عید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایا

بی بی سی اردو  |  May 12, 2025

یہ 10 اپریل 1959 عیدالفطر کا دن تھا اور وقت تھا صبح ساڑھے سات بجے۔

ملٹری ڈسپلن میں عموماً تہواروں کے موقع پر فوجی تنصیبات پر زیادہ تر ایسے جونیئر افسران تعینات ہوتے ہیں جو غیر شادی شدہ ہوں۔

سرگودھا کنٹونمنٹ کے سیکٹر آپریشنز سینٹر میں ڈیوٹی پر مامور رڈار آپریٹر رب نواز (پائلٹ آفیسر) کو توقع تھی کہ عید کی نماز پڑھ کر اُن کے ساتھی مبارک باد دینے آئیں گے۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے انھیں انڈیا کے ’درانداز‘ طیارے کی پاکستانی فضائی حدود میں موجودگی کا اشارہ مل گیا۔

راڈار دوسری جنگ عظیم کے وقت کے پرانے ماڈل کا تھا لیکن اس پر غیر معمولی سگنلز دیکھ کر رب نواز ایک لمحے کے لیے بلکل بھول گئے کہ دشمن کی طرف سے آج کا دن کسی بھی فوجی ایڈونچر کے لیے غیر اہم ہوسکتا ہے۔

ڈرل اور ٹریننگ میں بتائے گئے اصولوں کے مطابق انھوں نے فوراً ایئر ڈیفنس الرٹ پر مامور پاک فضائیہ کی 15 نمبر سکواڈرن سے ریڈیو کے زریعے رابطہ کیا جو آج بھی کوبرا کے نام سے مشہور ہے۔

سکواڈرن میں پہلے سے الرٹ دو فائٹر پائلٹ، سکواڈرن لیڈر نصیر بٹ (فارمیشن لیڈر) اور فلائٹ لیفٹیننٹ محمد یونس (ونگ مین) بجلی کی تیزی سے لپکے اور پشاور ایئر بیس سے اپنے F-86 سیبر انٹرسیپٹر طیارے لے کر فضا میں بلند ہوئے۔

یہ سیبر طیارے پاکستان کو امریکہ نے کچھ عرصہ پہلے دیے تھے اور اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ دونوں ممالک اس وقت سرد جنگ کے دور کے اتحاد CENTO (سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) کے رکن تھے جس کا مقصد سوویت یونین (روس) کی توسیع پسند پالیسیوں کو روکنا تھا۔

ایک طرف پاکستان کے شہرعید کی تیاریوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف انڈین ایئر فورس (آئی اے ایف) کی 106 سکواڈرن سے تعلق رکھنے والے انڈین پائلٹ ’سکواڈرن لیڈر جگدیش چندرا سین گپتا‘ اور نیویگیٹر ’فلائٹ لیفٹیننٹ ستندر ناتھ رامپال‘ اجمیر کی فضائی بیس سے برطانوی ساختہ دو رولس رائس انجنوں والے انڈین جاسوس جیٹ طیارے کینبرا PR57 میں اڑان بھر رہے تھے۔

یہ جاسوس طیارہ کچھ عرصہ پہلے ہی برطانیہ سے انڈیا پہنچا تھا جس کا سیریل نمبر71591 تھا۔

1957 میں جب انڈین فضائیہ کو اپنے B-24 لبرئیٹر بمباروں کے لیے ایک جدید متبادل کی تلاش تھی تو اس نے ’کینبرا‘ کا انتخاب کیا۔

اس لحاظ سے یہ اُس وقت انڈین فضائیہ کے جدید بمبار طیاروں میں سے ایک تھا۔

طیارے میں سوار پائلٹ کی منزل پاکستان میں صوبہ پنجاب اور مقصد لاہور اور راولپنڈی کے درمیان سٹریٹجک مقامات کی تصاویر لینا تھا۔

یہ وہی وقت تھا جب عام لوگوں کی طرح پاک فضائیہ کے بیشتر سینئیر افسران بھی نماز عید کی تیاریوں میں مصروف تھے اور جو نماز سے فارغ ہوچکے تھے وہ دوست احباب کے ساتھ عید مل رہے تھے۔

بہرحال یہ سب کچھ منٹوں نہیں بلکہ سکینڈوں میں ہوا، رڈار پر مامور رب نواز کی نظر انڈین جاسوس طیارے پر جمی رہیں اور وہ متعلقہ سورسز کو ہر لمحے کی صورتحال سے آگاہ کرتے رہے۔

انڈین جاسوس طیارہ 50 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ یہ بلندی سیبر طیاروں کی آپریشنل حد سے باہر تصور کی جاتی تھی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی طیاروں نے کلرکہار کی پہاڑیوں سے دشمن طیارے کا تعاقب کرنا شروع کیا اور سگنلز بھیج کر اُسے گجرات میں ہنگامی لینڈنگ کرنے کا ایک سے زائد بار حکم دیا۔

تاہم جس وقت انڈین پائلٹ کو یہ سگنل ملے، انھوں نے غالباً یہ سوچ کر سگنلز نظر انداز کردیے کہ سیبر طیارے جتنا بھی زور لگالیں، اتنی بلندی پر اُن کی دسترس سے باہر ہی رہیں گے۔

ایسے میں سکواڈرن لیڈر نصیر بٹ نے کنٹرول ٹاور سے وارننگ شاٹس فائر کرنے کی اجازت طلب کی۔ چونکہ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ہائی کمان اور سینئر افسران دستیاب نہیں تھے لہذا رب نواز نے اپنے طور پر اجازت دے دی تاکہ تاخیر نہ ہوجائے۔

لیکن ساتھ ہی انھوں نے ایک دستیاب سینئر افسر کو صورتحال کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔

سکواڈرن لیڈرنصیر بٹ رب نواز کی جانب سے ہدایت ملنے کے بعد پوری طرح تیار ہوگئے۔

انھوں نے اپنے طیارے پر نصب ایم 3 براؤننگ مشین گن کے استعمال کا ارادہ کیا تاکہ جاسوس طیارے کو وارننگ شاٹس دے سکیں، مگر کینبرا اتنی زیادہ بلندی پر تھا کہ انھیں ابتدائی طور پر یہ کوشش رائیگاں جاتی محسوس ہوئی۔

انڈیا کے اس وقت کے وزیر دفاع وی کے کرشنا مینن نے الزام لگایا تھا پاکستانی سیبر طیاروں نے کسی موقع پر بھی انڈین جاسوس طیارے کو وارننگ نہیں دی تھی جبکہ پاکستانی فضائیہ اس کی تردید کرتی رہی ہے۔

انڈیا کے طیارے میں سوار سکواڈرن لیڈر چندرا سین گپتا اور نیویگیٹر رامپال کو غالباً اس بات کا علم ہی نہیں ہوا کہ سیبر طیارے ان کے تعاقب میں نسبتاً زیادہ اونچائی پر آگئے ہیں۔

لہذا انھوں نے شمال کی طرف راولپنڈی کے قریب راوت کے اوپر اپنی پرواز جاری رکھی۔

واضح رہے کہ 1949 میں انڈین فضائیہ میں کمیشن ملنے کے بعد سکواڈرن لیڈر جگدیش چندرا سین گپتا سینئیر فلائنگ انسٹرکٹر بھی رہے ہیں۔

عام طور پر اتنے سینیئر افسر سے یوں حالات پر سے اپنی گرفت اتنی جلدی کھودینے کی توقع نہیں کی جاتی لیکن شاید یہ دن اُن کا تھا ہی نہیں۔

فلائٹ لیفٹیننٹ یونس نے خود کو دشمن کی نظر میں لانے کے مقصد سے مزید بلندی پر جانے کی کوشش کی۔

ان کا خیال تھا کہ انڈین پائلٹ انھیں اپنے درمیان پا کر مشرقی سمت میں مڑ جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چند لمحوں بعد جیسے ہی انڈین پائلٹ کی نظر بائیں طرف یونس کے طیارے پر پڑی، انھوں نے گھبراہٹ میں طیارے کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کی جس سے طیارہ ڈگمگایا اور اس کی بلندی میں یکایک کمی آنے لگی

ایک موقع ایسا بھی آیا جب انڈین جاسوس طیارے اور پاکستانی سیبرز کے درمیان بلندی کے حساب سے بہت کم فاصلہ رہ گیا۔ اسی دوران سکواڈرن لیڈر نصیر بٹ نے بھی دائیں طرف سے انڈین طیارے کو آ لیا۔

پاکستانی فضائیہ کے گروپ کیپٹن محمد بہرونی پاکستان آرمڈ فورسز کے مجلے ’ہلال‘ میں لکھتے ہیں کہ اس صورتحال میں انڈین پائلٹ کے ہاتھ پیر پھول گئے اور انھوں نے جو سب سے بڑی غلطی کی وہ یہ کہ خود کو دونوں پاکستانی طیاروں کے درمیان میں پا کر گھبراہٹ میں طیارے کو ایک زاویے کے ساتھ موڑا جس سے طیارہ تیزی سے بلندی کھوتے ہوئے نیچے کی طرف جھکنے لگا۔

ایسے میں فلائٹ لیفٹیننٹ محمد یونس نے موقع غنیمت جانا اور اپنے طیارے پر نصب مشین گن سے تقریباً 47,500 فٹ کی بلندی پر گولیوں کا ایک برسٹ فائر کیا جو جاکر سیدھا کینبرا کے دائیں انجن میں لگا۔

اس کے ساتھ ہی طیارے میں آگ بھڑک اٹھی اور وہ زمین کی طرف آتے ہوئے لٹّو کی طرح گھومنے لگا اور چند لمحوں بعد راوت کے قریب گر کر آگ کے شعلوں میں تبدیل ہوگیا۔

انڈیا میں دفاعی اور عسکری واقعات کا ریکارڈ مرتب کرنے والی ایک نجی ویب سائٹ بھارت رکشک کے مطابق جس وقت طیارہ قابو سے باہر ہوا سین گپتا نے رامپال کو پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانے کا حکم دیا، جس پر نیویگیٹر نے ایمرجنسی ہچ کھولنے والی شیلڈ کو کھینچا اور طیارے سے کود گیا۔

سین گپتا نے بھی تباہی سے چند لمحے پہلے ایجیکٹ کیا لیکن کاک پٹ کے ڈیش بورڈ سے ٹکرانے کے باعث ان کی دونوں ٹانگیں فریکچر ہوگئیں۔

پیراشوٹ کی لینڈنگ سے سین گپتا ایک کھائی میں گرے اور تکلیف کے عالم میں ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہوگئے جبکہ رامپال کے پیراشوٹ نے ایک مقامی گاؤں میں لینڈنگ کی۔ دونوں کو بعد ازاں پاکستانی حکام نے گرفتار کر لیا اور تحقیقات کے مقصد سے اپنے ساتھ لے گئے۔

انڈین میڈیا ادارے دی پرنٹ میں دفاع، سٹریٹجک امور اور خارجہ پالیسی کے شعبے کے سربراہ سنیھیش ایلکس فلپ واقعے سے متعلق ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ’ایک ریٹائرڈ انڈین فضائیہ کے افسر کے مطابق اس مشن کے دوران کینبرا ناقابلِ شکست تھا کیونکہ اس بلندی تک کوئی پاکستانی طیارہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ مگر آکسیجن کا مسئلہ پیدا ہونے پر عملہ طیارے کو نچلی پرواز پر لے گیا جس سے وہ حملے کے لیے آسان ہدف بن گیا۔‘

پاکستانی حکام کے مطابق سکواڈرن لیڈر جگدیش چندرا سین گپتا اور نیویگیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ ستندر ناتھ رامپال نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ اُن کی طرح انڈین فضائی حکام کو بھی لگا کہ پاکستانی پائلٹس اور عملہ عید کی نماز میں مصروف ہوگا تو وہ اطمینان سے پاکستانی حدود میں پرواز کرتے ہوئے مطلوبہ تصاویر حاصل کرلیں گے۔

تاہم انھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاک فضائیہ کا عملہ نا صرف ڈیوٹی پر تھا بلکہ الرٹ بھی تھا۔

پاکستانی فضائیہ کی طرف سے گرفتار انڈین پائلٹ اور نیویگیٹر کے ساتھ پیشہ ورانہ سلوک نے فوجی قواعد و ضوابط کی پاسداری کو ظاہر کیا۔

سکوڈرن لیڈر جگدیش چندرا سین گپتا اور نیویگیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ ستندر ناتھ رامپال دو روز پنڈی کے فوجی ہسپتال میں زیر علاج رہے۔

افواج پاکستان کے مجلّے ہلال میں گروپ کیپٹن حماد احمدرفیق لکھتے ہیں کہ ’یہ واقعہ انڈیا کے لیے بین الاقوامی طور پر انتہائی شرمندگی کا باعث بنا۔ انڈین پائلٹ اور نیوی گیٹر کو علاج کے دو روز بعد بحفاظت واپس انڈیا روانہ کردیا گیا۔‘

انڈیا کا ردعمل

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ تقسیم کے بعد کوئی انڈین طیارہ پاکستان میں داخل ہوا ہو تاہم یہ پہلا واقعہ ضرور تھا جب ایک فریق نے دوسرے کے طیارے کو حملہ کر کے مار گرایا تھا۔

اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے۔ انڈیا کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کی ڈیٹا بیس میں محفوظ تقاریر سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق واقعے کے اگلے روز انڈین وزیر دفاع وی کے کرشنا مینن نے ایوان زیریں لوک سبھا میں خطاب کرتے ہوئےدعویٰ کیا کہ ’کینبرا بمبار کسی قسم کے حملے یا جنگی مقصد کے لیے استعمال نہیں ہو رہا تھا، بلکہ اس کا مشن صرف ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر کے علاقوں کی فضائی تصاویر لینا تھا، وہ محض آپریشنل یا نیویگیشنل (راستے کے تعین میں) دشواری کی وجہ سے غلطی سے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہو گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھیں۔ صرف 1958 کی آخری سہ ماہی میں کشمیر کے اوپر 17 بار ایسی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ لیکن انڈین فضائیہ نے کبھی پاکستانی طیاروں پر حملے کی کوشش نہیں کی۔‘

پالیسی سے متعلق سوالات کے جواب میں کرشنا مینن نے کہا کہ ’انڈین ایئر فورس پاکستانی طیاروں پر فائر نہیں کرے گی خواہ وہ انڈین فضائی حدود کی خلاف ورزی ہی کریں، لیکن آیا انڈین طیاروں کو مسلح کیا جائے یا نہیں، یہ ’انتہائی سنجیدہ غور و فکر‘ کا معاملہ ہے۔‘

اسی روز بعد میں جاری کردہ ایک بیان میں، پاکستانی وزارت دفاع نے کہا کہ ’انڈین کینبرا بمبار طیارہ لاہور کے علاقے سے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوا، اور اسے گجرات اور کھاریاں کے علاقوں میں چکر لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ جب طیارہ راولپنڈی کی سمت بڑھ رہا تھا تو اسے روکا گیا۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’طیارے کو اترنے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن اس نے انکار کر دیا، اور جارحانہ انداز میں حرکت کرنے لگا۔ انتباہی فائرنگ (ٹریسر بلیٹس) کو بھی نظر انداز کیا گیا۔‘

بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ ’یہ ممکن نہیں کہ یہ طیارہ غلطی سے پاکستانی حدود میں داخل ہوا ہو، کیونکہ موسم بالکل صاف تھا، حد نگاہ بہت اچھی تھی، اور پہاڑوں، دریا اور دیگر نشانات کی واضح پہچان ممکن تھی۔ اس کے باوجود طیارہ پاکستانی حدود میں 150 میل تک اندر آگیا تھا۔‘

بیان میں عید کے موقع پر مشن کے وقت کو انڈیا کی جانب سے چھٹی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے مزید کہا گیا کہ ’کرشنا مینن نے دھمکی دی ہے کہ ان کی حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ آیا مستقبل میں انڈین طیاروں کو مسلح کیا جائے یا نہیں۔ اگر ان کا اشارہ ایسے انڈین طیاروں کی طرف ہے جو اسی طرح پاکستان بھیجے جائیں گے، تو ایسا قدم سنگین نتائج کا باعث بنے گا۔‘

انڈین پائلٹ پاکستان میں دیے گئے بیان سے پلٹ گئے

21 اپریل 1959 کو انڈین وزیر دفاع وی کے کرشنا مینن نے لوک سبھا میں ایک اور بیان دیتے ہوئے کہا کہ طیارے کے پائلٹ اور نیویگیٹر دونوں نے ’صاف اور بار بار‘ کہا ہے کہ پاکستانی حدود میں داخلہ نیویگیشنل غلطی کا نتیجہ تھا۔

ان کے مطابق موسم اس قدر دھند آلود تھا کہ وہ زمین کو دیکھنے کے قابل نہ تھے۔

دونوں افسران نے الزام عائد کیا کہ راولپنڈی میں ان سے پاکستانی افسران نے ’تحقیقات، ہراسانی اور دھمکی آمیز‘ رویہ اختیار کیا۔

23 اپریل کو پاکستانی حکومت نے ایک اور بیان جاری کیا، جس میں انڈین موقف کی تردید کی گئی۔

اس بیان میں کہا گیا کہ ’10 اپریل کو موسم اور دیکھنے کی صلاحیت ’بہت عمدہ‘ تھی، اور یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ایسے مثالی موسم میں ایک تجربہ کار عملہ، جیسا کہ اس کینبرا طیارے کا تھا ،ایسی بڑی نیویگیشنل غلطی کر سکتا ہے۔‘

پارلیمنٹ میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا موقف

اس واقعے کے بعد انڈیا میں ملک کی ائیرفورس کی صلاحیت پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ یہ مطالبہ بھی سر اٹھانے لگا کہ پاکستان سے نقصان کا ہرجانہ طلب کیا جائے۔

راجیہ سبھا کی تقاریر اکھٹی کرنے والی سرکاری ویب سائٹ پر اس روز کی کارروائی کا ریکارڈ موجود ہے جس کے مطابق انڈین پارلیمنٹ میں علیگڑھ کے حلقے سے منتخب ہونے والے ممبر نواب سنگھ چوہان نے اس حوالے سے ہونے والے سیشن میں سوال کیا۔

’کیا وزیراعظم جواہر لال نہرو یہ بتا سکتے ہیں کہ معاملے پر انڈیا کی طرف سے بھیجے گئے احتجاج کا پاکستان نے کیا جواب دیا؟‘

جس پر وزارت خارجہ میں نائب وزیر لکشمی مینن بولیں کہ ’پاکستانی حکومت نے اپنے عمل کو درست قرار دیا ہے اور انڈیا کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کہ پاکستان کو طیارے کے نقصان اور زخمی ہونے والے عملے کے لیے معاوضہ دیا جائےـ‘

نواب سنگھ چوہان نے پوچھا کہ ’کیا انڈین حکومت کا دوبارہ احتجاج کرنے کا ارادہ ہے یا ہم کچھ اور اقدامات کریں گے؟‘

اس بار ایوان میں موجود وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو خود کھڑے ہوئے اور بولے ’اس سطح پر کسی بھی اختلاف کو حل کرنے کے تین طریقے ہوتے ہیں۔ معمول کا طریقہ، سفارتی طریقہ ہے۔ غیر معمولی طریقہ، جنگ ہے۔ اور تیسرا طریقہ سفارتکاری میں توسیع ہو سکتا ہے، یعنی تیسرے فریق کو معاملے میں شامل کرنا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ پہلے طریقے کے مطابق مسئلہ سفارتی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور انڈین حکومت نتائج ملنے تک بات چیت کا عمل جاری رکھے گی۔‘

راجیہ سبھا میں اُٹھائے گئے ایک اور سوال پر کہ ’جوابی کارروائی‘ جیسا کوئی چوتھا طریقہ موجود نہیں؟

وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے کہا کہ ’ہم ایسا نہیں کرنا چاہتے جب تک کہ پاکستان کی طرف سے کوئی بہت جارحانہ اقدام نہ ہو۔ لیکن کچھ واقعات میں ایسا ہوا ہے کہ ان کے طیاروں کو صرف خبردار کیا گیا یا انھیں واپس دھکیل دیا گیا۔‘

اس دوران ایک اور ممبر جسونت سنگھ نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ کیا ہمارے ہوا بازوں کو ان کی چوٹوں کے لیے معاوضہ دیا گیا ہے؟

جواہر لال نہرو بولے ’نہیں، سر۔ ہم اپنے لوگوں کو معاوضہ نہیں دیتے۔ ہم انھیں علاج فراہم کرتے ہیں اور پھر انھیں دوبارہ کام کرنے کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔‘

امریکی ردعمل

امریکی آفس آف دی ہسٹورین کی ویب سائٹ پر 13 اپریل 1959 کے روز واشنگٹن میں امریکی سیکریٹری برائے امورِ جنوبی ایشیا ولیم میننگ راؤنٹری اورانڈیا کے سفیر محمد علی کریم چھاگلا کے درمیان معاملے پر ہونے والی ملاقات کا میمورینڈم موجود ہے۔

اس مسودے کے مطابق علی کریم چھاگلا نے اپنے پوائنٹس وزیر دفاع وی کے کرشنا مینن کے 11 اپریل کو پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان کی روشنی میں ترتیب دیے۔

انھوں نے واشگنٹن حکومت کو بتایا کہ ’انڈین کا طیارہ غیر مسلح تھا، معمول کی آپریشنل پرواز پر تھا، جو ہماچل پردیش اور کشمیر میں انڈین علاقے کی تصاویر لینے کے لیے تھی۔ نیویگیشنل غلطی کی وجہ سے یہ لازماً پاکستان میں داخل ہو گیا ہوگا، جو پچاس ہزار فٹ کی بلندی پرعام بات ہے۔ ‘

علی کریم چھاگلا کے مطابق ’طیارہ انڈین علاقے سے صرف تین منٹ کی دوری پر تھا جب اسے پاکستانی سیبرجیٹ فائٹر نے مار گرایا۔‘ انھوں نے بھی انڈین وزیر دفاع کی طرح الزام لگایا کہ پاکستانی فضائیہ کی جانب سے کوئی انتباہ نہیں دیا گیا۔

تاہم راؤنٹری نے اس موقع پر انھیں ٹوک کر کہا کہ اُن کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی پائلٹس نے نا صرف اطلاع دی تھی بلکہ وارننگ شاٹس کے علاوہ ہاتھ سے اشارے بھی کیے تھے کہ انڈین پائلٹ طیارے کا رخ تبدیل کرلیں۔

اس کے جواب میں علی کریم چھاگلا کو خاموش ہونا پڑا اور انھوں نے اس نکتے پردوبارہ بات نہ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی۔

پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیپاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکابھینندن کا طیارہ گرنے کے بعد کیا ہوا تھا؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیں

اصل میں علی کریم چھاگلا جاننا چاہتے تھے کہ کیا امریکہ اس معاملے پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

لیکن ولیم راؤنٹری نے کہا کہ ’کسی بھی نتیجے پر پہنچنا تمام تر حقائق جاننے پر منحصر ہوگا، فی الحال دستیاب حقائق سے ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان کی فضائیہ کے اپنے فضائی حدود کے دفاع کے فرض کے پیش نظرانڈیا کے پاس کوئی خاص مضبوط کیس ہے۔‘

اس پرعلی کریم چھاگلا بولے کہ ’انڈیا کے عام لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، اور امریکہ پاکستان کو جتنے زیادہ ہتھیار دے گا، وہ اتنا ہی غیر محفوظ محسوس کریں گے۔‘

پارلیمنٹ میں انڈین حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے درخواستیں کی گئی تھیں جسے وزیر اعظم نہرو نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ وہ اس معاملے کو سفارتی ذرائع سے حل کر رہے ہیں۔

علی کریم چھاگلا نے کہا کہ ’اگر وہ اپنی حکومت کو یہ بتا سکیں کہ امریکہ پاکستان کو اس کے اقدامات کے بارے میں خبردار کرے گا تو یہ اُن کے لیے مددگار ہوگا۔ امریکہ کو ایسا کرنا چاہیے بھی، کیونکہ امریکہ نے جو ہتھیار دیے ہیں وہ پاکستان کے پاس ایک ’امانت‘ ہیں۔‘

اس پر ولیم راؤنٹری بولے کہ وہ فوری طور پر جواب نہیں دے سکتے، دستیاب معلومات کی روشنی میں معاملے پر غور کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

انڈیا کے لیے امریکی رویے میں سرد مہری کیوں تھی؟

امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ سٹیفین پی کوہین اپنی کتاب ’The Idea of Pakistan‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں ایک زیادہ تیار اور سٹریٹیجک شراکت دار پایا، کیونکہ انڈیا نے غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان نے امریکی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی اورسیٹو اور سینٹو(SEATO (CENTO جیسے عسکری اتحادوں میں شمولیت اختیار کی، جس کے باعث وہ امریکہ کی فوجی امداد کے لیے ایک پسندیدہ ملک بن گیا۔‘

اسی طرح سابق امریکی سفارتکار ڈینیس کوکس اپنی کتاب (The United States and Pakistan 1947–2000: Disenchanted Allies) میں لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد کا ایک مقصد سوویت یونین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا تھا، لیکن ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ انڈیا کے اُس ممکنہ جھکاؤ کا توازن قائم رکھا جائے جو غیر جانبداری یا کسی حد تک سوویت بلاک کی طرف محسوس کیا جا رہا تھا۔

واشنگٹن کو نہرو کے انڈیا کے ساتھ کسی فوجی اتحاد کی تشکیل کی خاص امید نہیں تھی کیونکہ انڈیا امریکی عزائم پر شکوک رکھتا تھا۔‘

فلائٹ لیفٹیننٹ محمد یونس

ایک طرف جہاں انڈیا میں اس واقعے کے بعد غم و غصے کی لہر محسوس کی جارہی تھی وہیں اس کارنامے نے فلائٹ لیفٹیننٹ محمد یونس کو راتوں رات ہیرو بنا دیا۔

وہ انڈیا کا طیارہ گرا کر ایک اہم فضائی کامیابی حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے جس پر پاکستان کا تیسرا اعلیٰ ترین عسکری اعزاز ’ستارہ جرات‘ سے نوازا گیا۔

سکواڈرن لیڈر جگدیش چندرا سین گپتا بطور گروپ کیپٹن انڈین فضائیہ سے 1976 میں ریٹائر ہوئے جبکہ فلائٹ لیفٹیننٹ ایس این رام پال نے بطور ونگ کمانڈر1974 میں انڈین ائیرفورس چھوڑی۔

ابھینندن کا طیارہ گرنے کے بعد کیا ہوا تھا؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکرفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںگولہ باری، ڈرون حملوں یا جنگی صورتحال میں آپ خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟آپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟88 گھنٹوں کی خوفناک کشیدگی اور اچانک سیزفائر: پاکستان اور انڈیا کے ایک دوسرے پر میزائل حملوں کے بعد آگے کیا ہوگا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More