کیا پاکستانی فنکاروں پر بالی وڈ کے دروازے اب بند ہو گئے ہیں؟

اردو نیوز  |  May 23, 2025

پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کو ہفتے سے زائد بیت چکا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کے آفٹر شاکس شوبز انڈسٹری میں ابھی تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔

بالی وڈ کی سلیبریٹریز اور پاکستانی فنکاروں کے درمیان لفظی گولہ باری کا سلسلہ ابھی تھما نہیں تھا کہ پاکستان کے فنکاروں نے توپوں کا رُخ ایک دوسرے کی جانب کر لیا۔

انڈیا کے حملے پر جس جس اداکار نے خاموشی اختیار کی یا نپا تُلا بیان جاری کیا وہ اِس وقت اپنے ساتھی فنکاروں کے نشانے پر ہے۔ فواد خان، ہانیہ عامر، آئزہ خان، عاطف اسلم سمیت کئی شوبز ستاروں کو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ ٹی وی پروگراموں بھی ’نیم اینڈ شیم‘ کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کی بات کریں تو پاکستانی فنکاروں کے خلاف اقدامات سخت سے سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ انڈیا میں کئی فنکاروں کے انسٹاگرام اکاؤنٹس پر پابندی لگائی گئی، پاکستانی فلموں، گانوں، پوڈکاسٹ اور دوسرے آن لائن مواد تک رسائی روکی گئی۔

اب فواد خان اور ماہرہ خان  سمیت کئی پاکستانی فنکاروں کو میوزک پلیٹ فارم پر ان کی بالی وڈ فلموں کے پوسٹرز سے ہٹا دیا گیا ہے۔ فواد خان کی تصویر اب ان کی فلم ’کپور اینڈ سنز‘ کے پوسٹر سے غائب ہے جبکہ ماہرہ خان کو شاہ رخ خان کی فلم ’رئیس‘ کے پوسٹر سے ہٹا دیا گیا ہے۔

ماورا حسین جنہوں نے فلم ’صنم تیری قسم‘ سے بالی وڈ میں قدم رکھا تھا، کی تصویر اب پوسٹر پر نظر نہیں آ رہی۔ کچھ دن قبل انڈین اداکار ہرش وردھن نے فلم صنم تیری قسم ٹو میں ماورا حسین کی شمولیت کی صورت میں اس فلم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔

بالی وڈ میں اپنی جگہ بنانے والے پاکستانی فنکاروں کو اس وقت نہ صرف انڈیا بلکہ اپنے ملک میں بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب پاکستانی فنکاروں کا بالی وڈ میں کوئی مستقبل ہے؟

اور اگر بالی وڈ کے دروازے ان اداکاروں پر بند نہ بھی ہوئے تو کیا کوئی فنکار اتنی آسانی سے وہاں جا کر کام کرنے کا فیصلہ لے پائے گا کیونکہ اس صورت میں شاید اُسے ایک بار پھر اپنے ملک کے عوام کے شدید ردّعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اپنے فینز کھونے کا ڈر بھی ہوگا۔

ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم نے پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے سینیئر اداکار جاوید شیخ سے بات کی ہے جو بالی وڈ کی کئی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔

جاوید شیخ کہتے ہیں کہ آرٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی لیکن جب سرحد پر حملہ ہو جائے تو کیا کریں؟ فنکار ہو یا کوئی بھی ہو جب ملک کی بقا اور سلامتی کی بات ہو تو سب بھلا کر اپنے ملک کی قیادت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘

جاوید شیخ نے کہا کہ ’یہ مطالبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اداکار انڈیا جا کر کام  کرنا بند کر دیں‘ (سکرین گریب)انہوں نے کہا کہ جس ملک نے نام دیا، شناخت دی وہ سب سے پہلے ہونا چاہیے۔ ایسے موقع پر 100 فیصد کُھل کر بات کرنی چاہیے اور واضح موقف اپنانا چاہیے۔ ’اس میں کچھ ڈرنے کی بات نہیں کہ ہم اگر بول دیں گے تو شاید وہاں کام نہیں ملے گا۔ وہاں کے فنکار بھی تو بیانات دے رہے ہیں۔‘

’ممبئی حملوں کے بعد جب ڈرتے ہوئے انڈیا پہنچا تو ویلکم کہا گیا‘جاوید شیخ نے اپنا واقعہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’جب 2008 میں ممبئی حملے ہوئے تو اُس وقت میں وہاں میں اپنے اپارٹمنٹ میں تھا، میری کافی فلمیں باقی تھیں لیکن میں نے خود یہ بہتر سمجھا کہ جانا چاہیے۔ وہاں عمومی تاثر اچھا نہیں تھا اس لیے فلائٹ سے کراچی پہنچ گیا، پھر ایک دو مہینے بعد جب سب نارمل ہو گیا تو میں واپس انڈیا آیا۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میں ڈرتے ڈرتے آیا کہ پتہ نہیں کیا ردّعمل ہوگا لیکن جب ایئرپورٹ سے نکلا تو وہاں لوگوں میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے مجھے پہچانا اور کہا ’ویلکم ٹو انڈیا۔‘

جاوید شیخ کا خیال ہے کہ ’ابھی جو نفرت نظر آ رہی ہے وہ مودی حکومت کی ہے وہاں کے عوام کے دل میں پاکستانیوں کے لیے نفرت نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ مطالبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اداکار انڈیا جا کر کام  کرنا بند کر دیں، کیوں بند کر دیں؟ کچھ عرصے بعد حالات معمول پر آ جائیں گے، بات چیت ہوگی، تجارت ہوگی۔ یہ سب ہوگا اور ہونا چاہیے، ہم ہمسائے ہیں اور ہم دونوں کو ہی اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا چاہیے۔ تو جب سب کچھ معمول پر آ جائے گا تو یہاں سے آرٹسٹ وہاں جائیں گے، وہاں سے یہاں بھی آئیں گے۔ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے اداکاروں کی فلمیں دیکھیں گے، انہیں پسند بھی کریں گے۔‘

جاوید شیخ بالی وڈ کی کئی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں (سکرین گریب)فلم ساز علی سجاد شاہ (ابو علیحہ) نے فنکاروں کی ایک دوسرے پر تنقید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ انڈسٹری میں تین طرح کے لوگ ہیں۔ ’ایک وہ جنہیں بالی وڈ سے آفرز بالکل نہیں آتیں، دوسرے وہ جنہیں آفرز آتی ہیں اور وہ بالی وڈ میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں آفرز تو ملتی ہیں مگر وہ خود انہیں ٹھکرا دیتے ہیں۔‘

’اس وقت دونوں طرف کے فنکار پریشر میں ہیں‘علی سجاد شاہ نے کہا کہ اس وقت دونوں طرف کے فنکاروں پر پریشر ہے۔ ’فواد خان سمیت کچھ فنکاروں پر تنقید ہو رہی ہے کہ وہ اس معاملے پر خاموش کیوں رہے یا اپنا واضح موقف کیوں نہیں دیا تو بھئی اگر انہوں نے مذمت نہیں کی تو انڈیا کے کسی اقدام کی حمایت بھی تو نہیں کی۔ وہ سرکار سے پینشن تو نہیں لیتے، آرٹسٹ ہیں اور اپنا کام کرتے ہیں۔‘

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’صرف فواد خان ہی نہیں بلکہ اور بہت سے اداکار بالی وڈ میں کام کرکے آتے ہیں جیسے کہ سہیل احمد، ناصر چنیوٹی۔ فیروز خان نے بھی ایک فلم کی ہے اس کے علاوہ عمران اشرف کی فلم کا پوسٹر بھی آ چکا۔

’دلچسپ بات یہ کہ ان میں سے کسی نے بھی اس سارے معاملے پر کوئی بیان نہیں دیا لیکن فواد خان کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فواد خان ہمارا ایک سپر سٹار ہے اگر ہمارے اداکاروں کو بالی وڈ میں کام مل رہا ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے۔‘

’حکومتوں کی لڑائیوں کی بنیاد پر پورا بیانیہ کھڑا نہیں کیا جا سکتا‘کیا بالی وڈ کے دروازے پاکستانی فنکاروں پر بند ہو جائیں گے، اس حوالے سے علی سجاد شاہ سمجھتے ہیں کہ ’ایسا بالکل نہیں ہو سکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انڈیا میں پاکستانی فنکاروں پر جو پابندیاں لگ رہی ہیں اسے پبلک ریجیکشن نہیں سمجھنا چاہیے۔ جیسے پاکستانی عوام بالی وڈ اداکاروں کو پسند کرتے ہیں ایسے ہی وہاں کے عوام میں بھی ہمارے آرٹسٹ مقبول ہیں۔‘

علی سجاد شاہ نے کہا کہ ’حالات نارمل ہونے کے بعد ہمارے فنکاروں کو پھر کام ملنے لگے گا‘ (فوٹو: فیس بک)علی سجاد شاہ نے کہا کہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سرکار کی لڑائیاں ہیں اور ان لڑائیوں کی بنیاد پر پورا بیانیہ کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایکشن رئیکشن تو چلتا رہے گا۔

’جب حالات معمول پر آ جائیں گے نریندر مودی یا اگر ان کی جگہ کوئی اور حکومت میں آیا اور اس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو ایسا نہیں ہو گا کہ اُسے رد کر دیا جائے گا۔ تو کہنے کا مطلب یہ کہ حالات نارمل ہونے کے بعد ہمارے فنکاروں کو پھر کام ملنے لگے گا اور انہیں وہاں دیکھا بھی جائے گا اور پسند بھی کیا جائے گا۔‘

ہدایتکار علی سجاد شاہ نے مزید کہا کہ ’ایسا ہی پاکستان میں بھی ہوگا۔ ابھی انڈیا نے اپنی فلمیں ہمیں دینا بند کر رکھی ہیں اور پھر ہم نے بھی ان کی فلموں پر بین لگا دیا لیکن جب ہماری طرف انڈین فلمیں لگنا شروع ہو گئیں تو یہاں کے عوام بھی سینما گھروں کا رُخ کریں گے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے سینما گھروں میں بالی وڈ فلمیں لگنے سے پاکستانی فلموں کو بھی ’بوسٹ‘ ملے گا۔

’اس طرح ایک مقابلے کی فضا بنے گی جو کہ بہت ضروری ہے۔ جو لوگ شاہ رخ خان یا سلمان خان یا اپنے کسی بھی پسندیدہ اداکار کی فلم دیکھنے سینما جائیں گے وہ ہمایوں سعید کی فلم بھی دیکھ لیں گے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب بالی وڈ میں کام کرنے والے کسی بھی فنکار کو اپنے ملک کے عوام کی جانب سے ناپسندیدگی یا کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا، تو ان کا جواب کچھ یوں تھا:

’دیکھیں جب کشیدگی ختم ہو جائے گی، پھر سے دوستی کی باتیں ہونے لگیں گی تو یہ سب کچھ خود معمول پر واپس آ جائے گا۔ پھر وہی بات کروں گا کہ حکومتوں کی لڑائیاں کی بنیاد پر پورا بیانیہ کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ سیچوئیشن کے حساب سے بیانیہ بدلتا رہتا ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More