Getty Images
اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ اس نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب تین رفال سمیت پانچ انڈین طیاروں کو مار گرایا ہے جبکہ انڈیا کی طرف سے اِن دعوؤں پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر بی بی سی ویریفائی نے تین ایسی ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان میں نظر آنے والا ملبہ ایک فرانسیسی ساختہ رفال طیارے کا ہے جو انڈیا کی فضائیہ کے زیراستعمال ہیں۔
سنہ 2019 کی انڈیا-پاکستان کشیدگی کے بعد جہاں انڈیا نے فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن سے 36 رفال طیارے حاصل کیے تھے جو کہ یورپی گروپ کے میٹیور میزائلوں سے لیس ہیں جبکہ لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے مطابق ’اسی دورانیے میں پاکستان نے چین سے کم از کم 20 جدید جے 10 سی جنگی طیارے حاصل کیے اور یہ چینی ساختہ پی ایل 15 میزائلوں سے لیس ہیں۔‘
پاکستان کی جانب سے انڈین طیارے گرائے جانے کے دعوے کی تاحال انڈیا نے تصدیق یا تردید نہیں کی ہے اور انڈیا کے خارجہ سیکریٹری وکرم مسری نے ایک پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ وہ اس بارے میں جواب صحیح وقت پر دیں گے۔
تاہم واشنگٹن سمیت عالمی سطح پر چینی لڑاکا طیارے کی مغربی طیاروں کے خلاف کارکردگی پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’مار گرایا جانے والا کم از کم ایک انڈین طیارہ فرانسیسی ساختہ رفال ہی تھا۔‘ جبکہ فرانسیسی انٹیلیجنس سے وابستہ ایک اہلکار نے سی این این سے بات کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی تھی۔
دنیا بھر کے میڈیا پر اس مبینہ ’ڈاگ فائٹ‘ کے حوالے سے خاصی دلچسپی پائی جاتی ہے جس کے بارے میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ ’ہمارے جیٹ فائٹر جنھوں نے رافیل گرائے ہیں وہ چینی ساختہ جے 10 سی ہیں۔‘
آئیے جانتے ہیں کہ پاکستانی ایئرفورس اس مبینہ ڈاگ فائٹ کے بارے میں کیا دعویٰ کر رہی ہے، ان دونوں طیاروں کی خصوصیات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں اور عالمی میڈیا پر اس بارے میں کیا بات ہو رہی ہے۔
پاکستانی ایئر فورس کا کیا دعویٰ ہے؟
اس مبینہ ڈاگ فائٹ پر انڈین حکام نے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ پاکستانی فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئر آپریشنز ایئر وائس مارشل اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بی وی آر (بیونڈ ویژیول رینج) لڑائی تھی جس میں انڈیا کے 70 جنگی طیاروں اور پاکستان کے 40 جنگی طیاروں نے حصہ لیا، یعنی کل 100 سے زیادہ طیارے تھے جو کہ ہوابازی کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ پاکستانی فضائیہ کی طرف سے اس کارروائی میں جے ایف 17، ایف 16 اور جے 10 طیاروں نے حصہ لیا تاہم انھوں نے اس حوالے سے تبصرہ نہیں کیا کہ آیا پاکستان نے چینی ساختہ پی ایل 15 استعمال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا فضائی دفاعی نظام بہت مؤثر ہے اور ’ایک کِل اسی (زمین سے فضا میں مار کرنے) کی بدولت ممکن ہوا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان اور انڈین ایئر فورس کے طیاروں کے درمیان ڈاگ فائٹ ایک گھنٹے تک جاری رہی۔‘
ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کا کہنا تھا کہ انڈین طیاروں کے رونما ہونے کے بعد پاکستانی فضائیہ نے ’اپنا ملٹی ڈومین آپریشن شروع کیا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’چھ مئی کی شب ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ڈاگ فائٹ میں انڈین فضائیہ کے 72 طیاروں میں سے 14 رفال طیاروں کی الیکٹرانک نشاندہی کی گئی تھی۔ جبکہ ان کے بقول پاکستان نے اس آپریشن میں 42 جنگی طیارے استعمال کیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور، اسلام آباد اور دیگر فضائی حدود میں سویلین ایئرٹریفک کی حفاظت کے لیے اس کا راستہ تبدیل کروایا گیا۔‘
ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کے مطابق جیسے ہی انڈین طیاروں نے اپنے ہتھیار استعمال کیے تو پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے 'ہوا میں رولز آف دی گیم تبدیل کر لیے۔'
'انڈیا نے پچھلی بار کہا تھا کہ اگر ان کے پاس رفال ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ تو ہم نے رفال طیاروں کو نشانہ بنایا۔ ہمارے پاس مزید نمبرز ہوسکتے تھے مگر ہم نے تحمل دکھایا۔'
پاکستانی فضائیہ نے دعویٰ کیا کہ تین رفال طیارے بھٹنڈہ، جموں اور سرینگر کے قریب مار گرائے گئے جبکہ مگ 29 اور سو 30 کو سرینگر کے پاس مار گرایا گیا۔
Getty Imagesچین سے حاصل کیے گئے چھ 'جے 10 سی' لڑاکا طیارے 2022 میں پاکستان فضائیہ میں شامل کیے گئے تھےجے 10 سی اور رفال طیارے کن خصوصیات کے حامل ہیں؟
پہلے جے 10 سی کی بات کر لیتے ہیں۔ فروری 2003 کو جے 10 ساخت کا پہلا طیارہ چین کی ایئر فورس کی 13ویں ٹیسٹ ریجمنٹ کے حوالے کیا گیا تھا۔
اسی سال دسمبر میں اس لڑاکا طیارے کے ’آپریشنل‘ (قابل استعمال حالت میں) ہونے کا اعلان کیا گیا۔ اٹھارہ سال اس طیارے پر کام ہوتا رہا۔ ’جے-10 سی‘ طیارے نے لڑائی کے لیے خدمات کی انجام دہی اپریل 2018 میں شروع کی تھیں۔
ابتدا میں اس طیارے کو پیپلز لبریشن آرمی و ایئر فورس کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن بعد میں چینی ہتھیار بنانے والی صنعت نے اسے برآمدی مقاصد کے لیے بھی بنانا شروع کر دیا۔
پاکستانی ایئر فورس مشرف دور سے اپنے میراج طیاروں کے سکواڈرن کو تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی جو کہ اس نے سنہ 1967 میں خریدے تھے۔
ہم نے اس بارے میں ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) ناصر الحق وائیں سے بات کی ہے جو سینٹر فار ایرو سپیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز میں ڈائریکٹر ہیں اور فلائنگ انسٹرکٹر ہونے کے علاوہ فلائنگ انسٹرکٹر سکول، سکواڈرن، ونگ اور ایئر بیس کمانڈ کر چکے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کے نامہ نگار محمد صہیب کو بتایا کہ 'ایک طیارے میں دو چیزیں سب سے اہم ہوتی ہیں، ایک اس کا ایئر فریم سٹرکچر اور دوسرا اس کی ایوی آنکس۔ جے 10 سی کے ایئر فریم کی بات کی جائے تو اس میں ڈیلٹا کنارڈ کنفگریشن موجود ہے جو اس کی اجیلٹی کو بہتر بناتی ہے جس کے باعث طیارہ اپنا اینگل آف اٹیک فوری تبدیل کر سکتا ہے۔
'دوسرا اس کا سٹرکچر کمپوزٹ میٹیریل سے بنا ہوا ہے جس کے باعث حالانکہ یہ ایک سٹیلتھ ایئرکرافٹ نہیں ہے لیکن اس کی ریڈار پر نشاندہی مشکل ہو جاتی ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ اس طیارے کی دوسری اہم چیز اس انجن ہے، جو ہے اے ایل 31 ایف این جسے جیم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایکٹو ایسا راڈار ( اے ایس آر) اس وقت سب سے جدید راڈار ہیں۔ اس کی ٹارگٹ ٹریکنگ اچھی ہوتی ہے اور یہ دشمن اور اپنے جہازوں میں فرق بتا سکتا ہے۔ اور اسے کے ساتھ ڈیٹا لنک کی سہولت ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف فارمیشن میں موجود جہازوں کے ساتھ ڈیٹا شیئر کر سکتے ہیں بلکہ آپ اے ویکس، یو اے ویز اور اے ڈبلیو سیز کے ساتھ بھی اپنا ڈیٹا شیئر کر سکتے ہیں۔ یہ ڈیٹا لنک پاکستان میں ہی بنائے جاتے ہیں۔'
انھوں نے جے 10 سی کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ 'اس طیارے کے کاکپٹ کی ایروگنامکس اچھی ہے یعنی ایز آف فلائنگ ہے جس سے پائلٹ کو کاک پٹ میں آسانی ہوتی ہے اور اس فلائنگ کا لوڈ نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی توجہ راڈار کو کیسے آپریٹ کرنا ہے اور اسلحے کو کیسے استمعال کرنا ہے۔'
'جب ایروگنامکس اچھی ہو گی تو پائلٹ کی سچویشنل اویئرنس بہتر ہو جاتی ہے۔'
Getty Imagesیہ پی ایل 15 میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور 200 کلو میٹر دور مخالف جہاز کو نشانہ بنا سکتا ہے
انھوں نے کہا کہ 'سب سے بہتر فیچر اس کا پی ایل 15 میزائل ہے۔ میزائل کا اپنا بھی ایک راڈار ہوتا ہے اور کچھ میزائلوں میں سیمی ایکٹو راڈار ہوتا ہے لیکن اس میزائل میں ایکٹو راڈار موجود ہوتا ہے۔ ایکٹو ریڈار میں آپ نے صرف لاک کر کے فائر کرنا ہوتا ہے جس کے بعد راڈار ٹارگٹ کی جان نہیں چھوڑتا۔'
ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) ناصر الحق وائیں نے کہا کہ 'اس کا ای ڈبلیو سویٹ، یعنی اس میں موجود دوسری جانب سے الیکٹرانک وارفیئر کی کوشش کو ناکام کر سکے اور خود اپنی جانب سے ایسی کوشش کر سکے اور دشمن کے طیارے کے سسٹمز کو جیم کر سکے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سب سے بڑا فرق اس میزائل کا ہے جس کے باعث ہمیں تقریباً 30 سے 50 کلومیٹر کی برتری حاصل ہے۔ ایئر کامبیٹ میں پہلے شوٹ کرنے کی صلاحیت کو فرسٹ شاٹ صلاحیت کہا جاتا ہے، یہ صلاحیت ہمارے پاس پی ایل 15 کی وجہ سے موجود ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'اس میں ہم اپنی مرضی سے بہت ساری چیزیں انٹیگریٹ کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے ہمارے پاس آزادی بھی ہے جیسے ہم نے ڈیٹا لنک اپنا لگایا ہے اس میں۔'
دوسری طرف انڈین فضائیہ کے پاس موجود رفال جوہری میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں دو طرح کے میزائل نصب ہو سکتے ہیں، ایک کا مار کرنے کا فاصلہ 150 کلومیٹر جبکہ دوسرے کا تقریباً 300 کلومیٹر ہے۔ جوہری اسلحے سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھنے والا رفال طیارہ فضا میں 150 کلومیٹر تک میزائل داغ سکتا ہے جبکہ فضا سے زمین تک مار کرنے کی اس کی صلاحیت 300 کلومیٹر تک ہے۔
یہ انڈین فضائیہ کی جانب سے استعمال ہونے والے میراج 2000 کی جدید شکل ہے اور انڈین ایئر فورس کے پاس اس وقت 51 میراج 2000 طیارے ہیں۔
رفال کو اب تک افغانستان، لیبیا، مالی، عراق اور شام جیسے ممالک میں ہونے والی کارروائیوں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔
کئی طرح کی خوبیوں سے لیس رفال کو بین الاقوامی معاہدوں کے سبب جوہری اسلحے سے لیس نہیں کیا گیا تاہم کئی ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا میراج 2000 کی طرح رفال کو بھی اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال لے گا۔
خیال رہے کہ دونوں فائٹر جیٹس بنانے والی کمپنیاں انھیں 4.5 جنریشن فائٹر جیٹس قرار دیتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دنیا کے سب سے جدید ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی کچھ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔
ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) ناصر الحق وائیں نے پاکستان کے جے 10 سی اور انڈین رفال کے درمیان مبینہ ڈاگ فائٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رفال طیارے کی مشین کے حوالے سے کوئی شک نہیں کہ اس کی صلاحیت ہر لحاظ سے اچھی ہو گی، یورپی انجن عام طور پر بہت اچھے ہوتے ہیں اور اس کی ایروگنامکس بھی اچھی ہو گی لیکن حالیہ صورتحال میں جو فرق آیا ہو گا وہ میزائل کی رینج میں اور طیارے کی امپلائمنٹ میں۔‘
'ٹیکنالوجی دونوں طرف برابر بھی ہو جائے تو اہم بات امپلائمنٹ کی ہوتی ہے یعنی آپ کی حکمتِ عملی کیا ہے اور آپ اس پر کس طرح عمل درآمد کرتے ہیں۔
’رفال میں یہ نہیں ہے کہ ان کا ان کا تجربہ کم ہے یا ان کے پائلٹس میں کوئی کمی ہو گی، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس صورتحال میں کون اچھا کھیل گیا، اسے امپلائمنٹ کہتے ہیں جو حکمتِ عملی اور مختلف ایکسرسائزز کرنے سے آتی ہے۔‘
پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیپاکستان میں گرایا گیا اسرائیلی ساختہ ہروپ ڈرون کیا ہے اور فضا میں اس کی نشاندہی کرنا مشکل کیوں ہے؟پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟انڈیا کے فضائی حملوں کا پاکستان کیسے جواب دے گا اور کیا جوابی کارروائی اب ناگزیر ہو چکی؟Getty Imagesجوہری اسلحے سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھنے والا رفال طیارہ کی فضا سے زمین تک مار کرنے کی صلاحیت 300 کلومیٹر تک ہےیہ مبینہ ڈاگ فائٹ عالمی توجہ کا مرکز کیسے بنی؟
روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق فضائی لڑائی ایک نایاب موقع ہوتا ہے جب فوجیں پائلٹوں، جنگی طیاروں اور فضا سے فضا تک مار کرنے والے میزائلوں کی کارکردگی جانچ سکیں اور اپنی فضائیہ کو کسی ممکنہ لڑائی کے لیے تیار کر سکیں۔
دفاعی ماہرین نے روئٹرز کو بتایا کہ چین اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں جدید ہتھیاروں کے اصل لڑائی میں استعمال کی معلومات تائیوان یا وسیع انڈو پیسیفک خطے کے تناظر میں اہم ہو گی۔
ایک امریکی اہلکار نے روئٹرز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان نے چینی ساختہ جے 10 طیاروں سے انڈین جنگی طیاروں پر فضا سے فضا تک مار کرنے والے میزائل داغے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں چینی ساختہ پی ایل 15 میزائل کا موازنہ یورپی گروپ ایم بی ڈی اے کے میٹیور سے کیا جا رہا ہے۔ میٹیور ایک ریڈار گائیڈّڈ ایئر ٹو ایئر میزائل ہے۔
اس بارے میں تاحال تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا یہی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں تاہم پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستانی فضائیہ کی طرف سے جے 10 سی طیاروں کے استعمال کی تصدیق کی تھی۔
انٹرنیشنل اسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈگلس بیری نے روئٹرز کو بتایا کہ یہ ایسا ہے جیسے ’چین کا سب سے بااثر ہتھیار مغرب کے سب سے بااثر ہتھیار کے مدمقابل ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو۔ مگر ہمیں معلوم نہیں۔‘
بیری نے کہا کہ فرانسیسی اور امریکی انڈیا کی طرف سے انٹیلیجنس چاہیں گے۔ امریکی دفاعی صنعت سے وابستہ ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ چینی میزائل پی ایل 15 ’بڑا مسئلہ ہے۔ امریکی فوج اس پر بہت توجہ دیتی ہے۔‘
رفال طیاروں کے مینوفیکچرر ڈسالٹ ایوی ایشن یا ایم بی ڈی اے نے تاحال اس حوالے سے تبصرہ نہیں کیا ہے۔
واشنگٹن کے دفاعی ماہر بائرن کیلن نے کہا کہ ’انڈیا کے یورپی سپلائرز کی طرح پاکستان اور چین بھی شاید معلومات کا تبادلہ کریں گے۔ اگر پی ایل 15 مؤثر انداز میں کام کر رہا ہے، جیسے اس کی تشہیر کی گئی، یا توقع سے بھی بہتر کام کر رہا ہے تو چین (پاکستان سے) یہ جاننا چاہے گا۔‘
بیری کا خیال ہے کہ پاکستان کے پاس پی ایل 15 کا چینی ایکسپورٹ ورژن موجود ہے۔
دفاعی ماہرین نے روئٹرز کو بتایا کہ پی ایل 15 کی رینج اور کارکردگی کئی برسوں سے مغرب کی توجہ میں رہی ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ چین نے سوویت دور کی ٹیکنالوجی پر اپنا انحصار کتنا کم کر لیا ہے۔ جبکہ یورپی ممالک میٹیور میزائل میں اپ گریڈ پر بھی غور کر رہے ہیں۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو چینی دفاعی کمپنیوں کے سٹاکس کی قدر بڑھی ہے اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی سے بطور دفاعی ایکسپورٹرز چین کی ساکھ مضبوط ہوئی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار ایرک زو نے بلومبرگ انٹیلیجنس کو بتایا ہے کہ چین میں بننے والے اِن جدید ہتھیاروں کی اصل لڑائی میں آزمائش نہیں ہوئی ہے تو ’ان کی برآمد کے پوٹینشل کو جانچنے کے لیے لڑائی کا ریکارڈ اضافی معلومات فراہم کرے گا۔‘
گولہ باری، ڈرون حملوں یا جنگی صورتحال میں آپ خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟انڈین پنجاب میں سات اور آٹھ مئی کی درمیانی شب ہوئے دھماکوں کا معمہ: امرتسر اور گورداسپور میں لوگوں نے کیا دیکھا؟پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیانڈیا کے فضائی حملوں کا پاکستان کیسے جواب دے گا اور کیا جوابی کارروائی اب ناگزیر ہو چکی؟پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟پاکستان میں گرایا گیا اسرائیلی ساختہ ہروپ ڈرون کیا ہے اور فضا میں اس کی نشاندہی کرنا مشکل کیوں ہے؟