افزودہ یورینیئم کہاں گئی؟ ایران اسرائیل جنگ بندی کے باوجود وہ سوال جو امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے اب بھی موجود ہیں

بی بی سی اردو  |  Jun 25, 2025

EPAامریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر سنیچر کی رات حملہ کیا لیکن منگل کی صبح تک صدر ٹرمپ واشنگٹن سے ایک اور بین الاقوامی دورے کے لیے روانہ ہو چکے تھے

ایئر فورس ون پر نیدرلینڈز میں نیٹو سمٹ میں جانے والے صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک ایسا پیغام شیئر کیا جو ایک غیرمتوقع شخص کی جانب سے تھا۔

یہ نیٹو سکیورٹی اتحاد کے سربراہ مارک رٹا کی طرف سے تھا جنھوں نے اس پیغام میں امریکی بمبار طیاروں کے ایران کی تنصیبات پر حملے میں کامیابی پر امریکی صدر کی تعریف کی تھی۔

صدر نے رٹا کا یہ پیغام اپنے ٹرتھ سوشل اکاؤنٹ پر شیئر کیا جس میں لکھا تھا کہ ’ایران پر فیصلہ کن کارروائی کرنے پر آپ کا شکریہ اور مبارکباد۔ یہ یقیناً غیر معمولی اور ایسا اقدام تھا جو اس سے پہلے کسی نے کرنے کی ہمت نہیں کی۔‘

ٹرمپ کے ماضی میں نیٹو کے ساتھ اختلافات رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اس اتحاد کے مشترکہ دفاعی معاہدے پر سوالات اٹھائے اور خاص طور پر ساتھی ممالک کی جانب سے اس اتحاد میں مالی معاونت کے حوالے سے۔

رٹا نے ٹرمپ کو بھیجے گئے پیغام میں اس موضوع پر بھی بات کی اور کہا کہ آپ ’ایک اور بڑی فتح کی جانب بڑھ رہے ہیں‘ جہاں اتحاد کے ممبران کی جانب سے ٹرمپ کے اس مطالبے سے اتفاق کیا گیا کہ وہ دفاع پر اپنے جی ڈی پی کا پانچ فیصد خرچ کریں گے۔

انھوں نے لکھا کہ ’یہ آپ کی فتح ہو گی۔‘

BBCنیٹو کے سربراہ کی جانب سے ٹرمپ کو بھیجے گئے پیغامات

یہ پرجوش الفاظ اور صدر کی انھیں دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کی بیتابی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں اور اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ سفارتی صورتحال کس حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔

گذشتہ ہفتے کینیڈا میں منعقدہ جی سیون سمٹ سے وہ ایک دن پہلے واپس آ گئے تھے کیونکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع اپنے عروج پر تھا اور اس بات کے قوی امکانات تھے کہ امریکہ بھی اس لڑائی کا حصہ بن سکتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر سنیچر کی رات حملہ کیا لیکن منگل کی صبح تک صدر ٹرمپ واشنگٹن سے ایک اور بین الاقوامی دورے کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ اس مرتبہ لڑائی کرنے والوں کے مابین ایک کمزور جنگ بندی معاہدہ ہو چکا تھا۔

نیٹو کے سربراہ کا ٹرمپ کو پیغام جس کی تصدیق نیٹو کے پریس آفس نے بی بی سی کو کی، دراصل وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس حملے کے حوالے سے بتائی گئی معلومات کو افسانوی انداز میں بتانے کی کوشش تھی۔

یعنی ٹرمپ کے فوجی حملوں نے ایرانی جوہری ہتھیاروں کا خطرہ ختم کر دیا۔ ان کی کارروائی نے جنگ بندی کی بنیاد رکھی اور '12 روزہ جنگ' کا خاتمہ کر دیا۔

ٹرمپ کی شمولیت اور ان کا دباؤ، منگل کی صبح ایران اور اسرائیل دونوں کے خلاف انتہائی غصے میں دیا گئے بیانات اور وائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کو ایئر فورس ون سے کی گئی ’غیر معمولی طور پر براہ راست فون کال‘ کے باعث جنگ بندی ممکن ہو سکی۔

Getty Images

گذشتہ ہفتے امریکی اتحادی خاصے پریشان تھے تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ یورپ کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ ان کی تعریفیں سمیٹ سکیں۔

تاہم صورتحال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

وائٹ ہاؤس انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ امریکی بمباری سے ایرانی جوہری تنصیبات ’مکمل طور پر تباہ‘ ہو چکی ہیں لیکن امریکی فوجی انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے امریکی میڈیا کو بتایا ہے کہ نقصان اتنا بھی شدید نہیں جتنا وائٹ ہاؤس کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

پینٹاگون انٹیلیجنس تجزیے کے مطابق ملک کا جوہری پروگرام صرف چند ماہ پیچھے چلا گیا اور رپورٹ کے بارے میں معلومات رکھنے والے ذرائع نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ایران کی افزودہ یورینیئم کا اس حملے میں خاتمہ نہیں ہوا۔

اس بارے میں سوالات اب بھی موجود ہیں کہ ایران کی افزودہ یورینیئم کتنی تعداد میں اور کہاں موجود ہے کیونکہ یہ کسی بھی جوہری ہتھیار کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایران میں ایک ایسی تنصیب بھی موجود ہے جس کے بارے کسی کو علم نہیں اور وہ ان حملوں میں محفوظ رہی۔

یہ جنگ بندی اس وقت تو جاری ہے لیکن مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے ایسے معاہدے ماضی میں خاصے کمزور رہے ہیں۔ ایرانی لیڈرشپ دو ہفتوں کے ہلاکت خیز اسرائیلی حملوں کے بعد کمزور ہو چکی ہے اور ملک کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

پُراسرار نقل و حرکت، سرمئی دھول اور ملبے کے آثار: امریکی حملے میں ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا؟کیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟پینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیںٹرمپ کو نوبیل انعام دینے کی سفارش اور پھر ایران پر امریکی حملے کی مذمت، کیا پاکستان سفارتی مخمصے کا شکار ہے؟

شام کی ہی مثال دیکھ لیں جہاں جب ایک آمرانہ حکومت کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوئی تو کس قسم کے خطرات سامنے آئے۔ ٹرمپ نے ایران کے لیے ’محبت، امن اور ترقی‘ کی بات کی ہے لیکن افراتفری اور خطے میں بحران حقیقت پر مبنی امکانات ہیں۔

ٹرمپ نے دو ہفتوں کی اسرائیل ایران جنگ تو بظاہر رکوا دی لیکن جو جنگیں وہ ختم کراونے کا وعدہ کر کے آئے تھے یعنی غزہ اور یوکرین کی جنگیں، وہ اب بھی جاری ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے لیے یہ خدشات فی الحال ایجنڈا پر نہیں۔

Getty Imagesوائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کو ایئر فورس ون سے ٹرمپ کی جانب سے کی گئی ’غیر معمولی طور پر براہ راست فون کال‘ کے باعث جنگ بندی ممکن ہو سکی

اس وقت ٹرمپ کے امریکہ میں موجود ناقدین جو ان کے ایران پر حملے کے حوالے سے تنقید کر رہے تھے اب خاموش ہیں۔ ان میں رپبلکن رہنما تھامس میسی شامل ہیں جو ٹرمپ کے ایران میں طاقت کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے قرارداد پیش کرنے والے تھے تاہم اب وہ اسے واپس لے رہے ہیں۔

اس سے ٹرمپ کو وہ سیاسی سپیس ملی، جس کے دوران وہ اس ’کامیابی‘ کا جشن منا سکتے ہیں۔

منگل کو نائب صدر جے ڈی وینس نے ٹرتھ سوشل پر اپنے پیغام میں ٹرمپ کے ’فارن پالیسی ڈاکٹرائن‘ کے بارے میں لکھا جس کے ان کے مطابق تین حصے ہیں۔

امریکی مفاد کی واضح تشریح، جارحانہ انداز میں مذاکرات کر کے اس مفاد کو حاصل کرنے کی کوشش، ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال۔۔۔

اگر ڈاکٹرائنز کی بات کریں تو، اس سے کچھ زیادہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

صدر کی بین الاقوامی پالیسی اکثر تضادات پر مبنی اور فوری ردِعمل کی طرح محسوس ہوتی ہے جو عسکری حکمت عملی کی طرح زیادہ اور سٹریٹیجک کم ہوتی ہے۔چاہے وہ ٹیرف ختم کرنے یا لگانے کی بات ہو یا اتحادیوں اور مخالفین سے مذاکرات کرنے کی۔

گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ٹرمپ نے پہلے اسرائیل کے ایران پر حملوں سے خود کو علیحدہ کیا اور پھر اس جنگ میں شامل ہو گئے۔ اسی طرح پہلے ایران سے ’غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے‘ کا کہا اور پھر غیر واضح شرائط پر سیز فائر کر لیا اور رجیم چینج کے مفروضے پر بات کی اور پھر اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔

یہ ایک ایسی غیرمعمولی ٹرین کی سواری جیسا ہے جس میں پٹڑی سے اترنے کے امکانات ہر موڑ پر ہی بہت زیادہ ہیں لیکن نتائج نظر آتے ہیں اور اس ہفتے ٹرمپ کے لیے یہ غیر معمولی ہفتہ فتح کے جشن پر ختم ہوا۔

کیا ٹرمپ کا داؤ ایران اور اسرائیل کے بیچ میزائلوں کا تبادلہ روک پائے گا؟پینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیںقطر میں العدید ایئر بیس سمیت امریکی فوج مشرقِ وسطیٰ میں کہاں اور کیوں موجود ہے؟’امریکہ اور ایران دونوں کے لیے اگلا مرحلہ زیادہ فیصلہ کن ہو سکتا ہے‘ٹرمپ کو نوبیل انعام دینے کی سفارش اور پھر ایران پر امریکی حملے کی مذمت، کیا پاکستان سفارتی مخمصے کا شکار ہے؟پُراسرار نقل و حرکت، سرمئی دھول اور ملبے کے آثار: امریکی حملے میں ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More