جین زی کے مسائل پر مبنی ڈرامہ پرورش: ’جذبات کا رولر کوسٹر‘

اردو نیوز  |  May 01, 2025

پاکستان میں بننے والے زیادہ تر ڈرامے ایک خاص عمر کو پہنچے ہوئے لڑکے اور لڑکیوں کی زندگیوں پر مبنی ہوتے ہیں جن میں ان کی لَو سٹوری، شادی کے مسائل، شوہر اور بیوی کے آپس کے تعلقات، گھریلو ناچاکی، ساس بہو کے جھگڑے یا سازشیں دکھائی جاتی ہیں۔

بچوں خاص طور پر ٹین ایج لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ڈرامے بہت کم ہی بنتے ہیں جن میں ان کی زندگی کے معاملات، ان کی ذہنی کیفیت، ان کی جذباتی اُلجھنوں کو موضوع بنایا گیا ہو۔ اے آر وائی پر نشر ہونے والا ڈرامہ ’پرورش‘ ان تمام موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔

جب والدین بچوں کے لیے ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جائیں، ہر وقت اپنی مرضی چلائیں، ان پر روک ٹوک لگاتے رہیں، انہیں کون سا سبجیکٹ منتخب کرنا چاہیے، کس شعبے کو بطور کریئر اپنانا چاہیے، ان فیصلوں کا اختیار بچوں کو دینے کے بجائے وہ اپنے فیصلے ان پر تھوپتے رہیں تو پھر کیا ہوتا ہے، اس ڈرامے میں آپ کو ان تمام سوالوں کے جواب ملیں گے۔

ڈرامے میں بچوں کے والدین کے ساتھ تعلق، ان کے درمیان جنریشنل گیپ کی وجہ سے انڈرسٹینڈنگ کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ ’پرورش‘ میں آپ کو تین نسلوں کا آپس میں ٹکراؤ نظر آئے گا جو مختلف نظریات اور مزاج رکھتی ہیں۔

ڈرامے کی کہانی کیا ہے؟جہانگیر جس کا کردار نعمان اعجاز نے ادا کیا ہے، اپنی فیملی کے ساتھ بیرون ملک سے ہمیشہ کے لیے واپس پاکستان آ جاتا ہے۔ گھر میں والدین کے علاوہ اس کے بھائی کی فیملی بھی رہتی ہے اور اب اس کے واپس آجانے کے بعد جوائنٹ فیملی سسٹم کے روایتی مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔

جہانگیر کی اہلیہ ماہ نور (سویرا ندیم) اور ان کے دونوں بچے ولی اور آنیا ان کے پاکستان واپس شفٹ ہونے کے اس فیصلے سے خوش نہیں۔

ولی (ثمر جعفری) ایک ذہین اور ٹیلنٹڈ لڑکا ہے جسے موسیقی میں دلچسپی ہے اور وہ اپنا کریئر اسی فیلڈ میں بنانا چاہتا ہے۔ لیکن جہانگیر کو اس کا موسیقی سے شغف ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اسے آرٹ کے بجائے میڈیکل سائنس پڑھانا چاہتا ہے۔

ولی کو اپنے والد سے چُھپ کر گٹار بجاتے دکھایا گیا ہے اور اپنی گرل فرینڈ سے باتیں کرتے بھی۔

ابھی تک ڈرامے کی اقساط دیکھ کر یہ سمجھ آتا ہے کہ جہانگیر مغربی کلچر سے نالاں ہے اور اُسے یہ ڈر ہے کہ اس کے بچے کہیں ’بُری صحبت‘ میں نہ پڑ جائیں۔

جہانگیر اور ماہ نور کے آپس کے تعلقات بھی زیادہ خوشگوار نہیں، ان کے درمیان بھی انڈرسٹینڈنگ کا فقدان ہے (سکرین گریب)جہانگیر اپنی بیٹی آنیہ کو لڑکیوں کے سکول بھیجنے پر زور دیتے ہیں جس پر ان کی بیگم ماہ نور انہیں ٹوکتی ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ لڑکیوں کا سکول ہے یا لڑکے لڑکیوں دونوں کا، اہم یہ ہونا چاہیے کہ وہاں کس معیار کی تعلیم دی جا رہی ہے۔

دونوں بچے پاکستان آنے کے بعد ایک کلچر شاک میں ہیں اور وہ ایک ہی گھر میں دو مختلف تہذیبوں کا ٹکراؤ دیکھ رہے ہیں۔

جہانگیر اور ماہ نور کے آپس کے تعلقات بھی زیادہ خوشگوار نہیں، ان کے درمیان بھی انڈرسٹینڈنگ کا فقدان ہے اور دونوں اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُلجھ پڑتے ہیں۔ ان کی بیٹی آنیا کو کافی حساس دکھایا گیا ہے جو اپنے والدین  کو لڑتے جھگڑتے دیکھ کر سہم جاتی ہے۔

ڈرامے میں مایا (عینا آصف) کا کردار بھی بہت مضبوط ہے جو ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ اس کے والد لڑکیوں کی جلدی شادی کرانے کے حق میں ہیں اور مایا اسی بات کی وجہ سے رنجیدہ ہے.۔ اُسے یہ خدشہ ہے کہ کہیں شادی کی وجہ سے اس کا ڈاکٹر بننے کا خواب صرف خواب ہی نہ بن کر رہ جائے۔

’صرف پرسپیکٹیو دکھانا چاہتے تھے، کون صحیح ہے کون غلط یہ ہمارا موضوع نہیں‘پرورش ایک ایسا ڈرامہ ہے جو ویسے تو ’جین زی‘ کے گرد گھومتا ہے لیکن اس میں ہر عمر کے افراد کے لیے بھی سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔

ڈرامے کی لکھاری کرن صدیقی نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمارا آئیڈیا یہ تھا کہ ہم صرف پرسپیکٹیوز دکھائیں گے کہ ایک ہی صورتحال کس طرح والدین اور بچوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ صرف وہ اثرات دکھائے جائیں گے کون صحیح ہے کون غلط ہمیں یہ بات نہیں کرنی۔‘

کرن صدیقی نے بتایا کہ ’یہ کانسیپٹ دراصل بنیادی طور پر فہد مصطفیٰ کا ہے اور یہ اُن کی اور اے آر وائی ڈیجیٹل کی مشترکہ کاوش ہے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہا کہ ایک ڈرامہ ایسا تخلیق کرنا ہے جس میں جین زی یا نوجوان نسل کے مسائل کو اُجاگر کیا جائے اور اسے ان کے پرسپیکٹیو سے دکھایا جائے۔ اس طرح اس پر کام شروع ہوا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس ڈرامے کا مرکزی خیال یہی ہے کہ یہ دکھایا جائے کہ والدین اپنے نقطۂ نظرسے سوچ کر بچے کا بھلا کر رہے ہوتے ہیں جبکہ بچے اپنے پرسپیکٹیو سے سوچ رہے ہوتے ہیں کہ شاید والدین اُنہیں نہیں سمجھ پا رہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا بھی ہے۔‘

انہوں نے اس ڈرامے میں بچوں کی اُن کے پسند کے مطابق کریئر کا انتخاب کرنے اور والدین کی جانب سے اُن پر خاص شعبے کو اپنانے کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ پر بھی بات کی ہے۔

۔ ’پرورش‘ میں تین نسلوں کا آپس میں ٹکراؤ نظر آتا ہے جو مختلف نظریات اور مزاج رکھتی ہیں (سکرین گریب)

’نوجوان اپنے آئیڈیا کو لے کر بہت پُرجوش ہوتے ہیں جسے کہ ولی میوزک میں فیوچر بنانا چاہتا ہے اور مایا میڈیکل میں۔ تو یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اُن کے خواب اُن کے لیے کتنے اہم ہوتے ہیں۔‘

کرن صدیقی سمجھتی ہیں کہ ’ہم سب ہی اپنے اپنے ڈبے مین بند ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے ے لیے ایک ایک قدم آگے بڑھائیں۔‘

ڈرامے کے فیڈبیک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ’ اس کانسیپٹ کو بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ میں نے کبھی اس خیال سے نہیں لکھا کہ میں کامیاب ہونے کے لیے ہی لکھوں یا کچھ ایسا لکھوں جو بہت زیادہ ریٹنگ لے کر آئے۔ میں نے اسے اپنے دل سے لکھا۔ ہمیں صرف ایک اچھی کہانی سنانی تھی۔‘

کیا والدین کو اپنا پیرنٹنگ سٹائل بدلنے کی ضرورت ہے؟بچوں کی نفسیات کے موضوع پر کتاب ’بچے کا مقدمہ‘ کے مصنّف وقار احمد سمجھتے ہیں کہ مڈل کلاس گھرانوں میں تو روایتی پیرنٹنگ سٹائل آج بھی رائج ہے لیکن ایلیٹ گھرانوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔

’آج کئی پڑھے لکھے افراد اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت میں وہ سخت گیر رویہ نہیں اپناتے جس کا انہوں نے اپنے بچپن میں سامنا کیا ہوتا ہے۔‘

وقار احمد کے خیال میں بچوں کے ساتھ زور زبردستی یا دھونس کا رویہ اپنانا کسی طور درست نہیں تاہم، وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو مکمل طور پر اُن کے حال پر چھوڑ دینا بھی ٹھیک روش نہیں۔

ڈرامے میں مایا (عینا آصف) کا کردار بھی بہت مضبوط ہے جو ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہے (سکرین گریب)’آج کل بچوں میں ڈسپلن کا فقدان اسی لیے ہے کیونکہ آپ نے مکمل طور پر انہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے بچوں میں کانفیڈنس تو بہت زیادہ آ گیا ہے لیکن کانٹینٹ کی کمی ہے۔ کانفیڈنس اور بدتمیزی میں فرق بتانا بہت ضروری ہے۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ والدین کو بچوں پر جسمانی سزا یا تشدد بالکل نہیں کیا جانا چاہیے لیکن انہیں مورل ویلیوز (اخلاقی اقدار) سمجھانے اور ان کے ’امپلس کنٹرول‘ (رویوں کی  لیے ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ بچے ان سے بدظن نہ ہوں۔

’مثال کے طور پر والدین بچے کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں تمہاری فلاں بات مانوں گا اگر تم میری یہ بات مانو۔ کچھ بچوں کی مان کر کچھ اپنی منوائی جا سکتی ہے۔‘

والدین کی جانب سے اکثر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ بچے فرمانبردار نہیں، بات نہیں مانتے جبکہ بچوں کا شکوہ ہوتا ہے کہ والدین انہیں سمجھ نہیں رہے، اس حوالے سے وقار احمد نے کہا کہ بچے کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

’والدین اپنے بچے کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتے بلکہ اگر غور کریں تو آپ اس کے روّیے میں اپنا آپ بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ بچہ ایک بلینک سلیٹ (سادہ تختی) کی مانند ہوتا ہے آپ جو کچھ اس پر تحریر کریں گے وہی آپ کو نظر آئے گا۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More