پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگ بندی صرف اس وقت ممکن ہوئی جب انہوں نے دونوں ممالک کو پیغام دیا کہ امریکہ ان سے تجارت کرنے کو تیار ہے، بشرطیکہ وہ جنگ ختم کریں۔
صدر ٹرمپ کے بقول ’شروع میں سیز فائر کا کہا تو دونوں ممالک پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے، میں نے کہا ہم تمہارے ساتھ خوب تجارت کریں گے لیکن پہلے یہ سب بند کرو، اگر تم یہ بند کرتے ہو تو ہم تجارت کریں گے، اگر نہیں کرتے، تو کوئی تجارت نہیں ہوگی۔ لوگوں نے تجارت کو کبھی اس انداز میں استعمال نہیں کیا جس طرح میں نے کیا۔‘
ابتدائی طور پر پاکستان اور انڈیا دونوں نے امریکہ کے اعلان کردہ جنگ بندی کی تصدیق کی۔ پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کے کردار کو سراہا گیا، تاہم ’تجارت کے ذریعے امن‘ کے بیان پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
البتہ امریکی صدر نے بعد ازاں بار بار اپنی اس حکمت عملی کا ذکر کیا۔ جسے عالمی تجزیہ کاروں نے ایک نئی طرز کی ’تجارتی سفارت کاری‘ قرار دیا ہے۔
اس تناظر میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ کیا امریکہ کے ساتھ تجارت بڑھا کر نہ صرف اقتصادی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی خود کو مضبوط پوزیشن میں لایا جا سکتا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اپنی معاشی، قانونی اور انتظامی اصلاحات پر توجہ دے تو امریکی منڈی میں اپنی مصنوعات کو بہتر انداز میں فروخت کر سکتا ہے۔ خاص طور پر زرعی اجناس، آئی ٹی خدمات اور معدنی وسائل کے شعبوں میں پاکستان کے پاس امریکہ کے ساتھ شراکت داری کے بڑے امکانات موجود ہیں۔
سال 2024 میں پاکستان انڈیا کے درمیان تجارتی حجم 7.3 ارب ڈالر تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ کے مطابق پاکستان امریکی برآمدات کو دوگنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے خاص طور پر آئی ٹی، زراعت، اور منرل سیکٹر میں۔
تاہم، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے امریکی تجارتی اشاروں کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو وہ مواقع ضائع ہو سکتے ہیں جو عالمی منڈی میں جگہ بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات پہلے ہی مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔ سال 2024 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 7.3 ارب ڈالر تک پہنچا، جس میں پاکستان کی برآمدات 5.1 ارب ڈالر اور درآمدات 2.1 ارب ڈالر رہیں۔
وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2024-25 میں جولائی تا مارچ کے دوران پاکستان اور امریکہ کے مابین دوطرفہ تجارت کا حجم 5.53 ارب امریکی ڈالر رہا، جس میں پاکستان کی جانب سے امریکہ کو برآمدات کا حجم 4.34 ارب ڈالر جبکہ امریکہ سے درآمدات کا حجم 1.19 ارب ڈالر رہا۔
اس طرح پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تجارت میں 3.15 ارب ڈالر کا تجارتی فائدہ حاصل ہوا۔
دوسری جانب امریکی حکومت کی جانب سے ٹیرف یعنی درآمدی محصولات کی پالیسی میں بار بار تبدیلیوں نے دنیا بھر کے برآمد کنندگان کو متوجہ کر رکھا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل رہا جنہیں امریکی ٹیرف پالیسی سے نقصان کا اندیشہ تھا۔
تاہم حالیہ مہینوں میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان پر عائد اضافی ٹیرف تین ماہ کے لیے معطل کر دیے ہیں، جس سے وقتی ریلیف ضرور ملا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ رعایت مستقل ہوگی یا نہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار دن لڑائی جاری رہنے کے بعد جنگ بندی ممکن ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی
وفاقی وزیر تجارت جام کمال نے اردو نیوز سے گفتگو میں تصدیق کی کہ امریکی صدر کے امن اور تجارت سے متعلق بیانات کے بعد صورتحال نے نیا رخ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی توازن بہتر بنانے کے لیے پاکستان کو اپنی درآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔
اُن کے مطابق امریکی ٹیرف کے تعین کے لیے جو فارمولا استعمال ہوتا ہے، وہ کسی بھی ملک کے ساتھ امریکہ کے تجارتی خسارے کو مدنظر رکھتا ہے۔ چنانچہ اگر پاکستان امریکہ سے مزید مصنوعات درآمد کرے تو ٹیرف کی شرح میں خود بخود کمی آ سکتی ہے۔
وزارت تجارت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے جام کمال نے بتایا کہ اگر پاکستان امریکہ سے اپنی درآمدات میں 50 کروڑ ڈالر کا اضافہ کرے تو امریکی ٹیرف کی شرح 30 فیصد سے کم ہو کر 26 فیصد تک آ سکتی ہے جبکہ درآمدات میں 1 ارب ڈالر کا اضافہ اسے 21 فیصد تک لے جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق یہ محض تجارتی فائدہ نہیں بلکہ سفارتی طور پر بھی پاکستان کے لیے ایک پائیدار شراکت داری کی راہ ہموار کرے گا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر پاکستانی مصنوعات پر عائد ٹیرف کی شرح خطے کے دیگر ممالک جیسے چین، ویتنام یا بنگلہ دیش کے مقابلے میں بہتر ہو جائے تو پاکستان کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے حکومت نے وزیراعظم کی منظوری سے ایک اعلیٰ سطحی تکنیکی وفد کی امریکہ روانگی کی تیاری شروع کر دی ہے تاکہ متعلقہ امریکی حکام سے براہ راست بات چیت کر کے برآمدات کے لیے بہتر مواقع حاصل کیے جا سکیں۔
انڈیا نے صدر ٹرمپ کے تجارت کی پیشکش کے دعووں کو مسترد کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
صدر ٹرمپ کی ’تجارت کے ذریعے امن‘ کی حکمت عملی نے ایک نئے عالمی بیانیے کو جنم دیا ہے جس میں معاشی مفاد اور سفارتی استحکام کو باہم جوڑا گیا ہے۔
پاکستان اگر اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائے تو یہ نہ صرف اس کی برآمدی معیشت کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا بلکہ جنوبی ایشیائی خطے میں اس کی سیاسی ساکھ کو بھی مستحکم کر سکتا ہے۔