’ہوم باؤنڈ‘: دلت اور مسلمان دوستوں کی کہانی جس کے پریمیئر کے بعد کانز میں پورے نو منٹ تک تالیاں بجتی رہیں

بی بی سی اردو  |  May 26, 2025

دُنیا کے سب سے بڑے فلمی میلے 'کانز' میں گزشتہ دنوں انڈیا کی ایک فلم ’ہوم باؤنڈ‘ کا پریمیئر ہوا۔ فلمی دُنیا کے اس بڑے فیسٹیول میں پیش کیے جانے کے بعد اس میلے میں موجود ستاروں نے نو منٹ تک کھڑے ہو کر اس فلم کے لیے تالیاں بجائیں۔

اس فلم کے ہدایت کار نیرج گھیوان کی اس فلم کے ساتھ انڈین فل انڈسٹری میں قریب ایک دہائی کے بعد واپسی ہوئی ہے۔

فلم میں ایشان کھٹر، جھانوی کپور اور وِشال جیٹھوا نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ کرن جوہر کی کمپنی ’دھرما پروڈکشن‘ اس فلم کی مرکزی پروڈیوسر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہالی وڈ کے مایہ ناز پروڈیوسر مارٹن سکورسیسی اس فلم کے ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں۔

کانز میں پریمیئر کے موقع پر ہدایتکار نیرج گھیوان، پروڈیوسر کرن جوہر اور اداکار ایشان کھٹر، جھانوی کپور، وِشال جیٹھوا سمیت پوری ٹیم موجود تھی۔

فلم کی کہانی ہے کیا؟

فلم ’ہوم باؤنڈ‘ شمالی انڈیا کے ایک پسماندہ گاؤں میں رہنے والے دو نوجوان دوستوں کی تکالیف، جدوجہد اور بے مثال دوستی کے گرد گھومتی ہے۔

دونوں نوجوان پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، چندن کمار (وِشال جیٹھوا) ایک دلت اور محمد شعیب علی (ایشان کھٹر) ایک مسلمان کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔

دونوں کو ذات پات اور مذہب کے سبب قدم قدم پر ذلت، امتیازی سلوک اور تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ اپنے گاؤں، سماج اور ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، اسی لیے روزگار کی تلاش میں باہر جانے کے بجائے وہیں کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن حالات کی وجہ سے انٹر کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے اور آخری اُمید کے طور پر دونوں پولیس کانسٹیبل بننا چاہتے ہیں۔

فلم کی شروعات ریلوے سٹیشن کے ایک سین سے ہوتی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس بھرتی کے امتحان کے لیے آئے نوجوانوں کا ایک مجمع لگا ہوتا ہے۔

یہ فلم کے بنانے کا خیال کیسے آیا؟

سنہ 2010 میں انڈین فلم میکر نیرج گھیوان نے فلم ’مسان‘ کے ساتھ اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا تھا، جو محبت، محرومی اور ذات پات کے جابرانہ نظام کی ایک انتہائی دردناک کہانی ہے۔ یہ فلم ان تمام مسائل کے خلاف ہندو مذہب میں مقدس سمجھے جانے والے شہر وارانسی (بنارس) پر بنائی گئی تھی۔

اس کے بعد سے گھیوان انڈیا کی پسماندہ سمجھی جانے والی برادریوں کے بارے میں کسی نہ کسی کہانی کی تلاش میں تھے۔ پانچ سال قبل کورونا کی وبا کے دوران ممبئی میں دھرما پروڈکشن کے سومن مشرا نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ’ٹیکنگ امرت ہوم‘ کے نام سے ایک مضمون کی جانب گھیوان کی توجہ مبزول کروائی جسے صحافی بشارت پیر نے لکھا تھا۔

جس چیز نے گھیوان کو بشارت پیر کے مضمون کی طرف راغب کیا وہ یہ تھی کہ اس میں لاکھوں انڈین شہریوں کے اُس سینکڑوں اور ہزاروں میل کے پیدل سفر کی بات کی گئی تھی کہ جو انھوں نے کورونا وبا کے دوران لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کے دوران کیا تھا۔

لیکن اس مضمون میں ایک اور چیز بھی ایسی تھی کہ جس نے انھیں سوچنے پر مجبور کیا دیا اور وہ دو دوستوں کی کہانی تھی۔ دو ایسے دوست جن میں سے ایک مسلمان اور دوسرے دلت کے درمیان بچپن کی دوستی تھی۔

صحافی بشارت پیر کے مضمون سے متاثر ہو کر گھیوان نے ایک طویل وقفے کے بعد فلم ’ہوم باؤنڈ‘ بنائی۔

کانز فلم فیسٹیول میں موجود سامعین میں سے بہت سے لوگوں کو اس فلم کے پریمیئر کے بعد آنسو پونچھتے ہوئے دیکھا گیا۔ گھیوان نے مرکزی پروڈیوسر کرن جوہر کو گلے لگایا، جبکہ وہ اور ان کے نوجوان مرکزی اداکار ایشان کھٹر، وشال جیٹھوا اور جھانوی کپور بعد میں ایک بڑے گروپ میں اکٹھے ہوئے۔

چونکہ یہ کانز فیسٹیول 2025 میں جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ایونٹ تھا، لہذا دیگر فلمی ستاروں نے اس فلم کی سکریننگ کی حمایت کی۔

انڈیا کی میرا نائر (جنھوں نے سنہ 1988 میں سلام بمبئی کے لیے کیمرہ ڈی اور جیتا تھا) نے جوہر تک پہنچنے کے لیے نشستوں کی دو قطاروں کو عبور کیا۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے صائم صادق (جنھوں نے سنہ 2022 میں جوئے لینڈ کے لیے اقوام متحدہ کا جیوری انعام جیتا تھا) کو بھی اس لمحے کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے دیکھا گیا اور بعد ازاں انھوں نے اس موقع پر بنائی جانے والی ریل کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شئیر کیا۔

کانز فلم فیسٹیول میں پہلی پاکستانی فلم جوائے لینڈ کو ایوارڈز ملنے پر سوشل میڈیا پر چرچےکانز فلم فیسٹیول میں بالی وڈ کے بڑھتے اثراتپاکستانی فلم کو انڈیا میں دو ایوارڈز مل گئےفلم فیئر ایوارڈ میں راضی اور پدماوت کی دھوم

مارٹن سکورسیسی نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’میں نے نیرج کی پہلی فلم مسان 2015 میں دیکھی تھی اور مجھے یہ بہت پسند آئی تھی، اس لیے جب مجھے ان کی دوسری فلم کا پروجیکٹ ملا تو مجھے تجسس ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے کہانی اور اس میں دکھائے جانے والے ثقافتی پہلوؤں نے متاثر کیا اور یہ وہ لمحہ تھا کہ جب میں اُن کی مدد کے لیے تیار ہوا تھا۔‘

’نیرج نے ایک نہایت ہی خوبصورت فلم بنائی ہے بلکہ یوں کہ لیں کہ انھوں نے انڈین سنیما کی اس فلم کی مد سے خدمت کی ہے۔‘

گھیوان کے مطابق سکورسیسی نے اس تجربے کے دوران اس فلم کی کاسٹ میں شامل نوجوان ٹیم کی خوب رہنمائی کیلیکن اس سب کے دوران انھیں خطے کی ثقافتی اقدار کو سمجھنے کا موقع بھی ملا۔

سکورسیسی کا اس فلم کی روح تک پہنچنے، اور گھیوان جس موضوع کے گرد کام کرنے کی کوشش میں تھے، اُس کو سمجھنے کے لیے اس سب کا بغور جائزہ لینا ضروری تھا۔

فلم کے دو مرکزی کرداروں محمد شعیب علی (کھٹر) اور چندن کمار (جیٹھوا) نے ذات پات کی وجہ سے روا رکھے جانے والے رویے سے متعلق بات کی اور اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے پولیس فورس میں شامل ہو کر ان پر عائد تمام تر رکاوٹوں اور امتیازی سلوک سے بالاتر ہو کر اپنے مقاصد حاصل کیے۔

گھیوان نے کھلے عام اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایک دلت گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، اور یہ ایک ایسی حقیقت تھی کہ جس نے ان کی زندگی پر طویل اثرات مرتب کیے، انھوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ اس سب نے انھیں بچپن سے لے کر طویل عرصہ تک پریشان کیے رکھا۔

انھوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی اور پھر انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے باہر گڑگاؤں میں ملازمت کی۔ انھوں نے کہا کہ انھیں کبھی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن وہ ذات پات کی درجہ بندی میں اپنی حیثیت سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اب بھی اس کا بوجھ محسوس کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اس کمیونٹی کا وہ واحد فرد ہوں کے جس کے کام کو کیمرے کے پیچھے بھی اور سامنے بھی سراہا گیا ہے۔ یہ وہ خلا ہے کہ جس کے ساتھ ہم اپنی زندگیاں گُزار رہے ہیں۔‘

گھیوان کہتے ہیں کہ ’انڈیا میں لوگوں کی اکثریت اپنے گاؤں اور دیہاتوں میں رہتی ہے، لیکن انڈین فلم ساز شاذ و نادر ہی گاؤں کو اپنی کہانیوں میں لانے کی بات کرتے ہیں۔‘

اس سے بڑھ کر جو چیز گھیوان کو پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پسماندہ برادریوں کے بارے میں صرف اعداد و شمار کی حد تک ہی بات کی جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کیا ہوگا اگر ہم اس اعداد و شمار میں پیش کیے جانے والے فرد کی بات کریں اور یہ دیکھیں کہ ان کی زندگی پر ان سب باتوں کا کیا اثر ہوا ہے؟ اور اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اندازہ لگایا جائے کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچے؟‘

گھیوان کہتے ہیں کہ ’میں نے محسوس کیا کہ یہ سب وہ باتیں ہیں کہ جن کو بیان کرنا ضروری ہے اور یہی وہ کہانی ہے کہ جو اس موجودہ ماحول میں سنانے کے قابل ہے۔‘

کانز فلم فیسٹیول میں پہلی پاکستانی فلم جوائے لینڈ کو ایوارڈز ملنے پر سوشل میڈیا پر چرچےشرمین عبید چنائے کے لیے ایک اور ایوارڈکانز فیسٹیول میں پاکستانی فلم ’رانی‘ کی نمائشفلم فیئر ایوارڈ میں راضی اور پدماوت کی دھومپاکستانی فلم کو انڈیا میں دو ایوارڈز مل گئےکرن راؤ پاکستانی فلم کی سکریننگ کے لیے پرامید
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More