ہراسمنٹ کے خلاف ’زیرو ٹالرنس‘، خیبر پختونخوا کی جامعات سے دو افسر برطرف

اردو نیوز  |  May 30, 2025

خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں تیزی آگئی ہے اس سلسلے میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران دو اہم کیسز کو نمٹا کر دو افسران کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے۔

سب سے پہلا کیس اسلامیہ کالج یونیورسٹی کا تھا جس میں اسسٹنٹ پروفیسر کے خلاف ہراسانی کا الزام رپورٹ کیا گیا تھا۔ کیس کی انکوائری کے لیے کمیٹی قائم کی گئی جس میں فیکلٹی کے خلاف الزام ثابت ہوا۔

وائس چانسلر نے انکوائری کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں 17 مئی کو فوری طور پر اسسٹنٹ پروفیسر کو ملازمت سے برطرف کرنے کا حکم دیا جبکہ اس فیصلے کی باقاعدہ یونیورسٹی سینڈیکیٹ سے منظوری بھی لی گئی۔

ہراسانی سے متعلق دوسرا کیس خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کا سامنے آیا جس کا فیصلہ 28 مئی کو سنایا گیا۔ اس فیصلے کے تحت 18 ویں گریڈ کے افسرکو نوکری سے فارغ کرکے گھر بھیج دیا گیا۔

کیس میں ملوث طالب علم کو بھی یونیورسٹی سے نکال کر اس پر آئندہ کسی بھی پروگرام کے لیے جامعات کے دروازے بند کر دیے گئے۔

خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان کےمطابق 18 مئی کو امتحانی ہال میں ہراسانی کا واقعہ رپورٹ ہوا جس کی 23 مئی تک انکوائری کمیٹی نے مکمل شفاف تحقیقات کیں اور کیس پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔

 خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم مینہ خان آفریدی نے ہراسانی کیسز فوری نمٹانے پر دونوں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جارہی ہے۔

صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ ’تعلیمی اداروں میں ہراسانی کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے اگر کوئی اس میں ملوث پایا گیا تو اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔‘

مینہ خان آفریدی نے مزید کہا کہ ’تمام وائس چانسلرز جامعات کے وقار اور محفوظ تعلیمی ماحول کو یقینی بنائیں تاکہ والدین بلا خوف اپنی اولاد کو تعلیم حاصل کرنے بھجوائیں۔‘

انہوں نے تمام جامعات کو ہراسمنٹ سے متعلق شکایات کو فوری طور پر نمٹانے کی ہدایت بھی کر دی ہے۔

مینہ خان آفریدی کا کہنا ہے کہ ’تعلیمی اداروں میں ہراسانی کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)محکمۂ ہائر ایجوکیشن حکام کا کہنا ہے کہ ہر یونیورسٹی کے اندر الگ کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں ہراسگی سے متعلق کیسز کی انکوائری ہوتی ہے۔

متعلقہ حکام نے بتایا کہ اس وقت 200 سے زائد شکایات پر انکوائری ہورہی ہے تاہم کچھ کیسز میں الزام ثابت نہ ہونے پر شکایت کو خارج کردیا گیا ہے۔

ہراسانی کے کیسز پر کام کرنے والی پشاور ہائیکورٹ کی ایڈووکیٹ نتاشہ ثمن نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’جامعات میں کچھ اساتذہ ہراسمنٹ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں یعنی ان کے مطالبات مان لیے جائیں تو وہ اچھے نمبر یا پوزیشن دلوادیتے ہیں۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اسی طرح کچھ ایسے سٹوڈنٹس بھی ہوتے ہیں جو اساتذہ کی ہر بات ماننے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے فیکلٹی ممبر دیگر سٹوڈنٹس کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘

ایڈووکیٹ نتاشہ ثمن کے مطابق تعلیمی اداروں کے اساتذہ اپنے مفاد کے لیے مختلف طریقوں سے معصوم طالبات کو تنگ کرتے ہیں اور اکثر مجبوری کا فائدہ اُٹھانے کے لئے ہراسمنٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہراسمنٹ کو غلط مقصد کے لیے استعمال کرنے والے سٹوڈنٹس کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔

کیا برطرف ملازمین عدالت میں اپیل کرسکتے ہیں؟پشاور ہائی کورٹ کے وکیل شیر حیدر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی سے سال 2018 میں پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس ترمیمی ایکٹ منظور ہوا تھا۔

اس ایکٹ کے تحت تمام اداروں کو ہراسانی سے متعلق شکایت سننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا پابند بنایا گیا ہے جس میں اس ادارے کے پانچ یا چھ ممبران کمیٹی کا حصہ ہوتے ہیں جس میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد ڈییارٹمنٹل انکوائری کرکے اس شخص کو نوکری سے فارغ کیا جاتا ہے مگر ان فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ یا سروس ٹریبونل کو رجوع کیا جاتا ہے۔

شیر حیدر ایڈووکیٹ کے مطابق بہت کم کیسز میں عدالتوں سے ہراسمنٹ کمیٹی کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا ہے تاہم بیشتر کیسز میں ملازمت سے بحالی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انکوائری میں ناقص تفتیش کی وجہ سے کیس کو آسانی سے چیلنج کیا جاتا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More