کیا انڈیا اور امریکہ کے درمیان ’بڑا اور شاندار‘ تجارتی معاہدہ خطرے میں ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 02, 2025

AFPفروری 2025 میں امریکی صدر ٹرمپ اور انڈین وزیراعظم مودی کی ملاقات کا منظر

کیا انڈیا اور امریکہ کے درمیان ’بڑا اور شاندار‘ تجارتی معاہدہ خطرے میں ہے؟

امریکی انتظامیہ کی طرف سے دی گئی نو جولائی کی ڈیڈ لائن میں صرف چند دن باقی ہیں اور جہاں انڈیا اور امریکہ کے درمیان عبوری تجارتی معاہدے کی امید ابھی باقی ہے لیکن اس پر ہونے والی بات چیت مسلسل سخت سودے بازی میں الجھتی جا رہی ہے۔

اگرچہ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے اشارہ دیا تھا کہ معاہدہ عنقریب ہونے والا ہے اور انڈین وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے بھی کہا تھا کہ دہلی بقول ٹرمپ ’بڑے، اچھے اور خوبصورت‘ معاہدے کا خیرمقدم کرے گا۔

بی بی سی اردو کے فیچرز اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں

صدر ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ دہلی کے ساتھ تجارتی معاہدہ ہونے جا رہا ہے اور اس سے انڈیا کی معیشت کو ایک نئی زندگی ملے گی تاہم ان سب دعوؤں کے باوجود بات چیت مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

اہم معاملات جیسا کہ زرعی پیداوار، آٹو پارٹس اور انڈین سٹیل پر ٹیرف جیسے معاملات پر فیصلہ ہونا ابھی بھی باقی ہے۔ ایک طرف انڈیا نے زراعت اور ڈیری سیکٹر کے تحفظ کے لیے سر نہ جھکانے کا عندیہ دیا ہے تو دوسری طرف امریکہ انڈین مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مزید مواقع پر زور دے رہا ہے۔

واشنگٹن میں موجود انڈین مذاکرات کاروں نے بات چیت کے ایک اور دور کے لیے اپنے قیام کی مدت میں اضافہ کر لیا ہے۔ اگرچہ فضا پرامید لگ رہی ہے لیکن معاہدے تک پہنچنے کا وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔

واشنگٹن کے سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں انڈیا کی معیشت پر نظر رکھنے والے رچرڈ روسو نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا کو معاشی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنے بنیادی زرعی شعبے کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہو گی۔

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ابتدائی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے دو حقیقی چیلنجز ہیں۔ اس فہرست میں سب سے پہلے بنیادی زرعی مصنوعات کے لیے انڈین بازار تک امریکی رسائی ہے۔‘

’لاتعلقی کے بعد ثالثی‘: ’ڈیل میکر‘ ٹرمپ انڈیا اور پاکستان سے کیا چاہتے ہیں؟امریکہ، سفارتی بیک چینل رابطے اور خطے کے بڑے کھلاڑی: جنگ کے دہانے پر کھڑی دو جوہری طاقتوں کو سیزفائر پر کیسے رضامند کیا گیاکوششوں کے باوجود انڈیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے قرض کی قسط جاری کرنے سے کیوں نہیں روک پایا؟چار یورپی ممالک کا انڈیا سے تجارتی معاہدہ اور 100 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کتنی اہم ہے؟

دہلی میں قائم تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشییٹو (جی ٹی آر آئی) سے تعلق رکھنے والے انڈین وزارتِ تجارت کے سابق افسر اجے شریواستو کہتے ہیں کہ آنے والے سات دن اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ انڈیا اور امریکہ ایک محدود ’چھوٹے معاہدے‘ پر متفق ہوتے ہیں یا فریقین مذاکرات کی میز سے اٹھ جانے والے ہیں۔

یہ غیر یقینی صورتحال چند اہم فلیش پوائنٹس پر ٹکی ہوئی ہے جن میں زراعت سے زیادہ متنازع کچھ نہیں۔

Getty Imagesٹیرف میں رعایات انڈیا پر دباؤ ڈال سکتی ہیں کہ وہ اپنی کم از کم امدادی قیمتوں کو کم کرے

برسوں سے واشنگٹن نے انڈیا کے زرعی شعبے تک زیادہ سے زیادہ رسائی پر زور دیا ہے اور اسے ایک بڑی غیر استعمال شدہ مارکیٹ کے طور پر دیکھا ہے لیکن انڈیا نے اپنے لاکھوں چھوٹے کسانوں کے غذائی تحفظ، معاش اور مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی بھرپور حفاظت کی ہے۔

روسو کا کہنا ہے کہ ’دوسرا مسئلہ انڈیا کی نان ٹیرف رکاوٹوں کا ہے۔ انڈیا کے بڑھتے ہوئے کوالٹی کنٹرول آرڈرز (کیو سی او) جیسے مسائل امریکی بازار تک رسائی میں اہم رکاوٹیں ہیں اور تجارتی معاہدے میں ان سے بامعنی طریقے سے نمٹنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔‘

امریکہ نے انڈیا کے درآمدی معیار کے قوانین پر تشویش کا اظہار کیا ہے جنھیں وہ بوجھل قرار دیتا ہے۔ انڈیا کے 700 سے زیادہ کیو سی اوز ’خود کفیل انڈیا‘ پروگرام کا حصہ ہیں اوران کا مقصد غیرمعیاری درآمدات کو روکنا اور ملکی سطح پر پیداوار کو فروغ دینا ہے۔

سرکاری تھنک ٹینک نیتی آیوگ کی سینیئر رکن ثمن بیری نے بھی ان قوانین کو ’ضرر رساں مداخلت‘ قرار دیا ہے جو درآمدات کو محدود کر رہی ہے اور درمیانے اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کے لیے لاگت بڑھانے کا سبب ہیں۔

Getty Images

ایک بہت بڑا مسئلہ ’فارم ایکسپورٹس‘ رہی ہیں۔ انڈیا اور امریکہ کے درمیان زرعی تجارت کا حجم آٹھ ارب ڈالر تک ہے۔ اس میں انڈیا چاول، جھینگے اور مصالحے برآمد کرتا ہے جبکہ امریکہ میوے، سیب اور دالیں بھیجتا ہے لیکن جیسے جیسے تجارتی مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں، واشنگٹن کی نظریں مکئی، سویا بین، کپاس اور مکئی جیسی بڑی زرعی برآمدات پر مرکوز ہیں تاکہ انڈیا کے ساتھ 45 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کیا جا سکے۔

ماہرین کو خدشہ ہے کہ ٹیرف میں رعایات انڈیا پر دباؤ ڈال سکتی ہیں کہ وہ اپنی کم از کم امدادی قیمتوں (ایم ایس پی) اور عوام سے خریداری کو کم کرے۔ یہ وہ اہم اقدامات ہیں جو مناسب قیمت اور فصل کی یقینی خریداری کی ضمانت دے کر کسانوں کو قیمتوں میں کمی سے بچاتے ہیں۔

اجے سریواستو کا کہنا ہے کہ ’ڈیری مصنوعات یا چاول اور گندم جیسی اہم غذائی اجناس کے لیے ٹیرف میں کوئی کٹوتی کی توقع نہیں ہے کیونکہ ان معاملات میں زرعی معاش داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یہ زمرے سیاسی اور اقتصادی طور پر حساس ہیں، جو ملک کی دیہی معیشت کے 70 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ نیتی آیوگ کے ایک حالیہ مقالے میں انڈیا اور امریکہ کے مجوزہ تجارتی معاہدے کے تحت چاول، ڈیری، پولٹری، مکئی، سیب، بادام اور جی ایم سویا سمیت امریکی زرعی درآمدات پر محصولات میں کمی کی سفارش کی گئی ہے۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ تجویز سرکاری حکومت کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے یا صرف ایک پالیسی تجویز ہی ہے.

رچرڈ روسو نے کہا کہ اگر انڈیا بنیادی زراعت تک رسائی کو شامل نہیں کرتا اور امریکہ نتیجتاً ’نو ڈیل‘ کہتا ہے تو واضح طور پر امریکی توقعات درست نہیں تھیں۔ کسی بھی جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کی سیاسی حدود ہوں گی۔‘

اب معاہدے کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟

اجے سریواستو جیسے ماہرین کا ماننا ہے کہ زیادہ امکان ’ایک محدود تجارتی معاہدے کا ہے‘ جو آٹھ مئی کو امریکہ اور برطانیہ کے درمیان اعلان کردہ مختصر تجارتی معاہدے کی نظیر پر تیار کیا گیا ہو۔

اس مجوزہ معاہدے کے تحت انڈیا آٹوموبائل سمیت متعدد صنعتی اشیا پر محصولات میں کمی کر سکتا ہے اور ایتھنول، بادام، اخروٹ، سیب، کشمش، ایواکاڈوز، زیتون کا تیل، سپرٹ اور شراب جیسی منتخب مصنوعات پر ٹیرف میں کٹوتی اور کوٹہ کے ذریعے محدود زرعی رسائی فراہم کر سکتا ہے۔

محصولات میں کٹوتی کے علاوہ امریکہ انڈیا پر تیل اور ایل این جی سے لے کر بوئنگ طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور نیوکلیئر ری ایکٹرز تک بڑے پیمانے پر تجارتی خریداری کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔ واشنگٹن ملٹی برانڈ ریٹیل میں ایف ڈی آئی میں نرمی، ایمیزون اور وال مارٹ جیسی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے اور دوبارہ تیار شدہ سامان پر قوانین میں نرمی کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

اجے سریواستو کہتے ہیں کہ ’اگر یہ ’مِنی ڈیل‘ طے پا جاتی ہے تو اس میں ٹیرف میں کمی اور سٹریٹجک وعدوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جس سے مستقبل میں مذاکرات کے لیے ایف ٹی اے کے وسیع تر معاملات بشمول خدمات کی تجارت، انٹلیکچوئل پراپرٹی (آئی پی) حقوق اور ڈیجیٹل ریگولیشنز باقی رہ جائیں گے۔‘

رچرڈ روسو کا کہنا ہے کہ ابتدا میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی بات چیت ایک واضح اور منصفانہ وژن پر مبنی دکھائی دیتی تھی۔

’دونوں رہنماؤں (ٹرمپ اور مودی) نے اس سال اپنی پہلی ملاقات میں ایک سادہ سا تصور پیش کیا تھا۔امریکہ ان مصنوعات پر توجہ مرکوز کرے گا جو سرمایے پر مبنی ہوں، جبکہ انڈیا ان اشیا پر توجہ مرکوز کرے گا جس میں توجہ کاریگری پر ہو لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد چیزیں بدل گئی ہیں۔‘

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات ناکام بھی ہو جاتے ہیں تو ٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر 26 فیصد محصول کی شرح بحال کرنے کا امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، زیادہ تر انڈین درآمدات پر موجودہ ’ایم ایف این‘ شرحوں کے علاوہ مزید دس فیصد بنیادی محصول لاگو ہو سکتا ہے۔ (ایم ایف این یا سب سے زیادہ پسندیدہ ملک کی شرح سب سے کم محصول کی شرح ہے جو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا رکن ملک ڈبلیو ٹی او کے دوسرے رکن سے وصول کرتا ہے)۔

اگرچہ اپریل میں 57 ممالک کو ان محصولات کا سامنا کرنا پڑا تھا ، لیکن اب تک صرف برطانیہ نے امریکہ سے معاہدہ کیا ہے۔ اس صورتحال میں خاص طور پر انڈیا کو نشانہ بنانا غیر منصفانہ لگ سکتا ہے۔

تاہم اجے سریواستو کہتے ہیں کہ ’اس کے باوجود ٹرمپ کے معاملے میں حیران کن باتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘

مودی کا دورہ امریکہ اور ریڈ کارپٹ کی تیاریاں: کیا انڈیا واشنگٹن کا مزید قریبی اتحادی بننے جا رہا ہے؟چینی صدر کے فوج کو ’تیار‘ رہنے کے بیان پر کیا انڈیا کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟چار یورپی ممالک کا انڈیا سے تجارتی معاہدہ اور 100 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کتنی اہم ہے؟انڈیا کی امریکی ڈرونز کی خریداری کی وجہ چین سے سرحدی کشیدگی ہے؟پاکستانی مصنوعات پر نیا امریکی ٹیرف: ٹرمپ کے فیصلے سے ملکی برآمدات پر کیا اثر پڑے گا؟’لاتعلقی کے بعد ثالثی‘: ’ڈیل میکر‘ ٹرمپ انڈیا اور پاکستان سے کیا چاہتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More