’لاتعلقی کے بعد ثالثی‘: ’ڈیل میکر‘ ٹرمپ انڈیا اور پاکستان سے کیا چاہتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 16, 2025

Getty Images

سیاسی، سفارتی اور عسکری اعتبار سے جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک انڈیا اور پاکستان کے لیے گذشتہ تین ہفتے بہت ہنگامہ خیز رہے ہیں۔

22 اپریل کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح افراد کے حملے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت، انڈیا کی جانب سے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں فضائی حملے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان چار روز تک جاری رہنے والی فضائی جھڑپوں اور گولہ باری نے خطے کو ایک خطرناک تنازع کے دہانے لا کھڑا کیا تھا۔

10 مئی کی صبح تک دونوں ملک ایک دوسرے کی عسکری ایئر بیسز پر میزائل حملوں کے دعوے کر چکی تھے اور یہ تناؤ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ دونوں ملک ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے اور حریف کے حملے ناکام بنانے کے دعوے بھی کر رہے تھے۔

پھر اچانک 10 مئی کی دوپہر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے دونوں ممالک کے سیزفائر کا اعلان کیا۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ امریکی ثالثی میں انڈیا اور پاکستان چار دن کی شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد ’مکمل اور فوری جنگ بندی‘ پر رضامند ہو گئے ہیں۔

بعدازاں ایک اور پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر کام کروں گا تاکہ کشمیر کے معاملے کا کوئی حل نکالا جا سکے۔‘ محض 15 دن روز قبل ہی انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو ٹرمپ نے ’ان کا آپس کا معاملہ‘ قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ 25 اپریل کو پہلگام حملے کے بعد جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کی صورت اختیار کی تھی تو اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ممالک ’تناؤ کو خود حل کر لیں گے۔‘

اسی طرح امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے 30 اپریل کو پاکستان اور انڈیا سے رابطہ کرتے ہوئے ’پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ اس سفاکانہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کریں۔‘

امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے پہلے یکم مئی کو فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ انڈیا اس دہشت گرد حملے کا جواب اس طرح دے گا جس سے وسیع تر علاقائی تنازعہ پیدا نہ ہو۔‘

جبکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے دوران نو مئی کو دیے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ انڈیا اور پاکستان کے جاری تنازع میں مداخلت نہیں کرے گا کیونکہ ’بنیادی طور پر ہمارا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہم انڈیا اور پاکستان کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اپنے ہتھیار ڈال دیں۔‘

Getty Imagesامریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس

مگر پھر دس مئی کی دوپہر کو یکایک سب کچھ بدل گیا، پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی اور سیز فائر کروانے کا کریڈٹ لیا تو بعد میں انھوں نے پاکستان اور انڈیا سے تجارت کرنے کی بات کی۔ اپنے بیان میں انھوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کا بھی ذکر کر ڈالا۔

انڈیا میں سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے امریکی صدر کے بیان کو انڈیا کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا۔ مگر امریکی صدر ٹرمپ سعودی عرب میں ہوں، شام کے دورے پر یا متحدہ عرب امارات میں، انھوں نے متعدد بار پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کروانے کا کریڈٹ لیا ہے۔

پہلے 12 مئی کو وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ’سنیچر کو میری حکومت نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوری اور مکمل سیز فائر کے لیے ثالثی کی۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک مستقل سیز فائر ہے۔ اس سے دو ایٹمی طاقتوں کے بیچ ایک خطرناک لڑائی کا خاتمہ ہوا۔‘

ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے تجارت اور ٹیرف کے ذریعے اس تنازع میں کلیدی کردار ادا کیا۔

کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش نے انڈیا کو مشکل میں ڈال دیا ہےامریکہ، سفارتی بیک چینل رابطے اور خطے کے بڑے کھلاڑی: جنگ کے دہانے پر کھڑی دو جوہری طاقتوں کو سیزفائر پر کیسے رضامند کیا گیا88 گھنٹوں کی خوفناک کشیدگی اور اچانک سیزفائر: پاکستان اور انڈیا کے ایک دوسرے پر میزائل حملوں کے بعد آگے کیا ہوگا؟جوہری توانائی ایجنسی کی پاکستان میں تابکاری کے اخراج کی تردید: انڈیا میں زیر گردش افواہوں کی حقیقت کیا ہے؟

اور پھر 14 مئی کو سعودی عرب کے دورے پر بھی انھوں نے ایک بار پھر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروانے پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے، ممکن ہے امریکہ ان ممالک کے لیڈروں کو ایک جگہ جمع کر لے۔‘

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’دونوں ملکوں کی قیادت سے کہا کہ آئیں ڈیل کریں، کچھ تجارت کی جائے۔ نیوکلیئر میزائل نہ چلائیں، ان چیزوں کی تجارت کریں جو آپ بہت عمدہ بناتے ہیں۔‘

جبکہ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹر کے مطابق 15 مئی کو بھی دوحہ میں ٹرمپ نے امریکی فوجیوں سے ایک عسکری اڈے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑائی ختم ہو گئی ہے، دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ جنگ کے بجائے تجارت پر توجہ دیں جس پر دونوں ممالک خوش ہیں۔

اس اچانک بدلتی صورتحال اور امریکہ کی جانب سے انڈیا اور پاکستان کے تنازعے میں لاتعلقی سے تجارت اور ایک ساتھ میز پر بٹھانے تک کے بیانات کو دنیا بھر کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں بہت قریب سے دیکھا جا رہا ہے۔

امریکی صدر دو روایتی حریفوں کو ایک ممکنہ ایٹمی تنازعے سے تجارت کے معاملات پر بات کرنے تک لانے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نے اس تحریر میں مختلف مبصرین اور تجزیہ کاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ٹرمپ کے بیانات کتنے اہم ہیں اور امریکی صدر پاکستان اور انڈیا سے کیا چاہتے ہیں؟

Getty Imagesصدر ٹرمپ نے کہا کہ ’دونوں ملکوں کی قیادت سے کہا کہ آئیں ڈیل کریں‘ٹرمپ انڈیا اور پاکستان سے کیا چاہتے ہیں؟

واشنگٹن میں مقیم تجزیہ کار مائیکل گوگلمین اس بارے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا اور پاکستان کے معاملات پر دیا جانے والا ہر بیان اہم ہے کیونکہ وہ امریکی صدر ہیں۔

تاہم گوگلمین یہ بھی کہتے ہیں کہ ’صدر ٹرمپ کے تبصروں کے بیانات کو بڑھا چڑھا کر دیکھنا بھی درست نہیں ہوگا کیونکہ یہ بظاہر باقاعدہ پالیسی کا حصہ نہیں لگتے۔‘

مائیکل کوگلمین مزید کہتے ہیں کہ ٹرمپ خود کو ’ڈیل میکر‘ گردانتے ہیں اور اسی لیے پاکستان انڈیا کے درمیان تناؤ کو کم کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

’پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات کی بہتری امریکہ کا کوئی نیا مقصد نہیں ہے۔ واشنگٹن ہمیشہ سے اصولی طور پر نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔‘

تاہم مائیکل کوگلمین کے مطابق ’فریقین اس وقت تک بات چیت تک اتفاق نہیں کریں گے جب تک توجہ دوسرے فریق کے زیرِ انتظام کشمیر پر مرکوز ہو اور اسی سبب بات چیت شروع کرنا ایک مسئلہ ہوگا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں شاید دیگر معاملات پر بات چیت کی گنجائش ہو لیکن موجودہ سفارتی ماحول کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ایسا ممکن ہے۔‘

سٹمسن سینٹر سے منسلک ریسرچ تجزیہ کار زیبا فضلی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی ’ڈیل میکنگ (بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی) صلاحیتوں پر بہت ناز ہے اور وہ خارجہ پالیسی اور تنازعات کے حل کے لیے اپنی اسی سوچ کو آگے رکھتے ہیں۔‘

پاکستان اور انڈیا کے ساتھ تجارت سے متعلق سعودی عرب میں ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے تبصرے پر زیبا فضلی کا کہنا تھا کہ ’ایسے تبصرے انڈیا اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش ضرور ہیں لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ موجودہ معاشی ماحول میں امریکہ اور پاکستان اور امریکہ اور انڈیا کے درمیان تجارت کتنی بڑھتی ہے اور کن مصنوعات پر بات چیت ہوتی ہے۔‘

Getty Images’امریکہ انڈیا کے لیے ان اقدامات کو ضروری سمجھتا ہے تاکہ خطے میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکی صدر پاکستان اور انڈیا سے کیا چاہتے ہیں تو زیبا فضلی کا کہنا تھا کہ ’کچھ دن قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں لاکھوں لوگ مر سکتے تھے، اس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر دونوں ممالک کے درمیان کسی جوہری جنگ کو لے کر خدشات کا شکار تھے۔‘

’انڈیا اور امریکہ کے تعلقات گذشتہ کئی برسوں سے قریب ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ میں دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون اور تجارت بڑھی تھی۔ امریکہ انڈیا کے لیے ان اقدامات کو ضروری سمجھتا ہے تاکہ خطے میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔‘

زیبا فضلی مزید کہتی ہیں کہ ’چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انڈیا پاکستان کے ساتھ کسی تنازع کا شکار نہیں ہو۔‘

سٹمسن سینٹر کی ریسرچ اینلسٹ کے مطابق افغانستان سے فوج کے انخلا کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔

’انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری بحران میں ثالثی سے متعلق تبصروں کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں اب بھی دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ ثالثی کی پیشکش سے خطے میں یہی تاثر بن رہا ہے کہ ثالثی کی پیشکش انڈیا سے زیادہ پاکستان کے کشمیر سے متعلق تاریخی موقف کے قریب ہے۔‘

زیبا فضلی مزید کہتی ہیں کہ ’ٹرمپ کی اس پیشکش کے سبب انڈیا کی پالیسی اسٹیبلشمنٹ میں اس طبقے کے خدشات میں مزید سختی آئے گی جو امریکہ اور انڈیا کی شراکت داری اور انڈیا کے امریکہ پر انحصار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔‘

Getty Images

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی مدیحہ افضل نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں صدر ٹرمپ کے بیانات انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا کریڈٹ لینے اور عمومی طور پر امن معاہدہ کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں بھی کشمیر تنازع کو حل کرنے کی بات کی تھی جس کی انڈیا نے حمایت نہیں کی تھی۔ جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہوئے، ٹرمپ نے انڈین اور پاکستانی دونوں رہنماؤں کی تعریف کی ہے، اور دونوں ممالک کے بارے میں برابری کی بنیاد پر بات کی ہے، جس نے انڈیا کو ناراض کیا ہے اور پاکستان کو خوش۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ اس لیے اہم ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ انڈیا تعلقات پاکستان امریکہ تعلقات کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہوئے ہیں۔‘

جبکہ بین الاقوامی امور کی ماہر سواستی راؤ نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں کہا ہے کہ ’صدر ٹرمپ ہمیشہ ڈیل کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں، اس لیے ان کی خارجہ پالیسی کنفیوژن سے بھری ہوئی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ٹرمپ کو تاریخ کی بہت کم سمجھ ہے۔ روس یوکرین جنگ، ایران ڈیل، مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے لے کر انڈیا پاکستان تنازع تک، وہ سودے کر کے کریڈٹ لینے کی دوڑ میں ہیں۔ وہ نوبل انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘

پاک انڈیا تنازع پر ٹرمپ کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے سواستی راؤ کا کہنا ہے کہ ’صرف امریکہ ہی نہیں، بلکہ سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک پس پردہ ثالثی کی کوشش کر رہے تھے، لیکن اس معاملے میں ٹرمپ نے سفارتی لکیر کو عبور کیا ہے جسے عبور نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس سے اتحادیوں کے درمیان اعتماد کم ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اچانک ٹرمپ نے یوکرین کو دی جانے والی امداد کو کچھ دنوں کے لیے روک دیا۔ اس سے یورپی ممالک کو دھچکا لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان ممالک نے اپنی فوجیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’صدر ٹرمپ نے توازن میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔ آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ دوستوں اور دشمنوں کو کیا کہیں گے۔‘

دوسری طرف ’دی امیج انڈیا انسٹی ٹیوٹ‘ کے صدر رابیندرا سچدیو یہ نہیں مانتے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کنفیوژن سے بھری ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ سے پہلے امریکہ کا تجارتی ٹیرف کا حجم اوسطاً 2.5 فیصد کے قریب تھا۔ جب کہ انڈیا کا 12 فیصد، چین اور یورپی یونین کا آٹھ فیصد کے قریب تھا۔ انھوں نے اسے 2.5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کر دیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ٹیرف پر لچک دکھاتے ہیں لیکن یہ امریکہ کے فائدے میں ہے۔‘

سچدیو کا مزید کہنا ہے کہ ’یوکرین کی فوجی امداد روکنے کی دھمکیاں دی گئیں، بہت ہنگامہ ہوا اور آخر دیکھیں کیا ہوا، ٹرمپ نے یوکرین کے ساتھ بہت بڑا معدنیات کا سودا کیا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ان تمام باتوں کے درمیان وہ امریکہ کے لیے کس طرح کام کر رہے ہیں۔‘

رابیندرا سچدیو کا ماننا ہے کہ ’ہمیں ٹرمپ کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان پر نہیں جانا چاہیے۔ ہمیں امریکہ اور ٹرمپ کو دیکھنے کے لیے اپنی عینک بدلنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ امریکہ کے صدر کی طاقت کی نئی تعریف کر رہے ہیں اور انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ دوسرے کیا سوچتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ ایک سپر پاور ہے۔‘

کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش نے انڈیا کو مشکل میں ڈال دیا ہےامریکہ، سفارتی بیک چینل رابطے اور خطے کے بڑے کھلاڑی: جنگ کے دہانے پر کھڑی دو جوہری طاقتوں کو سیزفائر پر کیسے رضامند کیا گیاٹرمپ کی ’پنچایت‘ پر پاکستانیوں کو خوشی مگر انڈینز کا سوال: ’امریکی صدر نے مداخلت کیوں کی؟‘کوششوں کے باوجود انڈیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے قرض کی قسط جاری کرنے سے کیوں نہیں روک پایا؟الیکٹرانک سگنیچر: انڈیا اور پاکستان کے ایک دوسرے کی سرحدی حدود میں طیارے مار گرانے کے دعوؤں کی تصدیق کیسے ممکن ہے؟’امریکی ثالثی‘ اور ڈی جی ایم اوز کی گفتگو: پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’سیز فائر‘ کا نفاذ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More