Getty Images
پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاریکے لیے دوبارہ کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں نجکاری کمیشن کو پانچ پارٹیوں کی جانب سے دستاویز موصول ہوئی ہیں جن میں ان کی طرف سے ایئرلائن کی خریداری میں دلچپسی ظاہر کی گئی۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس موجودہ حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کی پہلی کوشش اس وقت ناکام ہوئی تھی جب قومی ائیر لائن کی خریداری کے لیے صرف ایک کمپنی کی جانب سے صرف دس ارب روپے کی بولی لگائی گئی تھی جبکہ حکومت نے اس کی فروخت کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔
گذشتہ برس کی ناکامی کے بعد اس سال پی آئی اے کی نجکاری کی دوسری کوشش کا آغٓاز کیا گیا اور اسی دوران حکومت نے نجکاری کمیشن کا قلمدان علیم خان سے واپس لے لیا گیا اور محمد علی کو وزیر اعظم کا مشیر برائے نجکاری مقرر کر دیا گیا۔
گذشتہ تقریباً ایک برس میں پاکستانی حکومت نے ائیر لائن کی نجکاری کو پرکشش بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اس سلسلے میں بی بی سی نے نجی اور حکومتی اداروں سے بات کی۔
Getty Imagesپی آئی اے خریدنے میں کن کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا؟
حکومت کی جانب سے پی آئی اے نجکاری کی دوسری کوشش کے سلسلے میں آٹھ کمپنیوں نے قومی ایئرلائن کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہمنجکاری کمیشن کو ڈیڈ لائن ختم ہونے تک پانچ کمپنیوں کی جانب سے ہی سٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن موصول ہوئے۔
ان کمپنیوں میں لکی سیمنٹ، حب پاور، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز پر مشتمل کنسورشیم شامل ہیں۔
عارف حبیب، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی سکول اور لیک سٹی ہولڈنگز پر مشتمل گروپ نے بھی قومی ایئرلائن خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اسی طرحایئر بلیو اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے بھی باضابطہ طور پر اپنی اپنی سٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن جمع کروائی۔
اس کے علاوہ آگمنٹ سیکیورٹیز، سیرین ایئر، بحریہ فاؤنڈیشن، میگا ہولڈنگ اور ایکویٹاس نے بھی پی آئی اے کی خریداری میں مشترکہ طور پر دلچسپی ظاہر کی۔
نجکاری کمیشن نے قومی ایئرلائن کی بولی کھولنے کی تاریخ کا حتمی اعلان نہیں کیا تاہم اس عمل میں اکثر دو سے تین مہینے لگتے ہیں۔
Getty Imagesپی آئی اے نجکاری کی دوسری کوشش پہلی کوشش سے کیسے مختلف ہے؟
گذشتہ برس موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی پہلی کوشش کے بعد نئے حکومتی اقدامات پر بات کرتے ہوئے نجکاری کمیشن کے ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یورپ کے لیے قومی ائیر لائن کی روٹس کی بحالی کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے لیے فلائٹس کی متوقع بحالی ایسی پیشرفت ہے جو نجکاری کی دوسری کوشش کو زیادہ پُرکشش بناتی ہے۔
ترجمان ڈاکٹر احسن اسحاق کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آئی ہے جس نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کیا اور اب حالات پی آئی اے کے لیے سازگار ہیں۔
نجکاری کمیشن کے سابق سربراہ محمد زبیر بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گذشتہ برس کی نسبت اب ملک کے حالات بہتر ہوئے ہیں جس کے سبب معاشی صورتحال میں بھی بہتری نظر آ رہی ہے۔
انھوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ یورپی اور برطانوی روٹس کی بحالی نے بھی پی آئی اے کو بہتر بنایا ’کیونکہ یہ روٹس کافی پرکشش ہیں اور ساٹھ کی دہائی سے پی آئی اے کے پاس ہیں۔‘
تاہم ایوی ایشن امور کے ماہر افسر ملک اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سنہ 2020 میں پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ میں جانے پر پابندی سے پہلے ائیر لائن خسارے میں تھی ۔
’ویسے بھی ان روٹس پر پی آئی اے کا مقابلہ مشرق وسطیٰ کی ائیرلائنز سے ہے جو زیادہ بہتر سروس فراہم کرتی ہیں۔ یہ صرف ایک تاثر ہے ورنہ یہ پہلو پی آئی اے کی نجکاری کو زیادہ پرکشش نہیںبناتا۔‘
تاہم افسر ملک یہ ضرور کہتے ہیں کہ پی آئی اے کو پُرکشش بنانے کے لیے حکومت پی آئی اے کے ٹیکس معاملات کو حل کر کے اسے قانونی کور دے رہی ہے جو گذشتہ سال نہیں کیا گیا تھا۔
’اسی طرح گذشتہ برس کے مقابلے میں اب حکومت نئے ائیر کرافٹس کی لیزنگ اور خریداری کے لیے سیلز ٹیکس پر چھوٹ بھی رہی ہے۔‘
افسر ملک نے بتایا کہ موجودہ مرحلے میں حکومت پی آئی اے کی پوری اونرشپ دینے جا رہی ہے جبکہ گذشتہ برس اس کا چالیس فیصد اپنے پاس رکھ رہی تھی۔
پی آئی اے کے لیے صرف 10 ارب روپے کی بولی: کیا ’باکمال لوگوں‘ کی ایئرلائن کی نجکاری میں حکومت بری طرح پھنس گئی؟ایک سال پہلے اربوں روپے خسارے والی پی آئی اے منافع بخش کیسے بن گئی؟پی آئی اے: ’عالمی شہرت یافتہ‘ ایئرلائن اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور اس نے یہ نام کیسے کمایا؟پی آئی اے کی متوقع قیمت 85 ارب روپے مگر 10 ارب روپے کی صرف ایک بولی، ایسا کیوں؟Getty Imagesپی آئی اے نجکاری کی موجودہ کوشش کامیاب ہو گی؟
حکومت کی جانب سے گذشتہ سال کی جانے والی کوشش کے بعد قومی ائیرلائن کی نجکاری کی موجودہ کوشش کی کامیابی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نجکاری کمیشن کے ترجمان ڈاکٹر احسن اسحاق نے کہا کہ امید ہے کہ اس بار حکومت کو بہت اچھی پیشکش موصول ہو گی۔
محمد زبیر بھی اس بار پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں پر امید ہیں جس کی وجہ وہ ملک میں معاشی صورت حال میں آنے والے استحکام کو سمجھتے ہیں جس سےسرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا تاہم انھوں نے کہا کہ ’اس وقت حکومت کا مسئلہ پی آئی اے کا خسارہ ہے جسے ختم کرنا ہے نہ کہ زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنا۔‘
انھوں نے کہا کہ حکومت 650 ارب روپے کا پی آئی اے کا قرضہ تو اپنے ذمے لے چکی ہے اب اسے خسارہ سے بچنے کے لیے قیمت پر زیادہ فوکس نہیں کرنا چاہیے۔
محمد زبیر نے مزید کہا کہ پی آئی اے کو پرائیوٹ سیکٹر میں جانا چاہیے بجائے اس کے اسے حکومت کے ایک ادارے کے تحت چلنے والی کسی کمپنی کے حوالے کیا جائے۔
واضح رہے کہ فوجی فرٹیلائزر فوج کے تحت چلنے والے ادارے فوجی فاونڈیشن کی ملکیت ہے۔
محمد زبیر کہتے ہیں کہ ’اگر فوجی فرٹیلائزر پی آئی اے خریدتی ہے اور اس کے بعد بھی اس کا خسارہ برقرار رہتا ہے تو لازمی طور پر یہ ریاست کا ہی خسارہ ہو گا۔‘
دوسری جانب ایوی ایشن امور کے ماہر افسر ملک کو پی آئی اے کی نجکاری میں ابھی رکاوٹیں نظر آ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو حکومت کو پی آئی اے کی فروخت کی کم از کم قیمت نہیں رکھنی چاہیے تھی کیونکہ جتنی قیمت گذشتہ برس رکھی گئی اس میں چند نئی ائیر لائنز چلائی جا سکتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کسی ائیرلائن کی کامیابی کے لیے ملک کے داخلی حالات، معاشی صورتحال، لوگوں کی خرچ کرنے کی قوت اور سیاحت کے شعبے کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پے آئی اے کی نجکاری میں ایک اور رکاوٹ اس کی جانب سے کیا جانے والا دعویٰ ہے کہ اس نے دو دہائیوں کے بعد اس برس آپریٹنگ منافع کمایا۔
’اس رپورٹ کی شفافیت پر بہت سارے سوالات ہیں کیونکہ اسے ابھی تک پی آئی اے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا گیا اور خریدار نجکاری کے مرحلے کے دوران ان سوالوں کے جواب ضرور ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔‘
ایک سال پہلے اربوں روپے خسارے والی پی آئی اے منافع بخش کیسے بن گئی؟پی آئی اے: ’عالمی شہرت یافتہ‘ ایئرلائن اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور اس نے یہ نام کیسے کمایا؟پی آئی اے کے لیے صرف 10 ارب روپے کی بولی: کیا ’باکمال لوگوں‘ کی ایئرلائن کی نجکاری میں حکومت بری طرح پھنس گئی؟پی آئی اے کی متوقع قیمت 85 ارب روپے مگر 10 ارب روپے کی صرف ایک بولی، ایسا کیوں؟ساڑھے چار سال کی پابندی کے بعد پی آئی اے پرواز کی یورپ روانگی: مگر اس پابندی سے قومی ایئرلائن کو کتنے ارب کا نقصان اٹھانا پڑا؟ پی آئی اے کا بحران: ’کچھ جہازوں کے انجن لیز پر ہیں، ان کو بھی اڑانے کی اجازت نہیں‘