شمالی کشمیر کا تلبل بیراج اس وقت سرخیوں میں آیا جب انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے موجودہ وزیر اعلی اور سابق وزیر اعلی نے اس کی حمایت اور مخالفت میں بیانات دیے۔
جمعرات کو جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے شمالی کشمیر میں وولر جھیل کی ایک ویڈیو ٹویٹ کی اور لکھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بیراج کا کام ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا جسے اب مکمل کیا جانا چاہیے۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس کی مخالفت کی اور عمر عبداللہ کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے اسے خطرناک حد تک اشتعال انگیز بیان بھی قرار دیا۔
پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر رکھا ہے۔ اب یہ تنازعہ اس معاہدے سے منسلک تلبل پروجیکٹ کے بارے میں ہے۔
عمر عبداللہ نے کیا کہا؟
جمعرات کو عمر عبداللہ نے سوشل میڈیا پر 30 سیکنڈ کی ایک ویڈیو پوسٹ کی۔
انھوں نے لکھا کہ ویڈیو میں جو کچھ دیکھا جا سکتا ہے وہ تلبل نیویگیشن بیراج ہے۔ اس پر کام سنہ 1980 کی دہائیکے اوائل میں شروع ہوا تھا لیکن پاکستان کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے ذریعے دباؤ ڈالنے کے بعد اسے روک دیا گیا تھا۔
’اب جبکہ سندھ طاس معاہدہ ’عارضی طور پر معطل‘ کر دیا گیا ہے تو میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ہم اس منصوبے کو دوبارہ شروع کر سکیں گے۔ اس کی مدد سے ہم دریا جہلم کو استعمال کرسکیں گے۔ اس سے دریا کے نیچے تعمیر کردہ بجلی کے منصوبوں میں بجلی کی پیداوار میں بھی بہتری آئے گی، خاص طور پر سردیوں میں۔‘
محبوبہ مفتی کا اعتراض
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جمعہ کے روز ویڈیو کو ری ٹویٹ کیا اور وزیر اعلی عمر عبداللہ کے بیان کو ’انتہائی افسوسناک‘ قرار دیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے ماحول میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی تلبل نیویگیشن پروجیکٹ پر دوبارہ کام شروع کرنے کی اپیل انتہائی افسوسناک ہے۔‘
’ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ رک گئی ہے، جس سے جموں و کشمیر کے بے گناہ لوگوں کو جانی نقصان، بڑے پیمانے پر تباہی اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ بیان نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ خطرناک حد تک اشتعال انگیز بھی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جموں و کشمیر کے عوام بھی ملک کے کسی بھی فرد کی طرح امن کے حقدار ہیں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’پانی جیسی ضروری اور جان بچانے والی چیز کو ہتھیار بنانا نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ اس سے دوطرفہ مسئلے کو بین الاقوامی مسئلے میں تبدیل کرنے کا خطرہ بھی ہے۔‘
Getty Imagesپاکستان نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر شدید اعتراض کیا ہےسوشل میڈیا پر بحث کا آغاز
لیکن معاملہ ان دو ٹویٹس سے ختم نہیں ہوا، عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کے ٹویٹ کا جواب دیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سستی شہرت اور سرحد پار کے چند لوگوں کو خوش کرنے کی آپ کی اندھی کوشش میں آپ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ جموں و کشمیر کے عوام کے مفادات کے ساتھ تاریخی طور پر سب سے بڑا غداری ہے۔‘
عمر عبداللہ نے لکھا کہ وہ ہمیشہ سے اس معاہدے کے مخالف رہے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ ’کھلے عام اس کی مخالفت جنگی جنون نہیں ہے بلکہیہ ایک تاریخی ناانصافی کا علاج ہے جس نے جموں و کشمیر کے لوگوں سے پانی کے استعمال کے حق کو چھین لیا ہے۔‘
سندھ طاس معاہدے کی معطلی: کیا انڈیا پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟’پانی یا خون‘: سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بلاول بھٹو سمیت پاکستانی سیاستدانوں کی انڈیا کو وارننگ اور مودی کے وزرا کا ردعملسندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئیسندھ طاس معاہدہ: انڈیا اور پاکستان کے درمیان وہ معاہدہ جس سے دونوں ملک چاہ کر بھی نہیں نکل سکتے
عمر عبداللہ کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے محبوبہ مفتی نے عمر عبداللہ کے خاندان کے ایک فرد کا نام لیتے ہوئے لکھا، ’آپ کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کے دادا شیخ صاحب نے اقتدار کھونے کے بعد دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک پاکستان کے ساتھ الحاق کی وکالت کی تھی۔ لیکن وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بحال ہونے کے بعد وہ اچانک انڈیا کے حق میں ہو گئے۔‘
’اس کے برعکس پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے مسلسل اپنے عقیدے اور عزم کو برقرار رکھا ہے۔ یہ آپ کی پارٹی سے مختلف ہے، جس کی وفاداریاں سیاسی سہولت کے مطابق تبدیل ہوئی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنی لگن ظاہر کرنے کے لیے کشیدگی بڑھانے یا جنگی بیان بازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا کام ہی سب کچھ بتاتا ہے۔‘
محبوبہ مفتی کی پوسٹ کے فورا بعد جموں و کشمیر پی ڈی پی (محبوبہ مفتی کی پارٹی) نے اپنے ماہانہ پارٹی میگزین میں جنگ اور پانی کے مسئلے پر بڑے پیمانے پر لکھا۔
اس کی ایک کاپی محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی نے اپنے سرکاری ہینڈل پر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’تلبل نیویگیشن پروجیکٹ اور سرحد پار پانیوں پر کنٹرول کے بارے میں عمر عبداللہ کے تبصرے نہ صرف غلط وقت پر مبنی ہیں بلکہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بھی ہیں۔‘
محبوبہ مفتی کے ٹویٹ، جس میں انھوں نے وزیر اعلی عمر عبداللہ کے دادا کا نام لیا تھا، کا جواب عمر عبداللہ نے دیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’کیا یہ واقعی سب سے بہتر ہے جو آپ کر سکتی ہیں؟ ایک ایسے شخص پر حملے جسے آپ خود کشمیر کا سب سے بڑا لیڈر کہہ چکی ہیں۔‘
عمر عبداللہ نے لکھا کہ ’میں اس گندگی کے ڈھیر سے باہر نکل رہا ہوں جس میں آپ مرحوم مفتی صاحب کا نام اور ’بہت سی دوسری چیزیں‘ شامل کرکے اس بحث کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ جس کے لیے بھی کرنا چاہتی ہیں اس کی وکالت کریں اور میں جموں و کشمیر کے لوگوں کے مفادات کے لئے بولتا رہوں گا تاکہ ہم اپنے فائدے کے لیے اپنے دریاؤں کا استعمال کرسکیں۔ میں پانی دینا بند نہیں کروں گا، بس اپنے لیے اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کروں گا۔‘
اس کے بعد محبوبہ مفتی نے ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ کی جس میں انھوں نے جموں و کشمیر میں چناب وادی کے پروجیکٹوں کے بارے میں لکھا، جس میں نیشنل ہائیڈرو پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی) اور جموں و کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے درمیان صرف 49 فیصد حصص تھے۔ لیکن سنہ 2000 میں جب فاروق عبداللہ وزیر اعلیٰ تھے ان منصوبوں کا پورا حصہ این ایچ پی سی کے ذریعے مرکزی حکومت کو دیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’پی ڈی پی مسلسل نیشنل کانفرنس (عمر عبداللہ کی پارٹی) کی جانب سے سونپے گئے بجلی منصوبوںکی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پی ڈی پی- بی جے پی اتحاد (جو سنہ 2015 میں تشکیل دیا گیا تھا) کے ایجنڈے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ سندھ طاس معاہدے سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لئے جموں و کشمیر کو دو منصوبے واپس کیے جائیں گے۔‘
’میں واضح طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ ہم کبھی بھی اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے حق میں نہیں رہے ہیں۔ اس سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور جموں و کشمیر ایک بار پھرتنازعہ کے مرکز میں آ سکتا ہے۔‘
’پانی جیسے ہمارے وسائل کو ہتھیاروں کے طور پر نہیں بلکہ زندگی کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ اب سندھ طاس معاہدے کی منسوخی جنگ بندی کو پٹری سے اتارنے کا ایک لاپرواہ اقدام ہے۔ عدم استحکام میں اضافہ کسی بھی طرح حب الوطنی نہیں ہے۔‘
Getty Imagesاوڑی کے قریب دریائے جہلم کی ایک تصویرتلبل پروجیکٹ کیا ہے؟
ستمبر سنہ 1960 میں پاکستان کے سابق صدر ایوب خان اور انڈیا کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
اس معاہدے کے تحت سندھ طاس کے تین مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج کا پانی انڈیا کو دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا 80فیصد پانی پاکستان کو دیا گیا۔
سندھ طاس معاہدے کے مطابق انڈیا مشرقی دریاؤں کا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا کو مغربی دریاؤں کا پانی استعمال کرنے کے لیے کچھ محدود حقوق دیے گئے۔ جیسے بجلی پیدا کرنا، زراعت کے لیے محدود پانی۔
انڈیا نے جموں و کشمیر کے بانڈی پورہ میں وولر جھیل سے دریائے جہلم تک پانی کے بہاؤ کو منظم کرنے کے لیے وولر جھیل منصوبے کا آغاز کیا تھا۔
آشوتوش مشرا نے تلبل نیویگیشن پروجیکٹ: اے کیزولٹی آف لنکج پالیٹکس میں لکھا ہے کہ ’انڈیا اسے تلبل نیویگیشن پروجیکٹ کہتا ہے جبکہ پاکستان اسے وولر بیراج پروجیکٹ کہتا ہے۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ جھیل سری نگر سے 13 میل شمال میں دریائے جہلم پر واقع ہے۔ ندی جنوب کی طرف سے جھیل میں مل جاتی ہے اور مغرب کی طرف بہہ جاتی ہے اور جھیل کی وجہ سے پانی کا بہاؤ رک جاتا ہے۔‘
اس بیراج پر کام سنہ 1984 میں شروع کیا گیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد سردیوں کے دوران جھیل سے دریا میں پانی کے بہاؤ کو منظم کرنا ہے۔
BBC
اس منصوبے کے بارے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے۔
اگست سنہ 2006 میں اس پر سیکریٹری سطح کی بات چیت ہوئی۔ حکومتی بیان کے مطابق پاکستان کو یقین تھا کہ اس بیراج میں 300 ملین مکعب میٹر پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے یہ کہہ کر احتجاج کیا کہ انڈیا کو جہلم کے مرکزی دھارے میں اس طرح کی سٹوریج سہولت بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی انڈیا کا کہنا تھا کہ یہ سٹوریج کی سہولت نہیں بلکہ نیوی گیشن سہولت ہے جو پانی کے بہاؤ کو ریگولیٹ کرے گی اور یہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہے۔
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے مطابق معاہدے کے مطابق سیلاب سے بچاؤ کے لیے دس ہزار ایکڑ فٹ تک پانی ذخیرہ کرنے کے لیے دریا پر سٹوریج بنایا جا سکتا ہے تاہم ذخیرہ کرنے کا مقصد پانی رکھنا نہیں ہونا چاہیے۔
سنہ 2011 میں جب اس پر بات ہوئی تھی تو پاکستان نے انڈیا سے کہا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے ذریعے پانی نہ روکا جائے۔ انڈیا نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی تھی۔
بعد ازاں سنہ 2014 میں پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں اس وقت کے آبی وسائل کے وزیر پی وشوناتھ نے کہا تھا کہ ’انڈیا نے تجویز دی تھی کہ اس مسئلے کو سندھ طاس معاہدے کی دفعات کے تحت دو طرفہ طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ تاہم خیر سگالی کے طور پر اس پروجیکٹ پر کام 2 اکتوبر سنہ 1987 سے روک دیا گیا تھا۔‘
سندھ طاس معاہدے کی معطلی: کیا انڈیا پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟کیا دنیا میں پانی کی کمی نئی جنگوں اور تنازعات کو جنم دے رہی ہے؟’یہ ہمارا سات اکتوبر ہے‘: پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ’جنگ کے نعرے‘، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کی گونجسندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئیسندھ طاس معاہدہ: انڈیا اور پاکستان کے درمیان وہ معاہدہ جس سے دونوں ملک چاہ کر بھی نہیں نکل سکتے’پانی یا خون‘: سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بلاول بھٹو سمیت پاکستانی سیاستدانوں کی انڈیا کو وارننگ اور مودی کے وزرا کا ردعمل