’میری دادی نے میرا نام ’ٹیمبا‘ رکھا کیونکہ اس کا مطلب ’امید‘ کے ہیں۔ ہماری برادری کی امید، ہمارے ملک کی امید۔‘ یہ کہنا تھا جنوبی افریقہ کے کپتان ٹیمبا باووما کا جنھوں نے حال ہی میں اپنی ٹیم کو تاریخی فتح دلوائی ہے۔
کیپ ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ سیاہ فام باووما کی قیادت میں جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو شکست دے کر ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔
جنوبی افریقہ کی اس تاریخی کامیابی میں ایڈرین مارکرم کی چوتھی اننگز میں 136 رنز کے علاوہ کپتان باووما کے 66 رنز نے بھی جنوبی افریقہ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔
بطور کپتان یہ فتح باووما کے لیے اور بھی خاص تھی کیونکہ ان کی قیادت میں کھیلے گئے 10 ٹیسٹ میچوں میں یہ جنوبی افریقہ کی نویں فتح تھی جبکہ ایک میچ بے نتیجہ رہا ہے۔ ان کی قیادت میں جنوبی افریقہ اب تک کوئی بھی ٹیسٹ میچ نہیں ہارا ہے۔
اس سے پہلے کرکٹ کی تاریخ میں صرف انگلینڈ کے پرسی چیپ مین ہی ایسے کپتان رہے ہیں جنھوں نے اپنے پہلے 10 ٹیسٹ میچوں میں نو فتوحات درج کی ہیں۔
’کوٹہ کھلاڑی‘ کا الزام اور ٹیمبا باووما پر تنقید
جنوبی افریقہ کی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں فتح کو نہ صرف ملک کی تاریخی فتح قرار دیا جا رہا ہے بلکہ اسے کرکٹ میں تبدیلی کی فتح بھی کہا جا رہا ہے۔
ٹیمبا باووما جنوبی افریقہ کے پہلے مستقل سیاہ فام ٹیسٹ کپتان ہیں۔ جس اعتماد اور اطمینان کے ساتھ انھوں نے اپنی ٹیم کی قیادت کی وہ ایک ایسے ملک کے لیے علامتی لمحہ بن گیا ہے جس کی تاریخ نسل پرستی سے بھری ہوئی ہے۔
باووما کو اکثر جنوبی افریقی کرکٹ میں ’کوٹہ کھلاڑی‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ناقدین کا خیال تھا کہ ان کی ٹیم میں شمولیت کی وجہ کارکردگی نہیں بلکہ رنگ ہے۔
2019 میں انگلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ سیریز کے دوران اس وقت تنازع کھڑا ہو گیا جب اس وقت کے جنوبی افریقہ کے کپتان فاف ڈیو پلیسی نے باووما پر وین ڈیر ڈوسن کو ترجیح دی۔
اس وقت کہا گیا کہ جنوبی افریقہ نے پہلے دو ٹیسٹ میں صرف چار سیاہ فام کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا جبکہ ہدف چھ کو شامل کرنے کا تھا۔ اس الزام کے دفاع میں ڈیوپلیسی کا کہنا تھا کہ ’ٹیم کا انتخاب رنگ کی نہیں کارکردگی کی بنیاد پرکیا جاتا ہے۔‘
Getty Images
باووما کو بعد میں ٹیم میں شامل کیے جانے پر کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ٹیم کی ہر ناکامی کو ’کوٹہ پالیسی کی ناکامی‘ قرار دی گئی۔
جنوبی افریقی کرکٹ میں لاگو کوٹہ سسٹم کیا ہے؟
جنوبی افریقی کرکٹ میں کوٹہ سسٹم سلیکشن پالیسی کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد پسماندہ برادریوں جیسے کہ سیاہ فام، انڈین نژاد اور دیگر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو مساوی مواقع فراہم کرنا ہے۔
اس پالیسی کے تحت ٹیموں پر لازم ہے کہ وہ ہر سیزن میں ایک مخصوص تعداد میں ’غیر سفید فام‘ کھلاڑیوں کو شامل کریں۔
اس پالیسی کو غیر رسمی طور پر 1998 میں شروع کیا گیا جب جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈ نے ’غیر سفید فام کھلاڑیوں‘ کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی۔ بعد ازاں 2002 میں اس کوٹا سسٹم کو باقاعدہ طور پر ڈومیسٹک کرکٹ میں لاگو کیا گیا اور 2016 سے یہ بین الاقوامی سطح پر بھی لازمی ہے۔
اس کے تحت پلیئنگ الیون میں اوسطاً چھ ’غیر سفید فام‘ کھلاڑیوں کو شامل کرنا لازمی ہے جن میں سے کم از کم دو کھلاڑی سیاہ فام افریقی ہونے چاہیئیں۔
2003 میں جنوبی افریقہ کی ٹیم میں سیاہ فام کھلاڑیوں کا تناسب محض 14 فیصد تھا۔ 2016 میں یہ بڑھ کر 47 فیصد، 2023 میں 61 اور 2025 کی ٹیسٹ چیمپئن ٹیم میں 63 فیصد سیام فام کھلاڑی تک پہنچ گئی۔
اس عرصے کے دوران ٹیم کی کارکردگی کی درجہ بندی میں بھی بہتری آئی ہے- 2016 میں ٹیسٹ رینکنگ میں جنوبی افریقہ کی ٹیم چھٹے، 2023 میں تیسرے اور اب 2025 میں عالمی ٹیسٹ چیمپئن ہے۔
ہنسی کرونیئے: میچ فکسنگ میں ملوث سابق جنوبی افریقی کپتان جو اپنے ساتھ کئی راز لے گئےپویلین سے محمد اظہرالدین کا نام ہٹانے کا فیصلہ: ’دُعا کرتا ہوں کہ دنیا میں ایسا کسی بھی کرکٹر کے ساتھ نہ ہو‘باسل ڈی اولیورا: نسلی تعصب کا تنازع جس نے جنوبی افریقہ پر کرکٹ کے دروازے بند کر دیےنیاز سٹیڈیم حیدرآباد میں وسیم اکرم کا مجسمہ: ایک تو صورت وہ نہیں اوپر سے 1999 کی تلخ یاد، سوشل میڈیا پر فینز سخت نالاںکوٹا سسٹم کا دوسرا رخGetty Imagesکیون پیٹرسن اور اینڈریو سٹراس جیسے کئی سفید فام کھلاڑی جنوبی افریقہ چھوڑ کر انگلینڈ منتقل ہو گئے
جہاں اس کوٹہ سسٹم کے تحت سیاہ فام کھلاڑیوں کو پذیرائی ملی وہیں کچھ کھلاڑیوں کو جنوبی افریقہ کی کرکٹ کو خیرباد کہنا پڑا۔
انگلینڈ کے سابق کھلاڑی کیون پیٹرسن اپنی کتاب ’کراسنگ دی باؤنڈری‘ میں لکھتے ہیں کہ انھیں کوازولو-نیٹل ٹیم سے اس لیے ڈراپ کیا گیا کیونکہ ٹیم سلیکشن کے لیے ایک غیر اعلانیہ نسلی کوٹہ پالیسی موجود تھی۔
اسی وجہ سے وہ جنوبی افریقہ چھوڑ کر انگلینڈ منتقل ہو گئے جہاں بعد میں انھوں نے انگلینڈ کی قومی ٹیم کی نمائندگی بھی کی۔
کیون پیٹرسن اور اینڈریو سٹراس جیسے کئی سفید فام کھلاڑی جنوبی افریقہ چھوڑ کر انگلینڈ منتقل ہو گئے۔ پیٹرسن اور سٹراس نے انلینڈ کی جانب سے 100 سے زائد ٹیسٹ میچ کھیلے۔
کرکٹ ساؤتھ افریقہ کے کچھ سابق سربراہان، کوچز اور کھلاڑی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بعض اوقات باصلاحیت سفید فام کھلاڑیوں کو صرف کوٹہ کے اہداف کو پورا کرنے کی وجہ سے ٹیم سے باہر رکھنا پڑتا تھا۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی افریقہ میں کئی دہائیوں سے سیاہ فام کھلاڑیوں کو سکول کی سطح پر بھی کھیلنے کا موقع نہیں دیا جاتا تھا۔
اس تانزع سے ظاہر ہوتا ہے کوٹہ پالیسی کی وجہ سے جہاں کچھ باصلاحیت کھلاڑیوں کو موقع نہ مل پایا وہیں جن کو مواقع ملے انھیں بارہا اپنی شمیولیت کو ’جائز‘ ٰثابت کرنے کے لیے لڑنا پڑا۔
Getty Imagesکوٹہ سسٹم کے تحت ٹیم میں شامل کیے گئے کھلاڑیوں کے لیے اس ساری تنقید کے بیچ اپنا اعتماد برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے
کوٹہ سسٹم کے تحت ٹیم میں شامل کیے گئے کھلاڑیوں کے لیے اس ساری تنقید کے بیچ اپنا اعتماد برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ باووما جیسے کھلاڑیوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور فاتح بن کر ابھرے۔
باووما کا یہ اقتباس ان کی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہاں کوٹہ بھرنے نہیں قیادت کرنے آیا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں کون ہوں۔‘
کیا کوٹہ پالیسی سے ٹیم کی کارکردگی پر فرق پڑا؟
1992 سے 2002 کے درمیان جب کوٹہ پالیسی کو باضابطہ طور پر لاگو نہیں کیا گیا تھا تو ٹیسٹ میچوں میں جنوبی افریقہ کی جیت کا تناسب تقریباً 58 فیصد جبکہ ون ڈے میں تقریباً 65 فیصد تھا۔
یہ اس دور میں آسٹریلیا کے بعد دنیا میں کسی بھی ٹیم کی سب سے بہترین کارکردگی تھی۔ اس عرصے کے دوران جنوبی افریقہ 1998 میں چیمپئنز ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوا۔
2003 سے 2015 کے درمیان جب کوٹہ پالیسی کو جزوی طور پر نافذ کیا گیا تو ٹیم کے دونوں فارمیٹ میں جیت کی شرح میں تقریباً تین فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ اس عرصے کے دوران، ٹیم 2007 اور 2015 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچے میں کامیاب ہوئی اور کرکٹ کی دنیا میں ایک مضبوط ٹیم بن کر ابھری۔
2016 میں کوٹا سسٹم کے مکمل نفاذ کے بعد جنوبی افریقہ کا ٹیسٹ میچوں میں جیت کا تناسب کم ہو کر تقریباً 47 فیصد اور ون ڈے میں یہ شرح تقریباً 59 فیصد رہ گئی۔ اس عرصے کے دوران ٹیم کی ٹیسٹ رینکنگ میں بھی تنزلی دیکھنے میں آئی۔
تاہم، اس دوران ٹیم نے بہت سے نئے ٹیلنٹ کو پروان چڑھایا اور جنوبی افریقہ 2023 میں دوبارہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور اب ٹیمبا باووما نے تمام اعدادوشمار اور خدشات کو غلط ثابت کرتے ہوئے ٹیم کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن بنا دیا ہے۔
کیا ربادا، فلینڈر، آملہ، مہاراج بھی کوٹہ سسٹم سے آئے تھے؟
سیاہ فام افریقی کھلاڑی کگیسو ربادا، ورنن فلینڈر، ہاشم آملہ اور کیشو مہاراج (انڈین نژاد) جیسے کھلاڑی اس وقت ٹیم کا حصہ بنے جب جنوبی افریقہ میں ’ٹرانسفارمیشن ٹارگٹس‘ یعنی کوٹہ پالیسی نافذ تھی۔
تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کھلاڑیوں کو محض اس پالیسی کے تحت منتخب کیا گیا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ کوٹہ پالیسی کے تحت انھیں ایک پلیٹ فارم ملا لیکن ان کی صلاحیتوں، مستقل مزاجی اور کارکردگی کی وجہ سے انھوں نے ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھی۔
ربادا نے انڈر 19 ورلڈ کپ میں اپنی صلاحیتیں دکھائیں، فلینڈر نے اپنے ڈیبیو پر پانچ وکٹیں حاصل کیں، آملہ نے 9000 سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنائے اور کیشو مہاراج نے بیرون ملک بھی وکٹیں لیں۔
یہ اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا انتخاب صرف نمائندگی کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ان کی اہلیت کو بھی مدِ نظر رکھا گیا تھا۔
Getty Imagesربادا، ورنن فلینڈر، ہاشم آملہ اور کیشو مہاراج (انڈین نژاد) جیسے کھلاڑی اس وقت ٹیم کا حصہ بنے جب جنوبی افریقہ میں ’ٹرانسفارمیشن ٹارگٹس‘ یعنی کوٹہ پالیسی نافذ تھی
کوٹہ سسٹم پر بحث شاید کبھی ختم نا ہو۔ لیکن یہ ’نااہل افراد کو اوپر لانے‘ کی کوئی سازش نہیں بلکہ دہائیوں سے پسماندگی کا شکار طبقوں کو آگے بڑھنے دینے کا ایک موقع ہے۔
باووما، ربادا، این گیڈی اور وارن جیسے کھلاڑیوں نے ثابت کیا ہے کہ جب ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے تو رنگ و نسل کبھی بھی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
اس بحث کا نچوڑ شاید کرکٹ ساؤتھ افریقہ کے سابق سربراہ ہارون لورگاٹ کے اس بیان میں چھپا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا، ’کرکٹ صرف میدان میں تبدیلیاں لانے والا کھیل نہیں بلکہ یہ میدان کے باہر بھی تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے۔‘
تاریخ کا دھارا موڑنے والے اُس عالمی رہنما کی رہائی کی کہانی جنھیں ’دنیا کی نظروں سے چھپا کر‘ 27 سال قید رکھا گیا’سنچورین پارک میں جس معجزے کا پاکستان کو انتظار تھا۔۔۔‘’جنوبی افریقہ نے چوکر ٹیگ توڑ دیا اور افغانستان کا خواب بھی‘’دو دہائیوں کا انتظار بھی کیپ ٹاؤن سے مایوس پلٹ آیا‘سعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جو عمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھےسچن تندولکر نے جس دس سالہ لڑکی کو راتوں رات سٹار بنا دیا وہ انھیں جانتی تک نہیں