پاکستان کے شمالی علاقہ جات اپنے قدرتی حسن کے علاوہ وہاں کی منفرد روایات کی وجہ سے بھی مشہور ہیں، مگر ان میں سب سے الگ شادی کی ایک رسم ہے جو دلہن کی رخصتی کے بعد ادا کی جاتی ہے۔یہ رسم گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں آج بھی زندہ ہے اور اسے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہنزہ اور سکردو کے علاقوں میں اسے ’ڈونگمو‘ کہتے ہیں جبکہ ضلع غذر، یاسین اور اپر چترال کے کچھ مقامات میں یہ ’رسم شاپیک‘ کے نام سے مشہور ہے۔’رسم شاپیک‘ کیا ہے؟یہ رسم شادی کے موقع پر ادا کی جاتی ہے جس میں دلہا دلہن دونوں کو شریک ہونا پڑتا ہے۔ ’شاپیک‘ مقامی کھوار زبان میں روٹی کو کہتے ہیں کیونکہ اس رسم میں نئی نویلی دلہن کو سسرال میں آ کر اپنے ہاتھوں سے گول روٹی بنانی پڑتی ہے۔ روٹی بنانے کے دوران گھر کے افراد اور مہمان بھی موجود ہوتے ہیں۔
’رسم شاپیک‘ کے دوران دلہن روایتی لباس میں آٹا گوندھتی ہے پھر پیڑے بنا کر روٹی بیلتی ہے، اس کے بعد دلہے کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ دلہن روٹی بیلتی جاتی ہے جبکہ دلہا روٹی کو توے پر سیکتا ہے پھر روٹی پکنے کے بعد کمرے میں موجود تمام افراد کو کھلائی جاتی ہے۔
اس رسم کے حوالے سے گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے نامور شاعر اور مصنف شمس الحق نوازش نے اردو نیوز کو بتایا کہ شادی کی تقریب میں ولیمہ کے اختتام کے بعد دلہن ’ٹیکی نیزینن‘ کی رسم کے مطابق روٹی بناتی ہے، لفظ ٹیک سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بیٹھ کر روٹی پکائی جاتی ہے۔’روٹی اگر توے پر ٹوٹ گئی یا گول نہ بنی تو دستور کے مطابق دلہن بیلن سے دلہے کو مارے گی، اسی طرح اگر دلہا روٹی کو بغیر توڑے توے پر سیکتا ہے تو اسے غالب تصور کیا جاتا ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’روایات کے مطابق اگر دلہن کامیابی سے روٹی بنا لے تو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ دلہن گھر پر راج کرے گی تاہم اگر دلہا روٹی بنا لے تو اسے باکمال اور حاوی تصور کیا جاتا ہے۔‘شمس الحق نوازش کا کہنا تھا کہ یہ رسم غذر، یاسین، چند اور کھوار بولنے والے علاقوں میں آج بھی زندہ ہے، یہ قدیم رسم ہے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس دوران ’اشپیری‘ بھی کیا جاتا ہے جس میں دودھ سے بنی خوراک کو دلہا دلہن کو پیش کیا جاتا ہے، ان میں جو پہلے چکھنے کی کوشش کرے گا وہی غالب تصور کیا جاتا ہے۔‘شمس الحق نوازش کے مطابق ’اگر دلہا روٹی بنا لے تو اسے باکمال اور حاوی تصور کیا جاتا ہے۔‘ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)گلگت بلتستان کے بزرگ شہری نسیم ولی نے ’رسم شاپیک‘ کے بارے میں بتایا کہ اس قدیم روایت کو رسم تاؤ بھی کہا جاتا تھا۔ اس رسم میں ایک تو دلہن کے روٹی بنانے کے ہنر کو جانچا جاتا ہے یعنی دلہن کو روٹی بنانا آتی ہے یا نہی ، دوسرا اس رسم کا مقصد نئے رشتے میں محبت، اتفاق اور مضبوطی کو سمجھانا ہوتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’رسم کے دوران دلہا اور دلہن کو اہل خانہ جگتیں مار کر انہیں تنگ بھی کرتے ہیں تاکہ وہ پریشان ہوکر روٹی نہ بنا سکیں، خوش گپی کے ماحول میں یہ رسم نبھائی جاتی ہے جس سے سب محظوظ ہوتے ہیں۔‘’قدیم روایات نئی نسل کو یاد نہیں‘گلگت بلتستان کے علاوہ روٹی بنانے کی یہ روایت اپر چترال کے علاقوں لاسپور، مستوج اور یارخون میں بھی شادی کا حصہ ہوا کرتی تھی مگر وقت کے ساتھ اب یہ رسم ختم ہو چکی ہے۔اپر چترال کے صحافی سمیر اللہ شاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ آج سے 10 برس قبل شادی کی رسومات میں دلہن سے روٹیاں پکائی جاتی تھیں جس میں دلہا بھی اپنی صلاحتیوں کا مظاہرہ کرتا تھا۔ لیکن اب یہ رسم تقریباً دم توڑ چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ اب شادی کی تقریبات سادہ اور مختصر ہو چکی ہیں جس میں قدیم روایات اب نئے دور کے نوجوانوں کو یاد بھی نہیں۔روٹی بنانے کی روایت اپر چترال کے کئی علاقوں میں بھی شادی کا حصہ ہوا کرتی تھی مگر وقت کے ساتھ اب یہ رسم ختم ہو چکی ہے۔ (فائل فوٹو: سی پاکستان ٹورز)پہاڑی بیل پر سواری کی رسمگلگت بلتستان، ہنزہ اور اپر چترال بروغل وادی میں دلہا دلہن کو یاک پر بٹھا کر گھر لاتا ہے۔ دلہن کے گھر بارات کے لئی پہاڑی بیل پر سواری کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہنزہ میں دلہے کے ہاتھ میں تلوار تھما دی جاتی ہے جسے وہ رقص کے دوران لہراتا ہے۔وادی بروغل میں یاک پر بارات لے جانے کی رسم آج بھی زندہ ہے اور اس علاقے میں اکثر شادیاں موسم سرما میں برف باری کے بعد شروع ہوتی ہیں۔