’خاندانی منصوبہ بندی غیراسلامی نہیں‘، بلوچستان میں علماء عوام کو آگاہی دینے کے لیے میدان میں

اردو نیوز  |  May 30, 2025

بلوچستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پہلے ہی سے وسائل کی کمی کے شکار صوبے کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ پانی کی قلت، روزگار کی کمی،  تعلیم اور صحت کی ناکافی سہولیات اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح جیسے عوامل کے پیش نظر بلوچستان حکومت نے خاندانی منصوبہ بندی کی نئی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔

محکمہ بہبود آبادی بلوچستان نے صوبے کے تمام اضلاع میں علماء کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ خاندانی منصوبہ بندی جیسے حساس موضوع پر معاشرتی قبولیت حاصل کی جا سکے۔

محکمہ بہبود آبادی بلوچستان کے مطابق صوبے کے 31 اضلاع میں 150 علماء کو ’معاونین خاندانی منصوبہ بندی‘ کے طور پر بھرتی کیا گیا ہے جنہیں اعزازیہ بھی دیا جا رہا ہے۔

سیکریٹری بہبود آبادی بلوچستان عبداللہ خان نے اردونیوز کو بتایا کہ ان علماء کو ایسے اسلامی لٹریچر اور معتبر دینی اداروں کے فتاویٰ فراہم کیے گئے ہیں جو تولیدی صحت، والدین کی ذمہ داریاں، بچوں کے حقوق اور وسائل کے مطابق خاندانی نظام پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان فتاویٰ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بچوں کے درمیان وقفہ اور ماں کی صحت کا خیال رکھنا اسلام کے عین مطابق ہے۔

عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے رہنمائی لیتے ہوئے حکومت بلوچستان نے خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کے لیے اسلامی اصولِ توازن کو بنیاد بنایا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد ماں اور بچے کی صحت، خاندانی خوشحالی اور وسائل و آبادی کے درمیان توازن کو فروغ دینا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات میں بھی اعتدال اور فلاح انسانیت کو بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے مقرر کیے گئے معاونین مساجد، مدارس، جمعہ کے خطبات، سماجی اجتماعات اور نشستوں میں متوازن خاندان، ماں اور بچے کی صحت  جیسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں اوردینی دلائل کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

کوئٹہ کے حافظ مولوی محمد شعیب  گزشتہ 14 سال سے مختلف مساجد میں امام اور مدارس میں معلم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، اب اس مہم میں حکومت کے معاون کےطور پر کام کر رہے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہر انسان کا حق ہے کہ اسے صحت مند زندگی، بہتر تعلیم اور کفالت میسر ہو۔ بچوں کی تعداد وسائل کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ والدین ان کی صحیح تربیت اور پرورش کر سکیں۔‘

حافظ محمد شعیب کا کہنا ہے کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسانی جان کی حفاظت اور فلاح مقدم ہے۔ مسلسل حمل اور وسائل کی کمی نہ صرف ماں کی صحت کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ بچوں کی زندگی اور نشو و نما پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اعتدال اپنانے کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔

سیکریٹری بہبود آبادی عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی بعض لوگ خاندانی منصوبہ بندی کو غیراسلامی  تصور کرتے ہیں۔ یہ غلط فہمی کو دور کرنے میں علماء بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

صوبے کے 31 اضلاع میں 150 علماء کو ’معاونین خاندانی منصوبہ بندی‘ کے طور پر بھرتی کیا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پیان کے بقول ’ہر ضلع میں مذہبی رہنماؤں اور علماء کو متحرک کیا جا رہا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کو شامل کر کے خاندانی منصوبہ بندی کے تصور کو معاشرتی قبولیت مل رہی ہے۔ اس مہم کے مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں۔‘

بلوچستان کی آبادی 1951 میں صرف 12 لاکھ تھی جس میں گزشتہ ستر سالوں کے دوران دس گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق صوبے کی آبادی ایک کروڑ 48 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

صوبے میں آبادی کی سالانہ شرحِ نمو 3.2 فیصد ہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق اگر یہی رفتار برقرار رہی تو 2045 تک صوبے کی آبادی دگنی ہو جائے گی۔

عبداللہ خان کہتے ہیں کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب خوراک، تعلیم و صحت کی سہولیات، ملازمتوں اور انفراسٹرکچرکی  مسلسل بڑھتی ہوئی ضروریات  اور حکومت پر اتنی ہی تیز رفتاری سے یہ خدمات فراہم کرنے کے لیے دباؤ بڑھنا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ پاپولیشن فنڈ  (یو این ایف پی اے) کے مطابق  آبادی میں اضافے کی شرح دو فیصد سے زائد رہی تو 2040 تک بلوچستان میں  تک 65 لاکھ نئی ملازمتوں، 10 لاکھ گھروں اور 7200 پرائمری اسکولوں کی ضرورت ہو گی۔

ماہرین کے مطابق بڑھتی آبادی کا براہ راست اثر صحت کے نظام پر پڑ رہا ہے۔ تولیدی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے  بلوچستان میں ہر ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 298 مائیں ہلاک ہوتی ہیں جبکہ ایک ہزار میں سے 66 بچے ایک سال کی عمر کو نہیں پہنچ پاتے۔ یہ اعداد و شمار قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے بچوں کی اکثریت غذائی قلت، جسمانی کمزوری، لاغر پن اور قد کی کمی کا شکار ہے۔

بلوچستان کی کی 71 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 5 سے 16 سال کی عمر کے 58 فیصد بچے یعنی تقریباً 30 لاکھ سکولوں سے باہر ہیں۔ شرح تعلیم محض 42 فیصد ہے۔

صوبے میں مانع حمل ادویات کے استعمال کی شرح صرف 20 فیصد ہے۔ فائل فوٹو: اے پیعبداللہ خان کہتے ہیں کہ  ایسے میں بڑھتی ہوئی آبادی صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ کئی بحرانوں کو جنم دے رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ صوبے کا وسیع رقبہ اور قدرتی وسائل بظاہر وافر نظر آتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں 70 فیصد سے زائد علاقوں میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر خطرناک حد تک ختم ہو چکے ہیں  ایسے میں آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ’ہمیں شرح نمو کو 3.2 فیصد سے گھٹا کر 2 فیصد سے کم کرنا ہوگا تاکہ ہم پائیدار ترقی کی راہ پر قائم رہ سکیں۔‘

صوبے میں مانع حمل ادویات کے استعمال کی شرح صرف 20 فیصد ہے جو ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت بہت کم ہے۔ اگر یہ شرح 51 فیصد تک بڑھائی جائے تو یو این ایف پی اے کے مطابق  اگر اس شرح میں اضافہ ہو تو ہزاروں بچوں اور ماؤں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (2017-18) کے مطابق بلوچستان میں تولیدی خدمات تک رسائی محدود ہے اور بہت کم خواتین صحت سے متعلق فیصلوں میں شریک ہو پاتی ہیں۔ غیرارادی حمل، زچگی کے دوران اموات  اور بچوں کی ناقص غذائیت ان چیلنجز کو اور گمبھیر بناتے ہیں۔

صوبائی سیکریٹری بہبود آبادی کا کہنا ہے کہ ’اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں سمجھیں۔ توازن قائم کریں۔ ماں کی جان بچانا، بچے کی صحت محفوظ بنانا اور خاندان کو فلاح کی راہ پر گامزن کرنا صرف حکومتی پالیسی نہیں بلکہ دینی فریضہ ہے۔‘

عبداللہ خان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وسائل کی تقسیم کا قومی فارمولا (این ایف سی) صرف آبادی کی بنیاد پر نہیں  ہونا چاہیے بلکہ صحت، تعلیم، غربت کے علاوہ اس میں ایک اور اہم اشاریہ ’ڈیموگرافک پرفارمنس‘ بھی شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ان صوبوں کو انعام دیا جا سکے جنہوں نے آبادی پر مؤثر کنٹرول حاصل کیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More