Getty Images
مصنف سلمان رشدی نے کہا ہے کہ انھیں خوشی ہے کہ سنہ 2022میں ان پر چاقو سے حملہ کر کے انھیں قتل کرنے کی کوشش کرنے والے شخص کو زیادہ سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ستائیس سالہ ہادی ماتر کوسنہ 2022 میں نیویارک میں ایک لیکچر کے دوران سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں رواں ماہ 25سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
مصنف سلمان رشدی نے بی بی سی ریڈیو فور کے ٹوڈے پروگرام میں کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ انھیں زیادہ سے سزا ملی اور مجھے امید ہے کہ وہ اسے اپنے اعمال پر غور کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔‘
اس حملے کے نتیجے میں ایوارڈ یافتہ مصنف ایک آنکھ سے نابینا ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے جگر کو نقصان پہنچا تھا اور بازو کے اعصاب کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے ہاتھ مفلوج ہو گیا تھا۔
گذشتہ سال سلمان رشدی نے حملے کے تناظر میں ’چاقو‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی تھی، جسے انھوں نے ’جوابی لڑائی کا میرا طریقہ‘ قرار دیا تھا۔
اس میں ہادی ماتر کے ساتھ ایک تصوراتی گفتگو بھی شامل ہے۔
سلمان رشدی نے ریڈیو فور کو بتایا کہ ’میں نے سوچا کہ اگر میں واقعی ان سے ملوں، ان سے سوالات پوچھوں تو مجھے ان سے زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔‘
’مجھے شک تھا کہ شاید وہ اپنے دل کی بات مجھ سے نہ کہے تو میں نے سوچا، ٹھیک ہے، میں اسے خود کہہ دیتا ہوں۔ میں شاید یہ ایک حقیقی گفتگو سے بہتر کروں گا۔‘
اس خیالی گفتگو کو بی بی سی کے فلم ساز ایلن ینتوب نے گذشتہ سال ایک دستاویزی فلم کے لیے بنائی گئی مصنوعی ذہانت کی اینیمیشن میں پیش کیا تھا۔
سلمان رشدی نے پیر کے روز کہا کہ نتائج’بہت حیران کن‘ تھے۔ کہنا پڑے گا کہ اس نے یقینی طور پر ایک نکتہ اٹھایا ہے۔‘
Getty Imagesملزم ہادی ماتر اس بات پر ’حیران‘ ہوئے کہ سلمان رشدی اس حملے میں زندہ بچ گئےہادی ماتر کو 25 سال قید کی سزا
برطانوی مصنف سلمان رشدی پر حملے کرنے والے امریکی ریاست نیو جرسی کے 27 سالہ رہائشی ہادی ماتر کو گذشتہ جمعے کو 25 سال قید کی سزا سُنائی گئی۔
ہادی ماتر کو رواں سال کے اوائل میں اقدام قتل اور حملے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
سلمان رشدی اگست 2022 میں سٹیج پر سامعین کے سامنے تقریر کر رہے تھے، جب ان کے چہرے اور گردن پر کئی بار چاقو سے حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے کی وجہ سے ان کی دائیں آنکھ ضائع ہو گئی تھی اور اُن کے جگر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
یہ حملہ سلمان رشدی کے متنازعہ ناول ’دی سیٹنک ورسیز‘ (شیطانی آیات) کے 35 سال بعد کیا گیا تھا، اسی ناول میں پیغمبر اسلام کی متنازع تصویر کشی کی وجہ سے انھیں قتل کی دھمکیوں کا سامنا تھا۔
واضح رہے کہ سنہ 1988 میں سلمان رشدی کا متنازع ناول ’سٹینک ورسز‘ (شیطانی آیات) شائع ہوا تھا جس پر مسلم دنیا میں انتہائی غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ بہت سے مسلمانوں نے اسے ’توہین مذہب‘ کے مترادف قرار دیا تھا۔
اس کتاب کی اشاعت کے ایک سال بعد ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا۔
ہادی ماتر پر اس سے قبل سلمان رشدی اور اس حملے کو روکنے کی کوشش کرنے والے ہینری ریس جو سلمان رشدی کا انٹرویو بھی کر رہے تھے، پر حملہ کرنے پر دس سال قید کی سزا سُنائی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سزا سنائے جانے سے قبل ہادی ماتر نے کھڑے ہو کر اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں بیان دیا جس میں انھوں نے رشدی کو ’منافق‘ قرار دیا تھا۔
ہتھکڑیاں پہنے ماتر نے کہا کہ ’سلمان رشدی دوسرے لوگوں کی بے عزتی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دوسرے لوگوں کو دھمکانا چاہتے ہیں اور میں اس بات سے متفق نہیں ہوں۔‘
ہادی ماتر کو جس وقت عدالت کی جانب سے 25 سال قید کی سزا سُنائی گئی اُس وقت سلمان رشدی عدالت میں موجود نہیں تھے۔
ملزم ہادی ماتر نے گرفتاری کے بعد سنہ 2022 میں نیویارک پوسٹ کو دیے انٹرویو میں بتایا کہ وہ اس بات پر ’حیران‘ ہوئے کہ سلمان رشدی اس حملے میں زندہ بچ گئے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے وہ (سلمان رشدی) پسند نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ کوئی اچھے انسان ہیں۔ مجھے وہ بالکل پسند نہیں۔‘
اے پی کے مطابق ہادی کا کہنا تھا کہ ’وہ (سلمان رشدی) ایسے شخص ہیں جنھوں نے اسلام پر حملہ کیا۔ انھوں (سلمان رشدی) نے اُن کے عقائد اور ایمان پر حملہ کیا۔‘
سلمان رشدی کیس: مبینہ حملہ آور نے متنازع کتاب کے ’دو صفحات‘ پڑھ رکھے تھے’سلمان رشدی خود حملے کے ذمہ دار ہیں، ایران کا اس سے تعلق نہیں‘برسوں روپوش رہنے والے مصنف سلمان رشدی کون ہیں؟میں، سلمان رشدی اور آیت اللہ خمینی کا فتویٰ: ویلنٹائن کا وہ دن جس سے موت کی بُو آ رہی تھیGetty Imagesگذشتہ سال سلمان رشدی نے حملے کے تناظر میں 'چاقو' کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی تھیسلمان رشدی کون ہیں؟
سلمان رشدی ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی سے دو ماہ قبل بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔
14سال کی عمر میں، انھیں انگلینڈ کے رگبی سکول تعلیم کے لیے بھیج دیا گیا تھا، بعد ازاں انھوں نے کیمبرج کے معروف کنگز کالج میں تاریخ کے مضمون میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔
وہ برطانوی شہری بن گئے اور انھوں نے اپنا مسلم عقیدہ تبدیل کر لیا۔ انھوں نے بطور ایک اداکار مختصر وقت کے لیے کام کیا۔ وہ کیمبرج فوٹ لائٹس میں کام کر چکے ہیں۔ پھر انھوں نے ناول لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک ایڈورٹائزنگ کاپی رائٹر کے طور پر بھی کام کیا۔
ان کی پہلی لکھی گئی کتاب گریمس نے اشاعت کے بعد بڑی کامیابی حاصل نہیں کی، لیکن کچھ ناقدین نے انھیں ایک اہم صلاحیت کے حامل مصنف قرار دیا تھا۔
رشدی کو اپنی دوسری کتاب مڈ نائٹ چلڈرن لکھنے میں پانچ سال لگے، اس کتاب نے سنہ 1981 کا بکر پرائز جیتا تھا۔ اس کتاب کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا اور اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں تھیں۔
جہاں ان کی کتاب مڈ نائٹ چلڈرن انڈیا کے بارے میں تھی، وہیں رشدی کا تیسرا ناول شیم - جو 1983 میں ریلیز ہوا۔ چار سال بعد، رشدی نے دی جیگوار سمائل نامی ناول لکھا، جو نکاراگوا میں ایک سفر نامہ تھا۔
سنہ 1988 میں ان کی وہ کتاب جس نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ’دی سٹینک ورسز‘ (شیطانی آیات) شائع ہوئی۔ اس کتاب کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے مذہبی توہین آمیز قرار دیا۔
اس کتاب پر سب سے پہلے انڈیا نے پابندی لگائی تھی۔ پاکستان نے بھی مختلف دیگر مسلم ممالک اور جنوبی افریقہ کی طرح اس پر پابندی عائد کر دی۔
اس ناول کو کئی حلقوں میں سراہا گیا اور اس نے ناول نگاری میں وائٹ بریڈ پرائز جیتا۔ لیکن کتاب پر ردعمل بڑھتا گیا، اور دو ماہ بعد، دنیا کے مختلف ممالک میں سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں نے زور پکڑ لیا۔
چند مسلم ممالک نے اسے مذہب اسلام کی توہین قرار دیا۔ انھوں نے کتاب میں موجود مواد پر اعتراض کیا۔
جنوری 1989 میں، بریڈ فورڈ میں مسلمانوں نے رسمی طور پر کتاب کی ایک کاپی جلا دی تھی اور نیوز ایجنٹ ادارے ڈبلیو ایچ ایسمتھ کو وہاں اس کتاب کو رکھنے سے منع کیا تھا۔ تاہم سلمان رشدی نے توہین مذہب کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔
اس برس فروری میں، برصغیر میں رشدی مخالف فسادات میں کئی افراد مارے گئے، تہران میں برطانوی سفارت خانے پر پتھراؤ کیا گیا، اور مصنف کے سر پر 30 لاکھ ڈالر کا انعام رکھا گیا۔
سلمان رشدی برسوں تک پولیس کے پہرے میں اپنی بیوی کے ساتھ روپوش رہے، انھوں نے اپنی کتاب کے ذریعے مسلمانوں کو ہونے والی تکلیف پر گہرے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا لیکن ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی نے مصنف کی موت کے لیے اپنے فتوی کو قائم رکھا۔
Getty Imagesوہ جگہ جہاں سلمان رشدی پر چاقو سے حمہ کیا گیا مترجم بھی حملوں کا شکار
مصنف سلمان رشدی وہ واحد شخص نہیں تھے جنھیں کتاب کے مواد پر دھمکیاں دی گئی تھیں۔
اس کتاب ’سٹینک ورسز‘ شیطانی آیات کا جاپانی مترجم جولائی 1991 میں ٹوکیو کے شمال مشرق میں ایک یونیورسٹی میں مرا ہوا پایا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ مترجم، ہیتوشی ایگاراشی، جو تقابلی ثقافت کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کرتا تھا، اس کو کئی بار چاقو مارا گیا تھا اور سوکوبا یونیورسٹی میں ان کے دفتر کے باہر برآمدے میں پھینک دیا گیا تھا۔
اس ماہ کے اوائل میں اطالوی مترجم ایٹور کیپری اولو پر بھی ان کے اپارٹمنٹ میں چاقو کے وار کیے گئے تھے تاہم وہ اس حملے میں زندہ بچ گئے تھے۔
رشدی کی بعض کی کتابوں میں بچوں کے لیے ایک ناول، ہارون اینڈ دی سی آف سٹوریز (1990)، مضامین کی ایک کتاب، امیجنری ہوم لینڈز (1991)، اور ناول ایسٹ، ویسٹ (1994)، دی مورز لاسٹ سائی (1995)، دی گراؤنڈ بنیتھ ہر فیٹ (1999)، اور فیوری (2001) شامل ہیں۔
وہ لندن 2003 میں اپنے ناول مڈ نائٹ چلڈرن کی سٹیج کے لیے ماخوذ کردہ پرفارمنس میں بھی شامل رہے۔
سلمان رشدی نے چار بار شادی کی اور ان کے دو بچے ہیں۔ وہ اب امریکہ میں رہتے ہیں، اور ادب کے شعبے میں ان کی خدمات کے لیے 2007 میں انھیں نائٹ کا خطاب دیا گیا۔
سلمان رشدی کیس: مبینہ حملہ آور نے متنازع کتاب کے ’دو صفحات‘ پڑھ رکھے تھے’سلمان رشدی نے میری نسل کو بنیاد پرست بنایا‘برسوں روپوش رہنے والے مصنف سلمان رشدی کون ہیں؟’سلمان رشدی خود حملے کے ذمہ دار ہیں، ایران کا اس سے تعلق نہیں‘