’والد ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ بیٹا کبھی بھی دولت اور پیسے کے پیچھے نہ بھاگنا۔ انسانی جان ہر چیز سے زیادہ اہم اور قیمتی ہوتی ہے۔‘ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں قتل ہونے والے ڈاکٹر شیخ محمد محمود کے بیٹے کو آج بھی اپنے والد کے یہ الفاظ یاد ہیں۔
جمعے کو سرگودھا کے معروف احمدی ڈاکٹر شیخ محمد محمود کو فاطمہ ہسپتال میں اپنے کلینک کے سامنے گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
ان کے بیٹے محمد فراز (فرضی نام) اپنے والد کی ایک نصیحت یاد کرتے ہیں کہ ’اگر کبھی کوئی کسی بھی مذہب و نسل سے تعلق رکھنے والا آپ کے پاس کسی مُشکل میں آئے تو جس قدر مُمکن ہو، اُس کی مدد کریں۔‘
سرگودھا پولیس نے یہ مقدمہ نامعلوم فرد کے خلاف درج کیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعے سے جڑی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی گئی ہے تاہم ملزم کی تلاش جاری ہے۔
جماعت احمدیہ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ 1984 سے اب تک 30ویں ڈاکٹر ہیں جنھیں اپنے مذہب کی بنیاد پر قتل کیا گیا ہے۔
پنجاب اور سندھ میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر حملوں میں تیزی: ’یہ ایک منظم مہم لگتی ہے‘پاکستان میں احمدی برادری: ’روز یہ سوچ کر گھر سے نکلتا ہوں کہ شاید آج میری زندگی کا آخری دن ہو‘گوجرانوالہ کے قریب پولیس کی موجودگی میں احمدیوں کی عبادت گاہ کے مینار مسمار کر دیے گئےاحمدی برادری کی مشکلات: ’وہ جو پہلے دوست تھے وہی ہم پر تھوک دیتے‘ملزم کی تلاش کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ
ڈاکٹر شیخ محمد محمود کے بیٹے کی مدعیت میں درج قتل کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’ڈاکٹر شیخ محمد محمود جمعے کے روز 2 بج کر 35 منٹ پر سرگودھا کے فاطمہ ہسپتال پہنچے تو ایک نامعلوم شخص ’صاف ستھرا پنجاب‘ (سکیم) کے یونیفارم میں ویٹنگ روم میں بیٹھا تھا جو ڈاکٹر صاحب کے پیچھے ہسپتال کی راہداری میں گیا۔‘
’گندمی رنگت والے اس نامعلوم شخص کے ہاتھ میں ایک سفید رنگ کا شاپر (پلاسٹک بیگ) تھا جس میں سے اس نے پستول نکالتے ہوئے یہ للکارا کہ آج محمود میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا اور باارادہ قتل ڈاکٹر صاحب پر دو گولیاں چلائیں جو ان کے سینے میں لگیں۔‘
ایف آئی آر میں مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’وہ نامعلوم شخص اسلحہ لہراتا ہوا ہسپتال سے نکلنے میں کامیاب ہوا اور باہر موٹرسائیکل پر دوسرے ساتھی کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔‘
سرگودھا کے تھانہ ساجد شہید کے ایس ایچ او محمد امتیاز کے مطابق اس واقعے کے حوالے سے چھان بین جاری ہے اور اُمید ہے کہ بہت جلد ملزم قانون کی گرفت میں ہوگا۔
سرگودھا میں ڈاکٹر شیخ محمد محمود کے قتل کے حوالے سے ہسپتال میں لگے سکیورٹی کیمرے سے ملنے والی فوٹیج میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کس طرح صاف ستھرا پنجاب کے یونیفارم میں ملبوس ایک فرد ڈاکٹر محمود کے پیچھے اُن کے کلینک کی جانب جاتا ہے۔ وہ فائرنگ کے بعد پستول لہراتا ہوا ہسپتال سے باھر نکال جاتا ہے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ صاف ستھرا پنجاب کے یونیفارم پہنے مبینہ قاتل سفید پلاسٹک کے شاپنگ بیگ میں سے پستول نکال کر آگے بڑھتا ہے۔ اور کُچھ دیر کے بعد ممکنہ طور پر ڈاکٹر محمود کو گولی مارنے کے بعد پستول لابی میں بیٹھے دیگر لوگوں کی جانب تان کر وہاں سے باہر نکل جاتا ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے پی آر او خرم شہزاد کی جانب سے بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ یہ اسی واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اسی سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی مجرم تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اُمید ہے کہ جلد ہی قاتل کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
’ڈاکٹر شیخ محمد محمود کو دھمکیاں مل رہی تھیں‘
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل کی مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر شیخ محمد محمود کو احمدی ہونے کی وجہ سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے مذہبی بنیادوں پر ان کی مخالفت کی جاتی رہی جس کے نتیجے میں انھیں ہسپتال بدلنا پڑا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ ایک ماہ میں یہ تیسرے احمدی ہیں جن کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے۔‘
عامر محمود نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری توجہ دیں اور اور موثر اقدامات کریں ’تاکہ احدمیوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
Getty Imagesجماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں کو ایک طویل عرصہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے
جماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کے مطابق سنہ 2025 میں احمدیوں کے خلاف 17 مقدمات درج ہوئے ہیں اور 115 نامزد احمدیوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی گئی۔
اُن کا کہنا ہے کہ سنہ 1984 کے امتیازی قوانین کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر 291 احمدیوں کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے جن میں 30 ڈاکٹرز شامل ہیں۔
جماعت احمدیہ کی جانب سے فراہم کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق ’گزشتہ سال 2024 میں 41 مقدمات اور ڈیٹینشن آرڈرز کے تحت 97 احمدیوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی گئی۔‘
جماعت احمدیہ کے ترجمان نے بتایا کہ ’مارچ میں پاکستان کے ہیومن رائٹس کامیشن نے کہا تھا کہ انھوں نے مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہجوم کے حملوں میں بڑھتے ہوئے رجحان کی نشاندہی کی گئی تھی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ’گزشتہ ماہ پنجاب کے ضلع قصور میں ایک احمدی شخص کے مبینہ قتل اور دوسرے کو زخمی کرنے کے الزام میں دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔‘
’اس سے قبل اپریل میں ایک 46 سالہ تاجر کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ جب ایک مذہبی سیاسی جماعت کے چند سو حامیوں نے کراچی کے علاقے صدر میں احمدی برادری کی عبادت گاہ پر دھاوا بول دیا تھا تاکہ اسے مذہبی رسومات ادا کرنے سے روکا جا سکے۔‘
Getty Imagesگذشتہ 49 سال کے دوران بہت سے احمدیوں کو صرف ان کی مذہبی عقائد کی بنیاد پر قتل کیا گیا (علامتی تصویر) ڈاکٹر شیخ محمد محمود کون تھے؟
ڈاکٹر شیخ محمد محمود ماہر امراضِ معدہ تھے اور گذشتہ 31 سال سے لوگوں کی خدمت کر رہے تھے۔
ڈاکٹر شیخ محمد محمود کا شمار سرگودھا کے سب سے تجربہ کار ڈاکٹروں میں ہوتا تھا۔ اپنے تجربے اور مرض کی جلد تشخیص کی وجہ سے وہ ایک نام رکھتے تھے اور جس ہسپتال میں انھیں جمعہ کے روز قتل کیا گیا اُس سے قبل وہ سرگودھا کے صادق ہسپتال میں خدمات انجام دے چکے تھے۔
ڈاکٹر شیخ محمد محمود کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ضرورت مند پسماندہ مریضوں کو مفت علاج فراہم کرنے کے لیے جانے جاتے تھے۔
ڈاکٹر شیخ محمد محمود کے قریبی ساتھی نصیر احمد (فرضی نام) نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹر صاحب ایک مسیحا تھے، اُن کے پاس آنے والے مریض اگر اُن سے کہہ دیتے کہ ہمارے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں تو اُن کی مدد کرتے۔‘
’جمعہ کے روز ایک قاتل نے یہاں کے لوگوں سے ایک مسیحا چھین لیا۔‘
نصیر احمد کا کہنا کہ ’مذہب کی وجہ سے انھیں دھمکیاں ملنے کا سلسلہ جاری تھا۔ مگر وہ اپنے کام یعنی لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتے۔ ایک ہسپتال میں مخالفت ہوئی تو جگہ چھوڑ دی مگر لوگوں کی خدمت کا جزبہ کم نہیں ہوا۔‘
’ریاست اب ان کارروائیوں میں ملوث افراد کے ہاتھ روکنے میں ناکام ہو رہی ہے‘
ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کے چئیرپرسن اسد اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جمعہ کے روز ایک نامور احمدی ڈاکٹر کے قتل کی جتنی بھی مزمت کی جائے وہ کم ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ایچ آر سی پی کی جانب سے پاکستان کی وزارتِ داخلہ کو بھی اس حوالے سے لکھا گیا ہے کہ احمدیہ برادری کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں اضافے پر فوری طور پر اداروں کو احکامات جاری کیے جائیں اور انھیں روک کر احمدیوں کی جان و مال کو محفوظ بنایا جائے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’عبادت کرنے سے کسی کو روکنا انتہائی قابلِ مزمت ہے۔ جس بات کی اجازت آئینِ پاکستان دیتا ہے اُس سے روکنا ایک جُرم ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ریاست اب ان کارروائیوں میں ملوث افراد کے ہاتھ روکنے میں ناکام ہو رہی ہے۔‘
ایچ آر سی پی کی ڈائریکٹر فرح ضیا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لگتا ہے کہ ریاست کی جانب سے ایسے گروہوں کو ان کارروائیوں کی کُھلی چھوٹ دی دی گئی ہے۔‘
’اب ایسا ہونے لگا ہے کہ احمدیوں کو عبادت سے روکا جا رہا ہے، اُن کی قبروں کی بے حرمتی کی جاتی ہے مساجد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ریاست اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’آئینِ پاکستان جو احمدیوں کو حق دیتا ہے وہ انھیں نہیں مل رہے اُن کے لیے حالات اور زندگی تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے۔‘
پاکستان میں احمدی برادری کی کم ہوتی آبادی: ’پڑوسی کہتے کہ اِن سے بات مت کریں ورنہ منھ پلید ہو جائے گا‘احمدی برادری کی مشکلات: ’وہ جو پہلے دوست تھے وہی ہم پر تھوک دیتے‘گوجرانوالہ کے قریب پولیس کی موجودگی میں احمدیوں کی عبادت گاہ کے مینار مسمار کر دیے گئےپنجاب اور سندھ میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر حملوں میں تیزی: ’یہ ایک منظم مہم لگتی ہے‘پاکستان میں احمدی برادری: ’روز یہ سوچ کر گھر سے نکلتا ہوں کہ شاید آج میری زندگی کا آخری دن ہو‘