ناکارہ بنا دیا۔
یہ فیصلہ مختلف عوامل کی بدولت ممکن ہوا، جس میں نسل پرستانہ نظام پر قائم حکومت کا خاتمہ، علاقائی تنازعات میں کمی اور عالمی سیاست میں تبدیلی شامل تھے۔
سنہ 1991 میں سوویت یونین کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے ممالک یوکرین، بیلا روس اور قازقستان کے حصے میں جوہری ہتھیار آئے تاہم ان ممالک نے انھیں ترک کر دیا۔
یوکرین نے سنہ 1994 کے بداپسٹ میمورنڈم کے تحت امریکہ، برطانیہ اور روس کی جانب سے سکیورٹی ضمانتوں کے بدلے میں اپنے ہتھیار ترک کیے۔
لیکن یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے روسی افواج کے ساتھ تنازعہ میں ہے، نے ان ہتھیاروں کو ترک کر کے بہت کم فائدہ حاصل کیا۔
Getty Imagesسنہ 2006 میں شمالی کوریا نے کم جانگ ال کے دور حکومت میں نیوکلیئر ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیادنیا میں کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
چونکہ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے جوہری ہتھیاروں سے متعلق مکمل تفصیلات شاذ و نادر ہی ظاہر کرتی ہیں، اس لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ ہر ملک کے پاس کتنے ہتھیار موجود ہیں۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوری 2025 میں عالمی سطح پر مجموعی طور 12,241 وار ہیڈز میں سے تقریباً 9,614 ممکنہ استعمال کے لیے فوجی ذخیرے میں رکھے گئے ہیں۔
سپری کے مطابق عالمی ذخیرے کا تقریباً 90 فیصد حصہ روس اور امریکہ کے پاس ہے۔
تھنک ٹینک کے مطابق پرانے وار ہیڈز کو ناکارہ بنانے کا عمل نئے وار ہیڈز کی تیاری کے مقابلے میں زیادہ ہوتا رہا ہے تاہم آنے والے برسوں میں یہ رجحان ’پلٹنے کا امکان ہے۔‘
کیا مزید ممالک جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اس کا اثر ان ممالک پر پڑ سکتا ہے جو جوہری ہتھیار تیار کرنے پر غور کرتے ہیں۔
جون میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو ’دہائیوں‘ پیچھے دھکیل دیا گیا۔
پھر جولائی میں پینٹاگون نے کہا کہ امریکی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو صرف دو سال پیچھے کر دیا۔
اینڈرو فٹر کہتے ہیں کہ اگر ایران جوہری ہتھیار تیار کر لیتا ہے تو مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک خاص طور پر سعودی عرب بھی یہ ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں سعودی عرب اس بارے میں کافی واضح ہے کہ انھیں جوہری صلاحیت نہیں چاہیے لیکن جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران اس کھیل کو مکمل طور پر تبدیل کر دے گا۔‘
’لیکن یہ کتنی جلدی اور آسانی سے ہو گا، یہ ایک اور سوال ہے۔‘
ڈاکٹر پیٹریشیا لیوس کہتی ہیں کہ ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی سے) سے دستبرداری کا ’خطرہ بڑا‘ ہے، جس کے نتیجے میں دوسرے ممالک کے بھی اس معاہدے سے نکل جانے کے امکان بڑھ جائیں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ معاہدے کے لیے ’دھچکہ‘ ضرور ہو گا لیکن ضروری نہیں کہ یہ مہلک بھی ثابت ہو۔
لیکن اگر دوسرے ممالک بھی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ڈاکٹر لیوس کا کہنا ہے کہ اس متعلق اہم چیلنجز ہوں گے، خاص طور پر افزودہ یورینیئم یا جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے اضافی پلوٹونیم کو حاصل کرنا۔
وہ اس بارے میں معاشی یا مالی بوجھ کی نشاندہی بھی کرتی ہیں۔
’یہ مہنگا منصوبہ ہے اور اس میں برسوں لگتے ہیں اور خاص طور پر اگر اسے خفیہ طور پر کیا جائے لیکن دوسری جانب شمالی کوریا اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بھی نہیں رکے تھے۔‘
ایران کا جوہری پروگرام جو دہائیوں قبل امریکہ کی مدد سے شروع ہوا تھاجوہری ہتھیاروں کا مخالف وہ ملک جس نے کبھی خود بھی ایٹم بم بنانے کی کوشش کی تھیاسرائیل: مشرقِ وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت جو ’جوہری ابہام‘ کی پالیسی کے ذریعے دہرا فائدہ حاصل کر رہی ہےوہ شخص جسے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر دو دہائیاں جیل میں گزارنا پڑیں’تہران اب بھی ایٹمی ہتھیار کے لیے افزودہ یورینیئم تیار کر سکتا ہے‘: امریکی حملے سے ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا؟پینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیں