گزشتہ دو روز سے پاکستان کے شہروں کی فضائی حدود میں انڈین بارود کی بُو نے دونوں ایٹمی ہمسائیوں کو ایسی جگہ کھڑا کر دیا ہے جہاں سے فوری واپسی کا سفر بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے۔منگل اور بدھ کی درمیانی رات پاکستان کے اندر ہونے والے میزائل حملوں کے بعد جمعرات کی صبح بھی پاکستانیوں خاص طور پر لاہور کے باسیوں کے لیے مختلف تھی۔علی الصبح لاہور کے حساس علاقے والٹن میں ہونے والے تین یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں نے ایک نئی صورت حال سے روشناس کروایا۔
پتا چلا کہ یہ انڈین ڈرون حملہ تھا۔ اور اس کے بعد پھر پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں یہ صورت حال تھی کہ انڈین ڈرون فضاوں میں گھوم رہے تھے یا وہ خود پھٹ رہے تھے یا وہ دفاعی نظام کے ہاتھوں گر رہے تھے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق دن بھر میں لگ بھگ 29 ڈرون مار گرائے گئے جبکہ ان حملوں میں تین افراد جان سے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ پاکستانی عوام، جو اب انڈین میزائل حملوں کا جواب دینے کا انتظار کر رہے تھے، نے سارا دن ڈرون گنتے گزارا۔اور ایسا تاثر قائم ہوا کہ کیا یہ ایک طرح کا نیو نارمل بن گیا ہے کہ انڈیا جب چاہے وہ پاکستانی شہروں میں آ موجود ہو؟کیا بنا اس نیوکلئیر ڈیٹرنس کا؟ یعنی جب دونوں ایٹمی طاقتوں نے ایٹمی دھماکے کر کے اپنے دفاع کو ’ناقابل تسخیر’ بنایا۔ کیا یہ سب اب بدل چکا ہے؟اس حوالے سے جب اردو نیوز نے مختلف دفاعی تجزیہ کاروں سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اب یہ نئی صورت حال ’نیا ڈیٹرنس‘ تیار کرے گی۔ملیحہ لودھی جو کہ پاکستان کے سابق سفارت کار کے ساتھ ساتھ دفاعی تجزیہ کار بھی ہیں، کہتی ہیں کہ انڈیا نے پاکستان کے اندر میزائل حملے کر کے اس ڈیٹرنس کو چیلنج کر دیا ہے جو 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد قائم ہوئی تھی۔’اب یہ کوئی سوال نہیں ہے کہ نقصان کیا ہوا یا کیا نہیں۔ حملے کہاں ہوئے کہاں نہیں۔ اب سوال صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت کے لیے یہ ہے کہ اپنا ڈیٹرنس لیول دوبارہ بحال کیا جائے۔‘ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ اب سوال صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت کے لیے یہ ہے کہ اپنا ڈیٹرنس لیول دوبارہ بحال کیا جائے۔ (فوٹو: ایکس)ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ اور کوئی دوسری صورت نہیں نظر آ رہی ہے۔ اور ڈرونز جس طرح دندنا رہے ہیں یہ وہی تاثر قائم کرتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو صرف اپنا دفاع واپس اس جگہ پر لے کر جانا ہے جو 6 مئی سے پہلے تھا۔‘’یقینی طور پر پاکستان جب تک پوری طاقت سے جواب نہیں دے گا تو توازن درست نہیں ہو گا۔‘کچھ ایسے ہی تاثرات ادارہ برائے بین الاقوامی تعلقات اور میڈیا ریسرچ کے سربراہ محمد مہدی کے بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ چھتری جس کو ہم ڈیٹرنس لیول کہتے ہیں جو آپ کو محفوظ بناتا ہے۔ اس چھتری میں چھید ہوئے ہیں اور اب اس کو دوبار درست کرنا پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے پاکستان نے جو موقف اپنایا ہے وہ بڑا واضح ہے کہ جواب دینے کے لیے وقت اور جگہ کا تعین وہ خود کرے گا۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ جواب محض نقصان کی برابری نہیں ہے بلکہ اپنے دفاع کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان جب بھی جواب دے گا تو اس وقت ہی یہ طے ہو جائے گا کہ اب آگے کی کہانی کس طرف کو جائے گی۔ اس لیے ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن بات اب طے ہے کہ ڈیٹرنس کی اَن دیکھی شیلڈ ابھی دوبارہ سے نئے ماحول کے مطابق ٹھیک ہو گی۔ اس کے بغیر پاکستان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ باقی سارے راستے اس شیلڈ کی بحالی کے بعد نکلیں گے۔‘