نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں بین الاقوامی طالبہ بلیانا امتحانات کی تیاری کر رہی ہیں لیکن اُن کو امریکہ کی امیگریشن پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا خدشہ ہے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اس وقت دُہری مشکل میں ہیں۔ ایک طرف وہ یونیورسٹی کی آزاد اور غیرجانبدار حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں تو دوسری جانب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھ رہے ہیں تاکہ تحقیق یا ریسرچ کی سرکاری فنڈنگ بند نہ ہو جائے۔سمسٹر ختم ہوتے ہی کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس میں غیریقینی کی فضا ہے، کیونکہ وائٹ ہاؤس نے یونیورسٹی اور دیگر آئیوی لیگ سکولوں پر یہود دشمنی اور لبرل نظریے کو ’بھڑکانے‘ کا الزام لگایا ہے۔ملک بھر میں کئی سو غیرملکی طلبا کو ان کے ویزوں کی منسوخی کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے، جبکہ متعدد کو نشانہ بنایا گیا اور چند کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ان طلبا میں کولمبیا یونیورسٹی میں زیرِتعلیم فلسطینیوں کے حامی طالب علم بھی شامل ہیں جن پر ظاہروں میں شرکت سے لے کر ٹریفک کی خلاف ورزیوں تک کے الزام میں قانونی کارروائیوں کا سامنا ہے۔قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کولمبیا یونیورسٹی میں موجود 29 سالہ بلیانا نے کہا کہ ’صورتحال خوفناک ہے۔‘بلیانا اس قدر خوف محسوس کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنے اصلی نام اور یہاں تک کہ اُس لاطینی امریکی ملک کا نام بھی ظاہر نہ کیا جہاں سے وہ امریکہ پڑھنے کے لیے آئی ہیں۔ ’آپ کو لگتا ہے کہ آپ کچھ نہیں کہہ سکتے، آپ کچھ بھی شیئر نہیں کر سکتے۔‘بلیانا کا کہنا تھا کہ ’میں اور میرے دوست، ہم ٹوئٹر پر کچھ بھی پوسٹ نہیں کر رہے ہیں، اور بہت سے لوگ ایک غیر مرئی سرخ لکیر کو عبور کرنے کے خوف سے پرانی پوسٹس کو حذف کر رہے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر ہم جو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ صرف کلاسوں میں جانا ہے۔‘پچھلے ہفتے فلسطین کے حامی 80 طلبہ کو مرکزی لائبریری میں مظاہرہ کرنے کی کوشش پر گرفتار کیا گیا۔ یہ ایسے وقت میں ہوا جبکہ امتحانات سر پر ہیں۔یونیورسٹی انتظامیہ کے عبوری صدر نے طلبہ کی جانب سے احتجاج کی مذمت کی۔بلیانا نے بتایا کہ وہ اس قسم کے مظاہروں سے دور رہنے کو یقینی بناتی ہیں کیونکہ اُن کو خوف ہے کہ وہ کسی تصویر میں دکھائی دیں تو اس گروپ سے غلط طور پر منسلک کر دی جائیں گی۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ حکام اس ’توڑ پھوڑ‘ میں ملوث افراد کے ویزا کی حیثیت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہ کہ ’ہماری عظیم قوم میں حماس کے حامی ٹھگوں کا مزید خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔‘بین الاقوامی طلبہ کی تنظیم کے نومنتخب صدر آسکر وولف سمجھتے ہیں کہ ’مظاہروں میں ان کی شمولیت سے قطع نظر بین الاقوامی طلبہ میں بے چینی کی سطح بلند ضرور ہے۔‘آسکر وولف نے کہا کہ اُن کو کیمپس کی ’نارمل‘ زندگی کا ایک مہینے سے کچھ ہی زیادہ کا عرصہ یاد ہے۔ہر سال امریکہ آںے والے ہزاروں سیاح کولمبیا یونیورسٹی کی عظیم الشان تاریخی عمارت اور اس سے جڑے لان کو دیکھنے آتے ہیں مگر اب انتظامیہ نے عام لوگوں کے داخلے کو محدود کر دیا ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ کے عبوری صدر نے طلبہ کی جانب سے احتجاج کی مذمت کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پیٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ کیمپس میں یہود دشمنی کو پنپنے کی اجازت دے رہی ہے اور اس نے کولمبیا کے وفاقی فنڈ میں سے تقریبا 400 ملین ڈالر کمی کر دی ہے۔ کولمبیا نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی پر بھی ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے ہی الزام عائد کر کے دو ارب ڈالر کی وفاقی گرانٹس منجمد کر دی ہیں جس کے خلاف اُس نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ تاہم بدھ کو یونیورسٹی کے عبوری صدر کلیئر شپ مین نے اعلان کیا کہ ’ہمارے تقریباً 180 ساتھی جو مکمل یا جزوی طور پر وفاقی گرانٹس ملنے کی وجہ سے تنخواہ لے رہے ہیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔نفسیات کی پروفیسر ربیکا موہلی نے کہا کہ آٹزم پر تحقیقی منصوبے کے لیے ان کی گرانٹ کو ’منسوخ نہیں کیا گیا، لیکن ابھی تک فراہم بھی نہیں کی گئی، یہ معاملہ لٹک رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں کسی کو تحقیق کے لیے رکھ سکتی ہوں اور نہ ہی بڑی خریداری کر سکتی ہوں۔‘ربیکا موہلی نے مزید کہا کہ ’بہت سی گرانٹس ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہ افراتفری کی صورتحال ہے، اور آپ افراتفری میں اچھا سائنسی کام نہیں کر سکتے۔‘