وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے متعارف کرایا گیا ’فیس لیس کسٹمز اسیسمنٹ سسٹم‘ بظاہر ایک جدید اور کرپشن فری نظام کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ مگر اب یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ آیا یہ نظام واقعی شفافیت اور تجارتی آسانی کے لیے ہے یا پھر اس کے نتیجے میں پاکستان کا ریونیو نظام اور کاروباری افراد مزید مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں؟سنہ 2024 کے اختتام پر ایف بی آر نے اعلان کیا تھا کہ ملک بھر کے کسٹمز کلیئرنس نظام کو ڈیجیٹل اور ’فیس لیس‘ بنا دیا جائے گا جس کا مقصد انسانی مداخلت کم کر کے شفاف، تیز اور مؤثر نظام قائم کرنا تھا۔ تاہم اب ایف بی آر ہی کی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ نے اس نظام سے متعلق جو معلومات فراہم کی ہیں اسے تشویش ناک قرار دیا جا رہا ہے۔’کلیئرنس میں تاخیر اور محصول میں کمی‘ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز رسک مینجمنٹ سسٹم کے تحت بننے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فیس لیس سسٹم کی وجہ سے کسٹمز کلیئرنس میں تاخیر، محصول کی وصولی میں گراوٹ اور تاجروں کی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’فزیکل ایگزامینیشن نہ ہونے کی صورت میں کلیئرنس کا اوسط وقت 25 گھنٹوں سے بڑھ کر 46 گھنٹے ہو چکا ہے، جبکہ جن اشیا کی جانچ پڑتال ہوتی ہے، وہاں یہ وقت 87 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔‘
’صرف یہی نہیں، نظرثانی کی درخواستوں کی شرح بھی چھ فیصد سے بڑھ کر 14 فیصد تک جا پہنچی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ صارفین سسٹم پر اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔‘مہنگائی اور تاخیر کی قیمت کون دے گا؟ماہرین کے مطابق جب کلیئرنس میں تاخیر ہوتی ہے تو تاجروں کو شپنگ کمپنیز کو ڈیمریج، ڈیٹینشن اور دیگر اخراجات کی مد میں بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی ہیں، جس کا بوجھ بالآخر عام صارفین پر منتقل ہوتا ہے۔ایک درآمد کنندہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’فیس لیس نظام میں ہمیں اپنی کنسائنمنٹس کی کلیئرنس کے لیے تین دن تک انتظار کرنا پڑا، جس سے ہمیں فی کنٹینر ہزاروں روپے اضافی خرچہ برداشت کرنا پڑا۔‘یہی اضافی لاگت مارکیٹ میں مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں سامنے آتی ہے، جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ریونیو کیوں کم ہوا؟رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2024 سے اپریل 2025 کے درمیان محصولات میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ جہاں دسمبر سے قبل اضافی ڈیوٹی کا اوسط 16 فیصد تھا، وہ بعدازاں 13 فیصد پر آ گیا اور ماہانہ ریونیو میں کبھی 20 فیصد کمی تو کبھی 74 فیصد اضافہ جیسی غیرمتوازن صورتحال دیکھنے میں آئی۔ماہرین کے مطابق کلیئرنس میں تاخیر کے سبب تاجروں کو شپنگ کمپنیز کو ڈیمریج، ڈیٹینشن اور دیگر اخراجات کی مد میں بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی ہیں۔ (فائل فوٹو: کراچی پورٹ ٹرسٹ)ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اتار چڑھاؤ سسٹم کی غیرمستحکم کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ خاص طور پر وہ شعبے جیسے کیمیکل اور ٹیکسٹائل، جہاں پہلے ماہرین کی ٹیمیں موجود تھیں، اب انہیں کلیئرنس میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ’ٹریڈر ہسٹری کو بلاک کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے رسک اسیسمنٹ غیر موثر ہو گئی ہے۔ نتیجتاً درآمدات کے فیصلے ٹھوس ڈیٹا کی بنیاد پر کرنے کے بجائے قیاس آرائیوں پر کیے جا رہے ہیں، جس سے کلیئرنس مزید تاخیر کا شکار ہو رہی ہے۔‘فیس لیس مگر ’مرکوز اختیارات‘؟رپورٹ میں ایک چونکا دینے والا انکشاف یہ بھی ہے کہ ’چیف کلکٹر اپریزمنٹ ساؤتھ نے تمام کلکٹرز اور ایڈیشنل کلکٹرز کے قانونی اختیارات معطل کر دیے ہیں جس سے تمام اختیارات محدود افراد تک مرتکز ہو گئے ہیں۔‘اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’انٹیلیجنس اینڈ انویسٹیگیشن کو معطل کر دیا گیا ہے اور نظرثانی کے عمل میں تاخیر کے لیے مخصوص افسران کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس عمل سے تاجر حضرات نظرثانی کے بجائے اضافی لاگت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔‘کراچی، لاہور اور سیالکوٹ کے کئی درآمد کنندگان اور کلیئرنگ ایجنٹس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیس لیس سے زیادہ بہتر تھا کہ ایک ذمہ دار افسر سے براہ راست بات ہو جائے۔’کم از کم کسی کے پاس جا کر مسئلہ بیان تو کر سکتے تھے۔ اب نہ سسٹم جواب دیتا ہے، نہ ہیلپ لائن۔ صرف میل پر میل، اور کوئی پیش رفت نہیں۔‘اقتصادی ماہرین اور تجارتی تنظیمیں اب ایف بی آر پر زور دے رہی ہیں کہ وہ اس سسٹم پر ازسر نو غور کرے۔ (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس نظام کی مزید توسیع فوری روکی جائے اور مخصوص ہائی رسک شعبوں جیسے گاڑیاں، ٹیکسٹائل اور کیمیکل کے لیے روایتی ماڈلز بحال کیے جائیں۔اقتصادی ماہرین اور تجارتی تنظیمیں اب ایف بی آر پر زور دے رہی ہیں کہ وہ اس سسٹم پر ازسر نو غور کرے اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات نافذ کرے۔