Getty Images
کراچی میں اتوار کی رات اور پیر کے روز وقفے وقفے سے متعدد بار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے گئے جس نے شہر کے باسیوں کو بار بار گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا اور اکثر نے گھبراہٹ میں یہ سوال پوچھا کہ کیا یہ کسی بڑے زلزلہ کا عندیہ تو نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ کراچی میں پہلے کبھی زلزلہ نہیں آیا لیکن اتنے کم دورانیے میں بار بار آنے والے زلزلے نے کراچی والوں کو پریشان کر دیا۔
اگرچہ ان زلزلوں کی شدت بہت زیادہ نہیں تھی لیکن ایک تو کراچی کافی گنجان آباد علاقہ ہے اور بڑے زلزلے کی صورت میں یہاں نقصان کا خدشہ بھی زیادہ ہو سکتا ہے اور دوسرا یہ ساحلی شہر ہے اس لیے سونامی کے خطرے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہ وہ خدشات ہیں جو کراچی والوں کو پریشان کر رہے ہیں لیکن کیا کراچی میں آنے والے یہ زلزلے واقعی پریشانی کی بات ہیں؟
پہلے یہ جانتے ہیں کہ یہ زلزلے کتنے تسلسل سے آئے اور ان کی شدت کیا تھی۔
زلزلے کہاں کہاں اور کتنی شدت سے آئے
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یکم جون سے دو جون کی رات تک کراچی میںکم از کم پانچ بار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے گئے تاہم بعض جگہ ان کی تعداد 11 بتائی جا رہی ہے۔ ریکارڈ شدہ زلزوں میں:
پہلا زلزلہ: یکم جون کو 12 بج کر 32 منٹ پر آیا اور قائد آباد کراچی کے مقام پر محسوس کیا گیا۔ اس کی شدت 3.6 تھی۔
دوسرا زلزلہ: یکم جون کی ہی رات 8 بج کر پانچ منٹ پر گڈاپ ٹاؤن، کراچی میں آیا جس کی شدت 3.2 ریکارڈ کی گئی۔
تیسرا زلزلہ: دو جون صبح 6 بج کر 4 منٹ پر قائد آباد کراچی کے مقام پر محسوس کیا گیا جس کی شدت 3.2 ریکارڈ کی گئی۔
چوتھا زلزلہ: دو جون دوپہر تین بج کر 49 منٹ پر ڈی ایچ اے کراچی سے 30 کلومیٹر مشرق کی طرف محسوس کیا گیا۔ اس کی شدت ریکٹر سکیل پر 3.0 ریکارڈ کی گئی۔
پانچواں زلزلہ: دو جون رات 11 بج کر 16 منٹ پر ملیر کراچی میں آیا۔ جس کی شدت 2.4 ریکارڈ کی گئی۔
Getty Imagesاگرچہ ان زلزلوں کی شدت بہت زیادہ نہیں تھی لیکن کراچی کافی گنجان آباد علاقہ ہے اور بڑے زلزلے کی صورت میں یہاں نقصان کا خدشہ بھی زیادہ ہو سکتا ہے’فالٹ لائن ایکٹو ہے لیکن پریشانی کی بات نہیں‘
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے چیف میٹرولوجسٹ عامر حیدر لغاری کے مطابق کراچی میں بار بار زلزلے کے جھٹکے آنا کوئی پریشانی کی بات نہیں اور ایک دو دن میں یہ صورتحال ٹھیک ہو جائے گی۔
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’لانڈھی کی تاریخی فالٹ لائن ہے۔ یہ ایکٹو ہو گئی ہے اس لیے زلزلے محسوس ہو رہے ہیں۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ ’جب کوئی فالٹ لائن ایکٹو ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ انرجی ریلیز کرتی ہے۔ انرجی کم ہونے کی صورت میں آہستہ آہستہ یہ جھٹکے کم شدت کے ہو جاتے ہیں اور رک جاتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’یہی وجہ ہے کہ اتوار کی رات سے ہلکے زلزلے آ رہے ہیں۔ یہ کوئی بڑا ایونٹ نہیں تھا۔ کم شدت کے زلزلے ایک سے دو دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‘
چیف میٹرولو جسٹ عامر حیدر لغاری نے بتایا کہ ’ضروری نہیں کہ زلزلے کا مقام فالٹ لائن کے اوپر ہو، ایکٹو فالٹ لائن کہیں سے بھی اپنی انرجی ریلز کر سکتی ہے۔ کراچی میں آنے والے یہ زلزلے لانڈھی کے نیچے موجود فالٹ لائن کی وجہ سے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ کراچی میں تاریخی طور پر کبھی کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا اور یہ کہ ’سومیانی کے پاس تین پلیٹوں کا جنکشن ہے لیکن وہ زیادہ خطرناک نہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ اگر پاکستانی کے جنوبی علاقوں میں کہیں بڑے زلزلے کا امکان ہوا بھی تو وہ کراچی نہیں ہو گا۔
’بلوچستان میں سمندر میں عریبین اور یوریشین پلیٹ کی سرحد ہے وہ خطرناک ہے۔ جہاں زلزلہ سونامی بن سکتا ہے۔ لیکن کراچی والی ٹیکٹانک پلیٹس خطرناک نہیں۔‘
چیف میٹرولوجسٹ عامر حیدر لغاری کا کہنا تھا کہ ’اس زلزلے کا مرکز سطح زمین سے کم گہرائی پر تھا تاہم اس شدت کے زلزلے میں جانی نقصان نہیں ہوتا اور نہ ہی عمارتیں گرتی ہیں۔‘
’ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو تاہم احتیاط ضروری ہے۔‘
ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی تین پلیٹس (انڈین، یوروشیا اورعریبین) کی باؤنڈری پر واقع ہے اور اس کی ساخت نہ صرف زلزلوں سے نسبتاً محفوظ ہے بلکہ یہ سمندری طوفان کے لیے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔
پاکستان میں زلزلہ: کیا زلزلوں کی پیشگوئی کرنا ممکن ہے؟زلزلے کی پیش گوئیاں غلط کیوں نکلتی ہیں؟آپ کا فون زلزلے کی پیش گوئی کیسے کر سکتا ہے؟عبداللہ شاہ غازی کی کرامات یا سائنسی وجوہات: کراچی ہر بار سمندری طوفان سے کیسے بچ نکلتا ہے؟’کیا کراچی انتظامیہ اسے سنجیدگی سے لے رہی ہے‘
اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے یہ چھوٹے زلزلے دراصل فالٹ لائن سے انرجی ریلز ہونے کی وجہ سے ہیں تاہم بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ کراچی کی تعمیرات خود نقصان کی وجہ بن سکتی ہیں۔
کراچی میں جہاں جہاں زلزے آئے وہ زیادہ تر فیکٹری ایریاز ہیں جہاں بڑی تعداد میں لوگ کام کرتے ہیں۔
زلزلے محسوس ہونے پر لوگوں کو فیکٹریوں سے باہر نکالا گیا اور سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں لوگوں کو محفوظ مقامات کی جانب جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
کراچی میں رہنے والے بیشتر لوگوں نے سوشل میڈیا پر زلزلے کی خبر شیئر کرنے کے ساتھ لکھا کہ وہ حیران ہیں کہ انھوں نے کبھی اس سے پہلے کراچی میں زلزلہ محسوس نہیں کیا۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں کوئی زلزلہ محسوس نہیں ہوا اور اس کی وجہ یقیناً یہ رہی ہوں گی کہ یہ زلزلے مختلف علاقوں میں ایک مخصوص حد کے اندر محسوس کیے گئے تاہم ان کے مقامات الگ الگ تھے۔
کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر کراچی میں رہنے والے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے فکر مندی ظاہر کی اور ان کی خیریت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
اگرچہ اب تک صرف پانچ مصدقہ زلزلوں کی اطلاع ہے تاہم سوشل میڈیا پر لوگ ان جھٹکوں کی تعداد 10 سے زائد بھی بتا رہے ہیں۔
نمرہ نامیصارف نے لکھا کہ ’امید ہے کراچی کے لوگ محفوظ ہوں گے۔ 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں 8 زلزلے۔‘
حفیظ بلوچ نامی صارف نے لکھا ’صرف 24 گھنٹے میں قائد آباد اور ملیر کے قریب 3.2شدت کے دو زلزلے۔ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن زلزلے کے جھٹکے انتباہ کی علامت ہیں۔ کراچی کے کنکریٹ کے جنگل کے نیچے کیا غلط ہو رہا ہے؟‘
وقاصنامی صارف نے لکھا ’کیا یہ وارننگ سائن ہے؟ کیا مقامی انتظامیہ کے ادارے اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟‘
ایسے ہی خیالات کا اظہبار راجہ عثمان خان نے بھی کیا جنھوں نے حکومتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی تین پلیٹوں پر واقع ہے لیکن یہاں کوئی حفاظتی اقدامت نہیں، کوئی تربیت نہیں۔‘
انھوں نے مشورہ دیا کہ اونچی عمارتوں میں نہ رہیں۔ زیادہ سے زیادہ دوسری منزل تک رہائش رکھیں۔ عمارتوں کے درمیاں لازمی کھلی جگیں ہونی چاہیں۔
Getty Imagesکراچی ساحلی شہر ہے اس لیے سونامی کے خطرے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتازلزلہ آئے تو خود کو کیسے محفوظ رکھیں؟
اگر محسوس ہو کہ زلزلے کی شدت زیادہ ہے تو فوری طور پر خود کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
ماہرین بناتے ہیں کہ لوگوں کو ڈراپ، کور، اور ہولڈ آن کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔
زلزلے کے وقت گنجان آباد علاقوں اور فلیٹوں سے باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے زلزلہ محسوس ہو اور آپ کسی عمارت کے اندر ہیں جہاں سے فوری باہر نکلنا ممکن نہیں تو اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں، میز جیسی کسی مضبوط چیز کے نیچے پناہ لیں اور ایک منٹ تک اسے تھام کر وہاں رکے رہیں۔
عمارت میں نسبتاً محفوظ سمجھی جانے والی جگہیں دروازے کی چوکھٹ یا سیڑھوں کے نسبتاً محفوظ حصے میں چلے جائیں۔
زلزلے کے دوران اونچی عمارت کے باہر آنے کے لیے لفٹ کا استعمال ہر گز نہ کریں۔
ممکن ہو تو فوراً عمارت سے نکل کر کھلی جگہ پر جائیں تاکہ کوئی ملبہ آپ پر نہ گرے۔
جو لوگ باہر موجود ہوتے ہیں، انھیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ عمارتوں، درختوں اور بجلی کی لائنوں سے دور کسی کھلی جگہ پر چلے جائیں۔
سمندر کے قریب یا ساحل کے نزدیک رہنے والوں کو زلزلے کے رکنے کے بعد سونامی کی وراننگ کی صورت میں فوراً اونچی جگہوں پر جانا چاہیے۔
کوشش کریں کہ زلزلے سے متاثرہ علاقے میں عمارتوں میں بجلی اور گیس کی سپلائی بند کر دیں تاکہ کسی اور حادثے سے بچا جا سکے۔
اگر آپ کسی ایسی عمارت میں ہیں جسے نقصان پہنچا ہے یا وہ پہلے سے کافی کمزور ہے تو فورا وہاں سے باہر نکلیں۔ اور متاثرہ عمارت میں دوبارہ مت جائیں۔
زلزلہ رک جانے کی صورت میں اپنے خاندان اور دوستوں کو مطلع کریں کہ آپ خیریت سے ہیں۔
BBCپاکستان کا دو تہائی حصہ کیوں زلزلے کے خطرے کا شکار؟
سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ فالٹ لائن پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کا دو تہائی علاقہ ممکنہ طور پر زلزلے کے خطرے میں رہتا ہے۔
جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا بڑا حصہ انڈین پلیٹ پر واقع ہے جبکہ یہاں سے یوریشین (یورپ اور ایشیا) اور عرب پلیٹیں بھی گزرتی ہیں۔
فالٹ لائن کا مطلب زیرِ زمین پلیٹوں کا ٹوٹ کر مختلف حصوں میں تقسیم ہو جانا ہے جو زمین کے نیچے حرکت کرتے رہتے ہیں اور یہ حصے دباؤ جمع کرتے رہے ہیں۔
پھر ایک ایسا موقع آتا ہے جہاں پر ان کو کسی مقام پر اپنا دباؤ نکالنے کا موقع ملتا ہے تو پھر اس مقام پر زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ کبھی زیادہ شدت کے ہوتے ہیں اور کبھی کم۔
پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ یوریشین پلیٹ کے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کا عمل لاکھوں سال سے جاری رہا ہے۔
ہمالیہ کا وجود بھی لاکھوں سال پہلے زیرِ زمین پلیٹوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہوا تھا۔ اب بھی ہمالیہ متحرک ہے اور یہ ہر سال ایک سینٹی میٹر بڑھ رہا ہے۔
کون سے علاقے زیادہ خطرے کا شکار ہیں؟
جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے ملک کو زلزلوں کے حوالے سے چار زونز میں تقسیم کر رکھا ہے۔
زون ون میں زلزلے کے امکانات کم سمجھے جاتے ہیں۔ زون ٹو میں زلزلے کے کچھ امکانات سمجھے جاتے ہیں اور ان میں پنجاب کے میدانی علاقے اور وسطی سندھ شامل ہیں۔
زون تھری میں زلزلے کے کافی زیادہ امکانات سمجھتے جاتے ہیں۔ ان میں کراچی، بلوچستان، سکردو، سوات، پشاور، میدانی ہمالیہ کے علاقے آتے ہیں۔
جبکہ زون فور کے اندر انتہائی خطرے کا شکار علاقوں میں پوٹھوہار، کشمیر، ہزارہ، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ اور ہمالیہ کے پہاڑی علاقے آتے ہیں۔
پاکستان میں زلزلہ: کیا زلزلوں کی پیشگوئی کرنا ممکن ہے؟زلزلے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کتنے وقت تک زندہ رہ سکتے ہیں؟آپ کا فون زلزلے کی پیش گوئی کیسے کر سکتا ہے؟9.1 شدت کا زلزلہ اور تباہ کُن سمندری لہریں: 20 سال قبل آنے والی قدرتی آفت جس کا شکار بننے والے بہت سے لوگ آج بھی لاپتہ ہیںزلزلے کی پیش گوئیاں غلط کیوں نکلتی ہیں؟