پنجاب میں سٹوڈنٹس کارڈ کے اجراء کی تیاری، ’پرائیوٹ طلبہ بھی مستفید ہوں گے‘

اردو نیوز  |  May 07, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت سرکاری اور پرائیویٹ طلبہ کے لیے مشترکہ طور پر سٹوڈنٹ کارڈ لا رہی ہے۔

پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم پنجاب کے طلبہ کے لیے ایک بہت بڑا پروگرام لا رہے ہیں جس سے سرکاری اور پرائیویٹ طلبہ دونوں ہی مستفید ہو سکیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم ایسا سٹوڈنٹ کارڈ جاری کرنے جا رہے ہیں جو ایک ہی وقت میں کئی مقاصد کے لیے استعمال ہو گا۔ اسی کارڈ پر ملکی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں سکالر شپ بھی ملے گی۔‘

پنجاب حکومت کے اس نئے کارڈ سسٹم کے تحت تمام طلبہ کا تعلیمی ریکارڈ اور پروفائل بھی ساتھ ساتھ بن رہا ہو گا۔

رانا سکندر حیات بتاتے ہیں کہ ’ہم ایک ایسا طریقہ بنا رہے ہیں جس میں سکالرشپ لینے والے طلبہ کو ہم ہر طرح کی مراعات دیں گے۔ وہ میٹرو اور اورنج لائن ٹرین میں بالکل مفت سفر کر سکیں گے۔ انہیں ڈسکاؤنٹ کی سہولت بھی ہر جگہ دستیاب ہو گی۔‘

کون سے طلبہ اس سکالرشپ کارڈ کے اہل ہوں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ ’ویسے تو یہ ہر طالب علم کے لیے کھلی پیشکش ہے تاہم اس میں وہ طالب علم آئیں گے جو ملکی اور غیرملکی سکالرشپ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ لیکن ہم زیادہ سے زیادہ بچوں کو فائدہ دینے کے لیے اس سے متعلق معیار میں تبدیلی کر رہے ہیں۔‘

وزیرتعلیم رانا سکندر حیات نے کہا کہ اس پروگرام کی منظوری وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز دے چکی ہیں (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)’ایک خاص حد سے زیادہ نمبر لینے والے طلب  خود کار اس کیٹیگری میں آ جائیں گے۔ انہیں کہیں بھی اپلائی کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ حکومت ان کا کارڈ ان کے گھر بھیج دے گی۔‘

یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ سرکار کوئی ایسی سکیم متعارف کرا رہی ہے جس میں نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

اس سے قبل ’ہونہار سکالرشپ پروگرام‘ میں دیگر صوبوں کے طلبہ کے لیے کوٹہ مختص کیا گیا تھا۔

یہ سکالرشپ کارڈ طلبہ کو کب دستیاب ہو گا؟ رانا سکندر کا کہنا تھا کہ ’اس کی منظوری وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز دے چکی ہیں اور اب محکمہ تعلیم اس کی نوک پلک سنوار رہا ہے۔ اس کا ابتدائی ڈرافٹ تیار ہو چکا ہے جو مختلف محکموں کی منظوری کے  بعد فوری طور پر نافذالعمل ہو گا۔‘

’لیکن میں یہ بات آپ کو بتا دوں کہ اس کی مثال آپ کو اس سے پہلے نہیں ملے گی۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More