ہنزہ کی چراہ گاہیں اور ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کا نعرہ: وہ معاہدہ جس نے چین کی پاکستان سے دوستی کی بنیاد رکھی

بی بی سی اردو  |  May 26, 2025

Getty Images

سنہ 1950کی دہائی میں ’ہندی-چینی بھائی بھائی‘ کاشور تھا۔ سردجنگ کے عروج پر تازہ تازہ عوامی جمہوریہ بنے کمیونسٹ چین کو امریکہ کی جانب جھکے پاکستان کے بجائے سوویت یونین سے جڑا انڈیا زیادہ بھایا تھا۔

سو یہ کم ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ اگلی ہی دہائی میں اس کا پاکستان سے ایک ایسا معاہدہہوگا کہ یہ دونوں ملک ’فولادی بھائی‘ اور ’تمام موسموں کے دوست‘ بن جائیں گے۔

اینڈریو سمال اپنی کتاب ’دی چائنا-پاکستان ایکِسس: ایشیاز نیو جیوپالیٹکس‘ میں لکھتے ہیں کہ 1950 کی دہائی کے اوائل میں بیجنگ کا قریبی ساتھی پاکستان نہیں بلکہ انڈیا تھا۔

’چین اور انڈیا کے تعلقات کم از کم چند سال ’ہندی-چینی بھائی بھائی‘ کے نعرے کی بلند ترین سطح پر تھے۔‘ یہاں تک کہ چین نے انڈیا کے ساتھ اپنے سرحدی تنازع پر مذاکرات اور ایک دوسرے کے زیرِانتطام علاقوں کے تبادلے سے اسے حل کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔

مغرب میں چین کے زیرِانتظام اکسائی چِن کو انڈیا لداخ کا حصہ کہتا ہے جسے اس نے چھ سال پہلے ایک متنازع اقدام اٹھاتے ہوئے کشمیر سے علیحدہ یونین علاقے کا درجہ دیا۔

مشرق میں انڈیا میں برطانوی دور میں بنی مکماہون لائن پر اختلاف کے باعث انڈیا اروناچل پردیش کو اپنا حصہ مانتا ہے، مگر چین اسے تسلیم نہیں کرتا اور اسے تبت کے خودمختار خطے کا حصہ ’ژانگنان‘ قرار دیتا ہے۔

لیکن جزوی طورپر کشمیر کے ہمالیائی خطے سے جڑے اسی تنازع، جسے عمومی طور پر صرف پاکستان اور انڈیا کے مابین کشیدگی اور جنگوں کی وجہ سمجھا جاتا ہے، کے تناظر میں حال ہی میں پاکستانی افواج کے ترجمان احمد شریف چودھری نے ایکپریس بریفنگ میں کہا کہ ’کشمیر ایک بیرونی مسئلہ ہے جو تین ممالک پاکستان، انڈیا اور چین کے درمیان ہے۔‘

رونگ شِنگ گوؤ کی کتاب ’ٹیریٹوریل ڈسپیوٹس اینڈ کنفلکٹ مینیجمنٹ‘، کے مطابق کشمیر کا انڈیا کے پاس 45.62 فیصد، پاکستانکے پاس 35.15 فیصد اور چین کے پاس 19.23 فیصد حصہ ہے۔

برطانوی راجکا خاتمہ اور نقشوں کا تنازعGetty Imagesجب برطانوی راج ختم ہوا تو برطانوی نقشوں پر اکسائی چن کی کوئی واضح سرحد موجود نہ تھی

اس تنازع نے تب جنم لیا تھا جب برطانیہ کی ہندوستان پر حکومت تھی۔

جدید جنوبی ایشیا کے مؤرخ ڈاکٹر یعقوب خان بنگش کے مطابق مہاراجا رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سکھ سلطنت کمزور پڑی تو انگریزوں نے اس کے خلاف اپنی پہلی جنگ کے بعد 16 مارچ 1846 کو امرتسر معاہدے کے تحت کشمیر کی وادی جموں کے راجا گلاب سنگھ کو 75 لاکھ روپے میں فروخت کر دی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بنگش کا کہنا تھا کہ یوں ریاست جموں وکشمیر کی تشکیل ہوئی تو اس کی مشرقی سرحد کا تعین نہیں ہوا تھا۔

’تبت اور سنکیانگ کی طرف یہ سرحد بنجر اور بے آباد تھی، سو اس کے بارے میں کوئی زیادہ فکرمند بھی نہیں تھا۔‘

انڈیا اور پاکستان کے درمیان، اور لداخ کے کنارے پر انڈیا اور چین کے درمیان متنازع سرحدی علاقوں کا احاطہ کرتی اپنی کتاب ’وائٹ ایز دی شراؤڈ: انڈیا، پاکستان اینڈ وار آن دی فرنٹیئرز آف کشمیر‘ میں جنوبی ایشیا کی ماہر مایرا میکڈونلڈ لکھتی ہیں کہ جب ہندوستان میں برطانوی حکام نے اسسرحد کے تعین کی کوشش کی تو سلطنت چین زوال پذیر تھی۔

’برطانیہ نے مختلف تجاویز پر غور کیا، جن میں 1865 کی ارداغ-جانسن لائن شامل تھی، جو اکسائی چن کے بیشتر حصے کو لداخ میں شامل کرتی تھی، اور 1899 کی میکارٹنی-میکڈونلڈ لائن، جو نسبتاً محتاط تجویز تھی۔ لیکن یہ تجاویز کبھی بین الاقوامی سطح پر منظور نہ ہو سکیں۔‘

’سو انگریز اس میں ناکام رہے اور ایک الجھی ہوئی میراث چھوڑ گئے۔‘

انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی، لاہور کے ہیومینیٹیزاینڈ سوشل سائینسز کے ڈین ڈاکٹر بنگش بتاتے ہیں کہ 1865 کی ارداغ۔جانسن لائن سے لے کر 1914 کی مکماہون لائن تک سرحد کا جو بھی تعین ہوا ایک دوسرے سے مختلف تھا۔

’کبھی ہندوستان کی برطانوی حکومت کسی حصے کو جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیتی تو کبھی کسی اور کو۔ یہالجھاؤ بھی رہا کہ اگرچہ تبت کو اس عمل میں بہت بار شریک کیا گیا مگر چین کی حکومت جو سنکیانگ میں تھی، کے ساتھشاذ و نادر ہی بات چیت ہوئی کہ سرحد کیا ہوگی۔‘

اسی لیے چین نے شمال مشرقی کشمیر میں برطانوی دور کی ان سرحدی لکیروں کو کبھی تسلیم نہیں کیااور سنہ 1949 میں چین میں کمیونسٹ حکومت کے قیام کے بعد بھی یہی موقف برقرار رہا۔

بنگش کہتے ہیں کہ چین کا کہنا تھا کہ اس کی بیجنگ میں حکومت کا ہندوستان کی حکومت کے کسی عہدیدار سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا کہ باؤنڈری کیا ہوگی، نہ مشرق میں، نہ مغرب میں۔

میکڈونلڈ لکھتی ہیں کہ ’جب برطانوی راج ختم ہوا تو برطانوی نقشوں پر اکسائی چن کی کوئی واضح سرحد موجود نہ تھی۔‘

کیا انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع میں اصل فاتح چین ثابت ہوا؟پاکستان کو جواب دینے والی انڈین فوج، چین کے سامنے خاموش کیوں ہوتی ہے؟پہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟انڈیا، پاکستان کشیدگی کے دوران اروناچل پردیش میں ناموں کو بدل کر چین کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟Getty Imagesاکسائی چین سے متصل لداخ کا علاقہ انڈیا کے زیرانتظام ہے اکسائی چین اور کشمیر کی سرحدوں پر اختلاف

انڈیا اور چین دونوں نے اکسائی چن پر دعویٰ کر دیا، جو اس وقت ’نو مینز لینڈ‘ یعنی بے مالک علاقہ تھا۔

صحافی نیول میکسویل نے اپنی کتاب ’انڈیاز چائنا وار‘ میں لکھا ہے کہ انڈیاکےوزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کاموقف یہ تھا کہ اکسائی چن صدیوں سے لداخ کے علاقے کا حصہ رہا ہے۔

’چینی وزیرِ اعظم ژو این لائی کا کہنا یہ تھا کہ مغربی سرحد کبھی باضابطہ طور پر متعین نہیں کی گئی، اورمیکارٹنی-میکڈونلڈ لائن جس کے تحت اکسائی چن کا کچھ حصہ چینی سرحد کے اندر آتا ہے وہ واحد سرحدی تجویز تھی جو کسی چینی حکومت کو دی گئی تھی۔‘

’انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اکسائی چن پہلے ہی چین کے زیرِ انتظام ہے، اور مذاکرات میں موجودہ زمینی حقائق کو مدِنظر رکھا جانا چاہیے۔‘

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے لیے اپنی تحقیق میں آدم زیدان لکھتے ہیں کہ چین نے تبت اور سنکیانگ پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے بعد لداخ کے شمال مشرقی علاقوں میں پیش قدمی کی۔

’اس پیش قدمی کا مقصد اکسائی چن کے علاقے سے گزرتی ایک فوجی سڑک کیتعمیر تھا، جو 1956–57 میں مکمل ہوئی۔ اس سڑکسے سنکیانگ اور مغربی تبت کے درمیان مواصلات بہتر ہوئے اور چین کوانڈیا اور تبت کے درمیان کئی اہم دروں پر کنٹرول بھی حاصل ہوا۔‘

اپنی رپورٹ ’ری ڈرائنگ دی میپس اِن کشمیر‘ میں جرمن ادارے ایس ڈبلیو پی سے تعلق رکھنے والے کرسچن ویگنر اور اینجلا اسٹینزل لکھتے ہیں کہ 1959 میں چینی وزیر اعظم ژو این لائی نے تجویز دی کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے کچھ علاقوں پر حق چھوڑ کر تبادلہ کریں، یعنی چین کو اکسائی چن دیا جائے اور وہ شمال مشرقی انڈیا (موجودہ ریاست اروناچل پردیش) پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائے۔

مگر انڈیا کی حکومت نے یہ تجویز مسترد کر دی۔

زیدان لکھتے ہیں کہ ’انڈیا کو سڑک کے بارے میں تاخیر سے علم ہوا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں، جو بالآخراکتوبر 1962 کی چین-انڈیا جنگ پر منتج ہوئیں۔ اس جنگ کے بعد سے لداخ کا شمال مشرقی حصہ چینکے پاس ہے۔‘

جرمن ادارے کی رپورٹ کے مطابق ’سنہ 1988کے بعد جبانڈیا اور چین کے تعلقات میں بہتری آئی تو سرحدی مسئلہ دوبارہ مرکزِ نگاہ بنا۔‘

’سنہ 1993 کے معاہدے کے تحت موجودہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو تسلیم کیا گیا، جو ایک ’لائن‘ کے بجائے دراصل باہمی طور پر تسلیم شدہ گشت کے راستوں اور فوجی چوکیوں کا علاقہ ہے۔

مگرپانچ اگست 2019 کو انڈیا کی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کو ختم کر کے دویونین علاقوں میں تقسیم کر دیا۔

اس کے ردِعمل میں 4 اگست 2020 کو پاکستان نے ایک نیا نقشہ جاری کیا جس میں پورے کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا۔

چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان، ہوا چھون اینگ نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ’حال ہی میں بھارت نے اپنی داخلی قانون سازی کو یک طرفہ تبدیل کر کے چین کی علاقائی خودمختاری کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ عمل ناقابلِ قبول ہے اور اس کا کوئی قانونی جواز نہیں۔‘

جرمن ادارے کیرپورٹ میں لکھا ہے کہ ستمبر 2020 کے آخر میں چین نے بھی لداخ/اکسائی چن کے معاملے میں بھارت کے ساتھ سٹیٹس کو ختم کر دیا۔

’یہ تمام اقدامات اشارہ کرتے ہیں کہ کشمیر تنازع اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے — ایسا مرحلہ جہاں چین اور پاکستان ممکنہ طور پر زیادہ قریبی تعاون اختیار کر سکتے ہیں۔‘

Getty Imagesپاکستان اور چین کے درمیان سرحدی معاہدہ

پاکستان اور چین میں بھی کچھ سرحدی علاقوں پر اختلاف تھا۔

انڈیا کے دانشور ، قانون دان اور تاریخ دان اے جی نورانی ایک میگزین فرنٹ لائنمیں 20 اکتوبر 2006 کو شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ نومبر 1959 میں جب پاکستان نے مذاکرات کی پیشکش کی تو اُسے چین کا سردمہری اور شکوک سے بھرا رویہ دیکھنے کو ملا۔

’چین، امریکا کے اتحادی پاکستان کے بجائے انڈیاکو ترجیح دیتا تھا۔ پاکستان کی اس پیشکش کا جواب دینے میں چین نے پورا ایک سال لگا دیا، اور بالآخر 8 دسمبر 1960 کو ردعمل ظاہر کیا۔‘

’فیسنگ دی ٹرتھ‘ کے عنوان کے تحت اس مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان کے فوجی حکمران ایوب خان نے اپنی خودنوشت’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھا ہے کہ دسمبر 1961 میں چینی سفیر نے اقوام متحدہ میں چین کی نشست کے لیے پاکستان کی حمایت مانگی، جس پر ایوب نے انھیں سرحدی مسئلے کی یاد دہانی کروائی۔

چینی سفیر نے مسئلے کو پیچیدہ قرار دیا جس پر ایوب نے جواب دیا: ’ہمیں دونوں مسائل کو ان کے میرٹ پر دیکھنا چاہیے۔‘

مذاکرات 12 اکتوبر 1962 کو شروع ہوئے۔ چینیوں نے ابتدا میں خنجراب وادی اور کے ٹو کے قریب کے علاقوں پر دعویٰ کیا، لیکن آخرکار پاکستان کے نقشے پر مشتمل لائن آف کنٹرول کو معمولی ترامیم کے ساتھ تسلیم کر لیا۔ کے ٹو کی چوٹی کو دونوں ممالک کے درمیان بانٹنے پر اتفاق ہوا۔

پاکستان نے شمشال پاس کے پار واقع چراگاہی علاقوں پر دعویٰ کیا جو صدیوں سے ہنزہ کے لوگوں کے زیر استعمال تھے۔ چینی نمائندے نے اتفاق کیا کہ اس معاملے کو ’میرٹ‘ پر حل کیا جائے گا، اور بعد ازاں یہ علاقہ پاکستان کو دے دیا گیا۔

27 دسمبر 1962 کو اصولی معاہدے کا اعلان ہوا۔ 2 مارچ 1963 کو بیجنگ میں معاہدہ پر دستخط ہوئے، اور 26 مارچ 1965 کو زمینی سرحدی نشاندہی کا پروٹوکول سائن ہوا۔

نورانی کے مطابق یہ معاہدہ قراقرم واٹرشیڈ پر مبنی تھا، نہ کہ کون لُن یا 1897 کی ارداغ لائن پر۔ یہ 1899 کی میکارٹنی-میکڈونلڈ تجویز اور 1905 کی کرزن ترمیم پر مشتمل تھا۔

انڈیانے کہا کہ پاکستان نے چین کو بہت بڑا علاقہ دے دیا اور اس معاہدے کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا ہے، کیونکہ اس کے مطابق 1947 کے معاہدہ الحاق کی رو سے پورا کشمیر انڈیا کا حصہ ہے۔ انڈیا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک احتجاجی خط بھی ارسال کیا۔

Getty Imagesپاکستان نے چین کے ساتھ شمالی سرحد کا تعین کیا، اور چین نے یہ سرحد ’عارضی انتظام‘ کے طور پر تسلیم کی، تاکہ کشمیر کے مسئلے کے حتمی حل کی صورت میں دوبارہ جائزہ لیا جا سکےبھٹو کی چین نواز پالیسی

اپنی 26 مارچ 1963 کی تقریر میں، پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نےاس احتجاجی خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جموں و کشمیر کا علاقہ نہ تو یونین (یعنی انڈیا) کا حصہ ہے، نہ ہی اس کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔ یہ خطہ جموں و کشمیر کے عوام کی ملکیت ہے۔ اس کا مستقبل اقوام متحدہ کے کمیشن کی 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی قراردادوں کے مطابق طے ہونا ہے، یعنی اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے، تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ یہ علاقہ انڈیا کے ساتھ شامل ہو یا پاکستان کے ساتھ۔‘

’چونکہ انڈیا اور پاکستان دونوں ان قراردادوں کے پابند ہیں، اس لیے کسی ایک فریق کی جانب سے جموں و کشمیر پر حاکمیت کا دعویٰ کرنا انتہائی افسوسناک اور غیر مناسب ہے۔‘

’چین اور پاکستان کے درمیان طے پانے والا سرحدی معاہدہ، چین کے سنکیانگ صوبے اور ان متصل علاقوں کے درمیان، جن کے دفاع کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے، میں عملاً موجود سرحد کی حد بندی کے حوالے سے ایک متفقہ فہم و ادراک پر مبنی ہے۔‘

’یہ معاہدہ جموں و کشمیر کے علاقے کی حیثیت پر کسی طرح اثرانداز نہیں ہوتا۔‘

بھٹو نے یہ بھی کہاکہ ’پاکستان نے چین کو ایک انچ زمین بھی نہیں دی بلکہ پاکستان کو 750 مربع میل علاقہ حاصل ہوا جو پہلے چین کے پاس تھا۔‘

سفارت کار عبد الستار، جو بعد ازاں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے، لکھتے ہیں کہ سرحدی حد بندی پر اتفاق ہو چکا تھا جب پاکستان کی حکومت کو احساس ہوا کہ شمشال پاس کے اُس پار واقع کچھ چراگاہیں تاریخی طور پر ہنزہ کے باشندوں کے زیر استعمال رہی ہیں۔

’چنانچہ پاکستان نے ایک استثنا کی درخواست کی۔ چو این لائی نے فراخ دلی سے سرحد میں ترمیم پر رضامندی ظاہر کی، یوں 750 مربع میل کا علاقہ پاکستان کی طرف شامل کیا گیا۔‘ یہ سب کچھ آدھی رات کےبعد ہوا۔

اینڈریو سمال لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے احتیاط کے ساتھ مگر فیصلہ کن انداز میں پیش رفت کی۔

’پاکستان میں جو شخص ’چین نواز کیمپ‘ کا سربراہ بنا، وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بھٹو نے ایوب خان پر زور دیا کہ وہ اپنا وہ بیان واپس لیں جس میں انھوں نے چین-بھارت تنازع کو محض ’انڈیا کا مسئلہ‘ قرار دیا تھا۔ اس کے بجائے، بھٹو نے تجویز دی کہ پاکستان کو بیجنگ کو ایک واضح پیغام دینا چاہیے کہ وہ بھارت کے موقف کی بنیاد ہی کو چیلنج کر رہا ہے۔‘

’یہ معاہدہ پاکستان کی جانب سے بھٹو کے پیشرو منظور قادر نے ایوب خان کی نگرانی میں طے کیا تھا، مگر معاہدے پر دستخط کرنے بیجنگ مارچ 1963 میں بھٹو خود پہنچے جہاں انھوں نے چین کے وزیر خارجہ چن یی کے ساتھ معاہدہ کیا — اور تعریفیں سمیٹیں۔‘

کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت

’پاکستان ہورائزن‘ کے لیے اپنے مضمون ’1963 کے پاک چین سرحدی معاہدے کی اہمیت‘ میں پرویز اقبال چیمہ لکھتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد چین نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کی۔

’پاک چین سرحدی معاہدے نے چین کی جنوبی سرحد کو واضح کر دیا اور 1962 کی انڈیا-چین جنگ جیسے ایک اور لاحاصل تصادم کے خطرات کو مکمل ختم کر دیا۔ پاکستان نے چین کے ساتھ شمالی سرحد کا تعین کیا، اور چین نے یہ سرحد عارضی انتظام کے طور پر تسلیم کی، تاکہ کشمیر کے مسئلے کے حتمی حل کی صورت میں دوبارہ جائزہ لیا جا سکے۔‘

’یقیناً، یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے مابین مستقبل کے دوستانہ تعلقات کی ایک مضبوط بنیاد بنا۔‘

نورانی لکھتے ہیں کہ چین نے 1963 سے 2008 کے درمیان افغانستان، تاجکستان، قازقستان، روس، منگولیا، میانمار، نیپال، پاکستان، لاؤس، شمالی کوریا اور ویتنام کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات حل کر لیے ہیں۔

لیکن نورانی، جن کا انتقال پچھلے سال ہوا، کے مطابق انڈیا اور بھوٹان کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعات، جو زیادہ ترانڈیا کی وجہ سے ہیں، اب تک حل طلب ہیں۔

’ہمیں ایمانداری سے خود سے پوچھنا چاہیے: کیا ہم ان تنازعات کو یک طرفہ طور پر حل کریں گے یا پاکستان اور چین کے ساتھ باقاعدہ سمجھوتے کے ذریعے؟‘

’کوئی بھی تصفیہ ممکن نہیں جب تک دونوں فریقوں کے لیے قابلِ قبول سمجھوتا نہ ہو۔ اور سمجھوتے کا مطلب دونوں طرف سے رعایت دینا ہے۔‘

کیا انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع میں اصل فاتح چین ثابت ہوا؟پاکستان کو جواب دینے والی انڈین فوج، چین کے سامنے خاموش کیوں ہوتی ہے؟پہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟انڈیا، پاکستان کشیدگی کے دوران اروناچل پردیش میں ناموں کو بدل کر چین کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟انڈیا اپنے تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ بیک وقت ٹکراؤ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟انڈیا سے جنگ جیت کر چین اروناچل پردیش سے پیچھے کیوں ہٹا تھا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More