بلوچستان کے ضلع قلات میں عسکریت پسندوں نے قیدیوں کو کوئٹہ منتقل کرنے والی وین پر حملہ کر کے 10 قیدیوں کو آزاد کر دیا جبکہ پانچ پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا۔حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔قلات کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ واقعہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب کوئٹہ سے تقریباً 110 کلومیٹر دور قلات کی تحصیل منگچر میں اُس وقت پیش آیا جب سینٹرل جیل گڈانی سے 10 قیدیوں کو کوئٹہ منتقل کیا جا رہا تھا۔‘’منگچر کے قریب خزینی کے مقام پر 12 سے زائد مسلح افراد نے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو بند کر کے گاڑیوں کی تلاشی شروع کر دی۔‘
افسر کے مطابق ’اسی دوران قیدیوں کو لے جانے والی نجی وین کو روکا گیا۔ مسلح افراد نے ہتھکڑیاں کھول کر قیدیوں کو فرار کرا دیا جبکہ ان کی حفاظت پر مامور حب پولیس کے سات میں سے پانچ اہلکاروں کو بھی اغوا کر لیا گیا۔‘
حب پولیس کے مطابق اغوا ہونے والوں میں اے ایس آئی غلام سرور، حوالدار فراز احمد، سپاہی محمد اقبال، شبیر احمد اور ناصر علی شامل ہیں۔ مسلح افراد ان کا سرکاری و نجی اسلحہ بھی ساتھ لے گئے۔دو اہلکار سب انسپکٹر انور اور سپاہی عطا اللہ سادہ کپڑوں میں ہونے کی وجہ سے بچ نکلے جنہوں نے بعدازاں حکام کو واقعہ کی اطلاع دی۔گڈانی جیل کی انتظامیہ کے مطابق فرار ہونے والے قیدیوں میں دو خطرناک مجرم بھی شامل ہیں جن میں ایک سزائے موت اور ایک عمر قید کا قیدی ہے۔ انہیں کوئٹہ اور پھر مچھ جیل منتقل کیا جانا تھا- باقی آٹھ قیدی منشیات کے مقدمات میں انڈر ٹرائل تھے جنہیں انسداد منشیات عدالت کوئٹہ میں ہونے کی وجہ سے کوئٹہ منتقل کیا جارہا تھا۔قلات لیویز کے مطابق مسلح افراد نے موٹروے پولیس کی وین کو بھی روکا اور اہلکاروں کو چھوڑ کر ان سے ایک کلاشنکوف اور وین چھین کر فرار ہوگئے۔مسلح افراد نے اس سے قبل منگچر کے مین بازار میں واقع نیشنل بینک، نادرا آفس اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کو بھی نذرِ آتش کیا تھا۔ مقامی ذرائع کے مطابق جمعہ کو مغرب کے اذانوں کے ساتھ ہی علاقے میں شدید فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا جو رات گئے تک جاری رہا۔سکیورٹی فورسز نے سنیچر کی رات گئے علاقے کا کنٹرول سنبھال کر سرچ آپریشن شروع کر دیا۔علی الصبح مساجد سے اعلانات کر کے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات دی گئیں جبکہ سنیچر کو تمام دکانیں اور تعلیمی ادارے بند رہے۔قلات لیویز کے مطابق مفرور قیدیوں اور لاپتہ اہلکاروں کی تلاش بدستور جاری ہے۔