پنجاب میں اسلحے کی نمائش اور ’ڈالا کلچر‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کتنا موثر؟

اردو نیوز  |  Jun 25, 2025

صوبہ پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں طاقت کی علامت کے طور پر مشہور ’ڈالا کلچر‘ اور اسلحے کی نمائش ان دنوں قانون کی زد میں ہے۔

صوبے میں جرائم کو ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا نیا ادارہ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) ان دنوں ڈالا کلچر اور اسلحے کی نمائش کے خلاف آپریشن کر رہا ہے۔ اور اس بار سیاسی شخصیات کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

22 جون کو گجرات میں ایک سیاسی شخصیت کے ساتھ چلنے والے پانچ غیر قانونی گن مینوں کو ایک ناکے پر گرفتار کیا گیا، نہ صرف اسلحہ ضبط کیا بلکہ پانچ مختلف مقدمات بھی درج کیے گئے۔

کچھ ایسی صورت حال 11 جون کو ناروال اور ننکانہ میں بھی سامنے آئی جس میں متعدد طاقت ور شخصیات کے گن مینوں کو گرفتار کیا گیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ سی سی ڈی نے صوبے بھر کے ڈسٹرکٹ پولیس افسران (ڈی پی اوز) کے ذریعے طاقت ور شخصیات کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کیے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ ’سی سی ڈی کو معلوم ہوا ہے کہ آپ نے گن مین رکھے ہوئے ہیں اور پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے اسلحے کی نمائش میں ملوث ہیں۔‘

’آپ سے گزارش ہے کہ مستقبل میں آپ یا آپ کے کسی رشتہ دار یا دوست نے اسلحے کی نمائش کی، تو قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔‘

یہ نوٹسز سیاسی و غیر سیاسی شخصیات، جاگیر داروں اور بااثر افراد کو بھیجے جا رہے ہیں جو اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے مسلح گن مین اور ’ڈالوں‘ (ٹویوٹا ہائیلکس جیسے پک اپ ٹرکس) کا استعمال کرتے ہیں۔

لیکن کیا یہ کریک ڈاؤن پنجاب کے گہرے جڑ پکڑے اس کلچر کو ختم کر پائے گا؟

ڈالا کلچر: طاقت کی علامت

پنجاب میں ڈالا کلچر کوئی نیا رجحان نہیں۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو دیہاتی جاگیرداری سے لے کر شہری اشرافیہ تک پھیلی ہوئی ہے۔

ٹویوٹا ہائیلکس یا اسی طرح کے بڑے پک اپ ٹرکس، جنہیں مقامی طور پر ’ڈالا‘ کہا جاتا ہے، طاقت، دبدبے، اور سماجی مرتبے کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ شادیوں، مذہبی تقریبات، اور سیاسی ریلیوں میں مسلح گن مینوں کے ساتھ ڈالوں کی قطاریں نظر آنا عام ہے۔

یہ گاڑیاں نہ صرف نقل و حمل کا ذریعہ ہیں بلکہ ان کا استعمال خوف اور دھاک بٹھانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

کریک ڈاؤن کے دوران متعدد طاقت ور شخصیات کے گن مینوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ماہر سماجیات ڈاکٹر عدنان رفیق کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں اسلحہ اور ڈالوں کی نمائش کی جڑیں 1980 کی دہائی کی عسکریت پسندی اور گرین ریولوشن سے ملتی ہیں۔ عسکریت کے دور میں اسلحہ رکھنا تحفظ کی ضرورت تھا، لیکن بعد میں یہ طاقت اور عزت کی علامت بن گیا۔ گرین ریولوشن نے زرعی طبقے کو معاشی طور پر مضبوط کیا، جس نے ہتھیاروں اور بڑی گاڑیوں کی خریداری کو فروغ دیا۔‘

ڈالا کلچر نے پنجاب کے معاشرے میں خوف کی فضا پیدا کی ہے۔ شادیوں میں ہوائی فائرنگ جو اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے، اور مسلح گارڈز کی موجودگی سے عام شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اب یہ کلچر تقریبات سے نکل کر سڑکوں پر بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔

ڈاکٹر عدنان مزید کہتے ہیں کہ ’یہ کلچر خاص طور پر نوجوانوں کو متاثر کر رہا ہے، جو اسے سٹیٹس سمبل سمجھ کر غیر قانونی اسلحہ حاصل کرتے ہیں۔ اور ان دنوں سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک پر دھاک بٹھانے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ سوشل میڈیا پر پولیس نے پہلے دن سے ہی اس کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔‘

شادیوں اور تقریبات میں اسلحے کی نمائش

پنجاب میں شادیوں، مذہبی تقریبات اور دیگر سماجی اجتماعات میں ڈالوں اور مسلح گارڈز کی موجودگی ایک عام منظر ہے۔ یہ نہ صرف طاقت کا مظاہرہ ہے بلکہ سماجی حیثیت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر سارہ خان کہتی ہیں کہ ’یہ ایک نفسیاتی رجحان ہے۔ لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے اسلحہ اور ڈالوں کا سہارا لیتے ہیں، کیونکہ یہ انہیں طاقتور اور اہم دکھاتا ہے۔‘

شادیوں میں ہوائی فائرنگ سے ہر سال درجنوں اموات بھی ہوتی ہیں۔

بہت سے لوگ پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں سے مسلح گارڈز کرائے پر لیتے ہیں۔ یہ کمپنیاں اکثر غیر قانونی اسلحہ استعمال کرتی ہیں، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ سی سی ڈی نے ایسی کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔

سی سی ڈی کا کریک ڈاؤن

فروری 2025 میں قائم کیا گیا پنجاب پولیس کا ذیلی ادارہ سی سی ڈی سات سنگین جرائم کے خلاف کام کر رہا ہے جس میں قتل، ڈکیتی، قبضہ مافیا، گینگسٹر نیٹ ورکس، منشیات، اسلحے کی نمائش، اور ڈالا کلچر شامل ہیں۔

سی سی ڈی نے ڈی پی اوز کے ذریعے طاقت ور شخصیات کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کیے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اس ادارے کے سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) سہیل ظفر چٹھہ کہتے ہیں کہ ’ہم  جدید ٹیکنالوجی، جیسے 21 ہزار سیف سٹی کیمرہ اور ڈرون سرویلنس، کو اپنا رہے ہیں۔ اسلحے کی نمائش سے معاشرے میں خوف پھیلتا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔‘

’ہمارا مقصد پنجاب کو جرائم سے پاک کرنا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہم نے بھتہ مافیا کے خلاف ایک انتہائی منظم مہم شروع کر رکھی ہے۔ کوئی بھی شخص پنجاب کی حدود میں بھتے کا پیغام وصول کرے تو وہ فوری ہماری ہیلپ لائن پر بتائے اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پنجاب میں جرائم کے خلاف بہت بڑا آپریشن جاری ہے۔ سی سی ڈی نے ڈیڑھ ماہ میں 964 اشتہاری ملزمان، جن میں 93 قتل کے ملزم شامل ہیں، کو گرفتار کیا اور 678 سنگین مقدمات حل کیے ہیں۔‘

سیاسی گن مین: ایک نیا ہدف

سیاسی شخصیات کے ساتھ غیر قانونی گن مینوں کی موجودگی پنجاب میں ایک پرانا رجحان ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ  یہ گن مین نہ صرف تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ ووٹرز پر دباؤ ڈالنے اور مخالفین کو دھمکانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اس وقت مقامی سیاستدانوں کے گن مینوں کے خلاف ایک خاموش آپریشن جاری ہے۔

تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ گن مین اور ڈالا کلچر کو معاشرے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں کہ ’جب تک معاشرہ اسے عزت کی علامت سمجھتا رہے گا، اسے ختم کرنا مشکل ہے۔‘

ڈاکٹر سارہ خان کہتی ہیں کہ ’اس کلچر کے خلاف کامیابی کے لیے قانون نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی آگاہی ضروری ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں مہمات چلائی جائیں تاکہ نوجوان اس کلچر کو مسترد کریں۔‘

ماہر قانون ڈاکٹر احمد علی کہتے ہیں کہ غیر قانونی اسلحے کے خلاف سخت سزائیں اور پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کی سخت نگرانی ناگزیر ہے۔ پنجاب حکومت کو میڈیا اور سکولوں کے ذریعے اسلحے کی نمائش کے نقصانات پر مہم چلانی چاہیے۔

خیال رہے کہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے کی سزا کو بڑھانے کے لیے 2019 کے آرمز ایکٹ ترمیمی بل میں 7-14 سال قید کی تجویز دی گئی تھی لیکن اس قانون پر مکمل عمل درآمد نہیں دکھائی دیا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More