ٹوٹے شیشے، گولیوں کے نشان اور 216 قیدیوں کا فرار: پیر اور منگل کی درمیانی شب کراچی کی ملیر جیل میں کیا ہوا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 03, 2025

BBC

کراچی کے ضلع ملیر میں واقع جیل کے مرکزی دروازے پر دن کے اوقات میں ہمیشہ ہی ایسے افراد کا ہجوم رہتا ہے جو جیل میں مقید اپنے اہلخانہ، رشتہ داروں اور دوست احباب سے ملاقات کرنے کے لیے یہاں موجود رہتے ہیں، لیکن منگل (تین جون) کی صبح یہاں ’ملاقاتیوں‘ کا ایک جمِ غفیر موجود تھا اور افراتفری کی سی صورتحال تھی۔

قیدیوں کے اہلخانہ منگل کی صبح یہ خبر سُن کر جیل کے مرکزی دروازے پر پہنچے تھے کہ مبینہ طور پر گذشتہ رات گئے آنے والے زلزلے کے جھٹکے کے بعد چند قیدی جیل توڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔

اپنے پیاروں کی خبر جاننے کے منتظر یہ افراد جیل کے مرکزی دروازے کے باہر ہیکبھی سڑک پر بیٹھ جاتے اور کبھی سکیورٹی اہلکاروں کے سامنے احتجاج کرنے لگتے اور اُن سے تصدیق چاہتے کہ کیا جیل میں موجود اُن کے رشتہ دار ٹھیک ٹھاک ہیں یا نہیں۔ تاہم دوسری جانب سکیورٹی اہلکار انھیں دروازے کے قریب آنے سے مسلسل روک رہے تھے۔

ایسے میں جیل کے گیٹ کے قریب موجود ایک نقاب پوش خاتون کی آواز کانوں میں پڑی جو الزام عائد کرتی ہیں کہ ’یہ زلزلے اس لیے آ رہے ہیں کیونکہ پولیس والے رشوت لیتے ہیں۔‘

BBCملیر جیل کے باہر منگل کی صبح بڑی تعداد میں قیدیوں کے اہلخانہ موجود تھے

ملیر جیل کے گیٹ پر یہ صورتحال دیکھ کر بی بی سی اُردو کی ٹیم آگے بڑھی اور جیل کی عمارت میں داخل ہو گئی۔ یاد رہے کہ یہ وہی مرکزی گیٹ ہے جس سے گذشتہ رات 216 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے جن میں سے 78قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔

گذشتہ روز کراچی میں وقفے وقفے سے تقریباً پانچ مرتبہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔ ان جھٹکوں کی شدت بہت زیادہ نہیں تھی لیکن متعلقہ حکام کے مطابق زیرِ زمین گہرائی کم ہونے کے سبب کراچی کے ضلع ملیر اور کورنگی کے علاقوں میں یہ جھٹکے کافی شدید محسوس ہوئے تھے۔

تاہم ان سے پورے شہر میں کوئی بھی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ نقصان ہوا تو ضلع ملیر میں واقع جیل میں جہاں سے دو سو سے زائد قیدی فرار ہو گئے۔

یاد رہے کہ ملیر جیل کو ’بچہ جیل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جیل حکام کے مطابق ملیر جیل میں تقریباً چھ ہزار سے زیادہ ملزمان و مجرمان قید ہیں جن میں انڈین اور افغان شہری بھی شامل ہیں۔

ملیر جیل میں گذشتہ رات کیا ہوا؟BBCقیدیوں کی جانب سے ملیر جیل کے مرکزی دروازے کا لاک توڑا گیا

منگل کو صبح جیل کے اندر نظر آنے والے مناظر گذشتہ رات کی کہانی سنا رہے تھے۔

یہ جیل ضلع ملیر میں نیشنل ہائی وے پر واقع ہے۔ اس کے مرکزی دروازے سے تقریباً پانچ منٹ پیدل چل کر ایک اندرونی دروازے تک پہنچا جاتا ہے جہاں سکیورٹی اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔

اس اندرونی دروازے پر گولیوں کے نشان واضح تھے۔ اس دروازے پر تعینات ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’جب قیدیوں نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں روکنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی تھی اور دروازے پر موجود نشانات اُن ہی گولیوں کے ہیں۔‘

اس دروازے سے اندر داخل ہونے پر جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے شیشے، چپلیں اور خون کے دھبے نظر آئے۔

اندر بھی کچھ ایسا ہی حال تھا جہاں قیدیوں کی ان کے اہلخانہ سے ملاقات کے لیے بنائے گئے کمرے میں لگے ٹیلی فون، کھڑکیاں اور فرنیچر ٹوٹا پڑا ہے۔ اسی مقام سے چند قدم کے فاصلے پر جیل سپرنٹینڈنٹ کے کمرے کی کھڑکیوں اور دروازے پر لگے شیشے بھی کرچی کرچی ہو چکے ہیں۔

BBC

اندرونی دروازے پر موجود پولیس اہلکار کے مطابق: ’اس دروازے پر سینکڑوں کی تعداد میں قیدی جمع ہو گئے تھے اور انھوں نے دھکے مار مار کر دروازے کا کُنڈا توڑ دیا۔‘

لیکن قیدیوں کے جیل سے فرار ہونے کا شہر میں آنے والے زلزلے سے کیا تعلق ہے؟ جیل سپرنٹینڈنٹ ارشد شاہ کہتے ہیں کہ ’کل پورے دن وقفے وقفے سے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے اور قیدی بھی ڈرے ہوئے تھے۔‘

’میں شام کو پانچ بجے قیدیوں کے پاس گیا اور اُن کو سمجھایا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے اور سب لوگ دعائیں مانگیں اور کلمہ پڑھیں۔‘

ارشد شاہ کے مطابق ’رات کے تقریباً گیارہ بجے ایک مرتبہ پھر زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو قیدیوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ میں اپنے سٹاف کے ساتھ ایک مرتبہ پھر انھیں سمجھانے گیا لیکن اس وقت مرکزی میدان میں جمع ہونے والے قیدیوں کی تعداد ایک، ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کر گئی تھی اور وہ سب خوف و ہراس کا شکار تھے۔‘

ارشد کے مطابق اسی دوران چند قیدیوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور افراتفری کا ماحول بن گیا۔ ’اس دھکم پیل میں میں زمین پر گر گیا، میرے سٹاف نے مجھے اٹھایا ورنہ بھاگنے والے قیدی مجھ پر ہی چڑھ دوڑتے۔‘

BBC

جیل میں موجود ایک اور اہلکار کے مطابق جب قیدی آگے بڑھنے لگے اور افراتفری ہوئی تو اسی دوران واچ ٹاور سے ہوائی فائرنگ کی گئی تاکہ قیدی واپس ہو جائیں مگر ہوائی فائرنگ سے وجہ سے مزید بھگدڑ مچ گئی۔

جیل حکام تصدیق کرتے ہیں کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب ہونے والی افراتفری اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک قیدی ہلاک جبکہ دو پولیس اہلکار اور دو ایف سی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

گذشتہ رات جیل میں موجود ایک اہلکار کے مطابق پہلے قیدیوں نے وہ دروازہ توڑا جو اس مقام کے قریب واقع تھا جہاں قیدیوں اور ان کے اہلخانہ کی ملاقاتیں کروائی جاتی ہیں۔ ان کے مطابق وہاں توڑ پھوڑ کے بعد کچھ قیدی رُک گئے مگر باقی آگے بڑھتے ہوئے مرکزی گیٹ تک جا پہنچے۔

اہلکار کے مطابق وہاں بھی یہی صورتحال پیش آئی، ہوائی فائرنگ ہوئی مگر قیدی اہلکاروں پر قابو پاتے ہوئے جیل کا مرکزی گیٹ بھی عبور کر گئے۔

جیل سپرنٹینڈنٹ ارشد شاہ کے مطابق پولیس اور رینجرز اس وقت فرار ہونے والے قیدیوں کے معلوم پتے پر جا کر چھاپے مار رہے ہیں تاکہ انھیں دوبارہ گرفتار کیا جا سکے جبکہ چند قیدیوں کو پہلے ہی دوبارہ گرفتار کیا جا چکا ہے۔

BBCکیا قیدی جیل حکام کی غفلت کے سبب فرار ہوئے؟

گذشتہ رات سندھ کے صوبائی وزیرِ داخلہ ضیا الحسن لنجار نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ اس واقعے کی انکوائری کروائی جائے گی کیونکہ یہ واقعہ ’کوتاہی کے سبب‘ بھی پیش آ سکتا ہے لیکن اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

تاہم جب جیل سپرنٹینڈنٹ ارشد شاہ سے غفلت برتنے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے ایسی اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جیل کے عملے کی طرف سے کوئی غفلت نہیں برتی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ رات جو کچھ بھی ہوا وہ ایک 'ناگہانی آفت' کے سبب ہوا۔

جیل انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ملیر جیل میں گنجائش سے زیادہ افراد قید ہیں جبکہ جیل کے عملے کی تعداد بھی قیدیوں کے لیے ناکافی ہے۔

جیل سپرنٹینڈنٹ نے بی بی سی اُردو کو تصدیق کی کہ پیر اور منگل کی درمیان شب جیل میں محض 28 سیکورٹی اہلکار موجود تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ 211 افراد پر مشتمل جیل کا سکیورٹی عملہ تین شفٹوں میں کام کرتا ہے۔

سندھ کے سینیئر صوبائی وزیر اور وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے قیدیوں کے فرار کے واقعے کے بعد حکومت سندھ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل خانہ جات قاضی نذیر احمدکو عہدے سے ہٹا دیا ہے جبکہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جیل حسن سہتو، جیل سپرنٹنڈنٹ ارشد حسین سمیت دیگر افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ ملیر جیل میں پیش آنے والے قیدیوں کے فرار کے واقعے کی تحقیقات کے لیے دو رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، کمشنر کراچی حسن نقوی اور ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو واقعے کی تحقیقات کر کے رپورٹ سندھ حکومت کو پیش کریں گے

کراچی میں زلزلے کتنے غیرمعمولی ہیں؟

دوسری جانب پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے چیف میٹرولوجسٹ عامر حیدر لغاری کا کہنا ہے کہ کراچی میں بار بار زلزلے کے جھٹکے آنا کوئی پریشانی کی بات نہیں۔

میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’لانڈھی کی تاریخی فالٹ لائن ہے۔ یہ ایکٹو ہو گئی ہے اس لیے زلزلے محسوس ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے وضاحت کی کہ ’جب کوئی فالٹ لائن ایکٹو ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ انرجی ریلیز کرتی ہے۔ انرجی کم ہونے کی صورت میں آہستہ آہستہ یہ جھٹکے کم شدت کے ہو جاتے ہیں اور بلآخر تھم جاتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’یہی وجہ ہے کہ اتوار کی رات سے ہلکے زلزلے آ رہے ہیں۔ یہ کوئی بڑا ایونٹ نہیں تھا۔ کم شدت کے زلزلے ایک سے دو دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‘

چیف میٹرولو جسٹ عامر حیدر لغاری نے بتایا کہ ’ضروری نہیں کہ زلزلے کا مقام فالٹ لائن کے اوپر ہو، ایکٹو فالٹ لائن کہیں سے بھی اپنی انرجی ریلز کر سکتی ہے۔ کراچی میں آنے والے یہ زلزلے لانڈھی کے نیچے موجود فالٹ لائن کی وجہ سے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ کراچی میں تاریخی طور پر کبھی کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا اور یہ کہ ’سومیانی کے پاس تین پلیٹوں کا جنکشن ہے لیکن وہ زیادہ خطرناک نہیں۔‘

اتوار اور پیر کو کراچی کے باسیوں کو چونکا دینے والےمتعدد زلزلے: ’فالٹ لائن ایکٹو ہے لیکن پریشانی کی بات نہیں‘قیدیوں کا دیوار میں نصب ٹوائلٹ اکھاڑ کر جیل سے فرار اور پولیس پر طنز: ’یہ تو بہت آسان تھا‘چمچہ، موسیقی اور نقلی سر: جزیرے پر واقع امریکی جیل سے ’ناقابل فہم‘ فرار جو 62 سال بعد بھی ایک معمہ ہےانڈین جیل سے راتوں رات سینکڑوں قیدی رہا کروانے کا سنسنی خیز واقعہ جس کے کئی گھنٹوں بعد حکومتی رٹ بحال ہوئی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More