صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے 13 جون کو صوبائی بجٹ 2025 -26 اسمبلی میں پیش کیا لیکن بجٹ پر بحث مکمل ہونے کے بعد اور مطالبات پیش کرنے سے پہلے ہی نیا تنازع کھڑا ہو گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بجٹ کی منظوری کو بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات سے مشروط کر دیا ہے۔
وزیراعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ بانی چیئرمین عمران خان نے ہدایت کی تھی کہ بجٹ ان سے مشاورت کے بعد منظور کیا جائے۔
’میں نے ایوان میں کہا تھا کہ عمران خان سے ملاقات نہ ہونے تک بجٹ منظور نہیں کیا جائے گا اس لیے بانی چیئرمین سے ملاقات ضروری ہے۔‘
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ بجٹ منظوری نہ ہونے کی صورت میں وفاق فنانشل ایمرجنسی لگا کر ہماری حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے۔
’اس صوبے میں ہماری حکومت ہے، میں ہی اسمبلی تحلیل کرسکتا ہوں اور یہ اختیار میرے پاس ہے۔‘
وزیراعلٰی نے اپنے اراکین اسمبلی کو ہدایت دی کہ انہوں نے کٹ موشن پر ووٹنگ نہیں کرنی ہے جبکہ اپنے ورکرز کو بھی پیغام دیا کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تیاری کر لیں۔
وزیراعلٰی کے احکامات کے بعد حکومتی اراکین نے بھی کٹ موشن پر ووٹنگ نہ کرنے کی تیاری کرلی ہے۔
رکن اسمبلی فضل الٰہی کا کہنا ہے کہ بانی چیئرمین عمران خان کی مشاورت اور اجازت کے بغیر بجٹ منظور نہیں ہوگا، ’ہمارا نظریہ عمران خان ہے اور صوبے کے عوام کا بھی لیڈر عمران خان یے جب تک ان کی ہدایت نہیں ملتی بجٹ منظور نہں ہونے دیں گے۔‘
کٹ موشن یا کٹوتی کی تحریک کیا ہے؟
وزیراعلٰی نے اپنے اراکین اسمبلی کو کٹ موشن پر ووٹنگ سے روک دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پشاور کے سینیئر پارلیمانی رپورٹر احتشام بشیر نے بتایا کہ کٹ موشن کا مرحلہ بجٹ سیشن کا اہم حصہ ہوتا ہے جہاں صوبے کا ہر محکمہ اپنے مطالبات سامنے رکھتا، ان کو ڈیمانڈز بھی کہتے ہیں۔
جیسے کہ صحت کا بجٹ اگر 34 ارب روپے ہے تو اس کے خلاف اپوزیشن رکن کٹوتی کی تحریک پیش کرتے ہیں۔
احتشام بشیر نے بتایا کہ اپوزیشن جماعتیں 5 روپے سے لے کر لاکھوں روپے کٹ موشن کے طور پر پیش کر کے محکمے کی کارکردگی پر اعتراض اٹھاتی ہیں۔
’اس کٹ موشن کے جواب میں متعلقہ محکمے کا وزیر اپوزیشن کو مطمئن کرتا ہے تاکہ وہ کٹ موشن واپس لے پھر اس کے بعد ڈیمانڈز ان گرانٹ منظور ہوتی ہے۔‘
صحافی احتشام بشیر نے مزید بتایا کہ اگر حکومت کٹوتی کی تحریک واپس لینے میں ناکام ہوجائے تو متعلقہ بجٹ دوبارہ تیار کر کے پیش کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی آئینی زمہ داری ہے کہ وہ 30 جون تک بجٹ منظور کرے ورنہ حکومتی خزانے سے پیسے خرچ نہیں کر سکے گی اور پھر فنانشل ایمرجنسی کا خدشہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
اپوزیشن کی حکمت عملی کیا ہو گی؟
بجٹ اجلاس میں حکومتی ردعمل کے طور پر اپوزیشن ممبران بھی متحرک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے جمعے کی شام کو گورنر ہاؤس میں گورنر فیصل کریم کنڈی سے طویل مشاورت کی۔
اپوزیشن وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد نے کی جن کے ہمراہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمیعت علماء اسلام کے رکن اسمبلی شامل تھے۔
اپوزیشن ممبران نے وزیراعلٰی کے رویے پر اپنی تشویش سے متعلق گورنر کو آگاہ کیا اور واضح کیا کہ اپوزیشن ممبر کسی غیر جمہوری اقدام کا حصہ نہیں بنیں گے۔
بجٹ اجلاس پیر 23 جون کو سپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی کی صدارت میں بلایا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
گورنر سے ملاقات میں مختلف آئینی تجاویز پر غور و غوض کیا گیا۔
اس موقع پر گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ایسا تاثر پیدا کیا جا رہا یے کہ صوبائی معاملات اڈیالہ جیل کی بیرک سے چلائے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کا پہلے ہی برا حال ہے اگر یہی سیاست ہوتی رہی تو صوبے کے معاشی اور انتظامی حالات مزید ابتر ہوجائیں گے۔
اپوزیشن ممبران کے مطابق ملاقات بغیر کسی نتیجے کے ملتوی ہوئی تاہم آج سنیچر کو دوبارہ سے مشاورت کے لیے گورنر ہاؤس میں اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں پی ٹی آئی کے خلاف حکمت عملی سامنے لائی جائے گی۔
یاد رہے کہ بجٹ اجلاس پیر 23 جون کو سپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی کی صدارت میں بلایا گیا ہے۔