’میٹھی اور چِپچپی موت‘، جب بوسٹن میں شِیرے کا سیلاب آیا

اردو نیوز  |  Apr 28, 2025

’وہ ایک عجیب سی آواز تھی، شاید گڑگڑاہٹ اور پُھنکار کے بیچ کی کوئی چیز، لگا جیسے زلزلہ آ رہا ہے۔ پیچھے دیکھا تو ایک گہرے بھورے رنگ کی لہر دکھائی دی جو عمارتوں سے بھی بلند تھی اور سب کچھ روندتے ہوئے میری طرف ہی آ رہی تھی۔‘

یہ بات جوزف ہیلر نے ہسپتال میں ایک اخبار ’بوسٹن گلوب‘ کو بتائی تھی جو اس پلانٹ سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر تھے جہاں سانحہ ہوا، وہ اپنی پوری رفتار سے بھاگنے کے باوجود بھی اس کی لپیٹ میں آئے، تاہم بچ گئے مگر سب لوگ اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔

میٹھا سیلاب، تلخ یادیں

دنیا میں سیلاب آتے رہے ہیں، مگر امریکہ کے شہر بوسٹن میں آنے والا یہ عام پانی والا سیلاب نہیں بلکہ شِیرے کا سیلاب تھا تقریباً ویسا ہی مواد جیسا شوگر ملز میں چینی یا بیلنوں میں گڑ بننے سے قبل بنایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کو ’میٹھا سیلاب‘ بھی کہا جاتا ہے اور امریکہ میں آج بھی اس کا ذکر لوک داستانوں کے طور پر ہوتا ہے۔

ہوا کیا تھا؟

یہ ذکر ہے 15 جنوری 1919 کا، جب امریکہ کے شہر بوسٹن کی ایک عجیب سی صورت حال بنی۔ اس روز دن 12 بج کر 29 سیکنڈز تک زندگی معمول پر تھی، لوگ اپنے دفاتر میں کام کر رہے تھے کچھ لنچ کے لیے باہر نکلے تھے، بچے سکولوں میں تھے مگر گھڑی کی سوئی ایک سانحے کی طرف بڑھ رہی تھی اور پھر ساڑھے 12 بج ہی گئے۔

ٹینک پھٹتے ہی 50 میٹر تک اونچی اور 160 فٹ چوڑی لہرا پیدا ہوئی، جس کی رفتار 56 کلومیٹر فی گھنٹہ بتائی گئی۔ اس کے راستے میں آنے والی ہر چیز تباہ ہوتی چلی گئی۔ شہر میں افراتفری پھیل گئی اور لوگ جانیں بچانے کے لیے بھاگتے رہے عینی شاہدین نے لوگوں کو لہروں میں تنکوں کی طرح بہتے بھی دیکھا۔

 سانحے کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ اسی طرح بڑی تعداد میں جانور بھی مارے گئے جن میں سب سے زیادہ کتے، گھوڑے اور بلیاں شامل تھیں۔

بوسٹن میں عین اس مقام پر سبز رنگ کی یادگاری تختی موجود ہے جہاں سانحے کا باعث بننے والا ٹینک تھا (فوٹو: بوسٹن ڈاٹ کام)میٹھی اور چپچپی موت

ٹینک کے اچانک پھٹنے سے شیرہ کسی لاوے کی مانند شہر کی گلیوں میں پھیلنا شروع ہوا۔

سانحے کے بعد بعض اخبارات نے اس کو ’میٹھی اور چپچپی موت‘ بھی قرار دیا۔ اس وقت کی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کافی سرد دن تھا مگر شیرہ بہہ نکلنے کے بعد شہر کے درجہ حرات میں شدید اضافہ ہوا اور 40 ڈگری تک پہنچا۔

ایک روز قبل ہی ٹینک میں شیرے کی کافی بڑی مقدار ڈالی گئی تھی جس کو آگے سپلائی کرنے کے لیے گرم کیا جا رہا تھا جس کے دوران ٹینک پھٹ گیا اور بہہ نکلنے والا مواد پانی کی نسبت 40 گنا زیادہ گاڑھا تھا۔

جہازی ٹینک، جو سانحے کی وجہ بنا

بوسٹن کی کمرشل سٹریٹ میں کاپ ہل کے مقابل ایک بہت بڑی ڈسٹلنگ کمپنی کا پلانٹ تھا جہاں الکحل کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد تیار کیا جاتا ہے جو کہ یونائیٹڈ سٹیس انڈسٹریل الکحل (یو ایس ٓئی اے) کی ملکیت تھی۔

اس وقت الکحل کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد کا سب سے بڑا سورس شیرہ تھا جو چینی یا دوسرے میٹھے مواد سے بنایا جاتا ہے، گاڑھے بھورے رنگ کے اس مادے کو جہازی سائز کے ٹینک میں سٹور کیا جاتا تھا اور الکحل بنانے والی کمپنیز کو سپلائی کیا جاتا تھا۔

یہ اس دور کا منافع بخش کاروبار تھا جبکہ اسی کمپنی کے خمیرشدہ شیرے کو پہلی عالمی جنگ کے دوران گولہ بارود اور ہتھیاروں کی بناوٹ کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔

ٹینک پھٹنے سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی (فوٹو: بوسٹن ڈاٹ کام)

اس ٹینک کے سائز سے عیاں ہے کہ اس وقت یہ کس قدر منافع بخش کام تھا اور اس کی کتنی مانگ تھی۔ اس کی اونچائی 50 فٹ سے زائد جبکہ چوڑائی 100 فٹ کے قریب تھی، جس میں 95 لاکھ لیٹر شیرہ رکھنے کی گنجائش تھی۔

جنگ ختم ہونے کے بعد کمپنی نے اناج سے الکحل بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

’عجلت کا کام‘

یہ ٹینک 1915 میں عالمی جنگ کے دوران بنایا گیا تھا جس کو بعض ماہرین نے ’عجلت کا کام‘ قرار دیا تھا کیونکہ اس کی بناوٹ کے دوران بھی مسائل سامنے آتے رہے اور اکثر لیکیج اور دوسری مشکلات کھڑی ہوتی رہیں۔ اکثر اس میں سے گڑگڑاہٹ کی آوازیں بھی خارج ہوتیں، تاہم اس کے باوجود بھی کمپنی نے اپنا کام جاری رکھا۔

امدادی کارروائیاں

رپورٹس کے مطابق اگرچہ واقعے کے بعد جلد ہی امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور کام شروع کیا گیا تاہم شیرے کے گاڑھے پن اور کئی مقامات پر جمنے کی وجہ سے ان میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

لوگوں کو نکالنے کے بعد بھی امدادی کام کئی ماہ تک چلا تاہم بوسٹن کی فضاؤں میں کئی سال بعد بھی شیرے کی بو محسوس کی جاتی رہی۔

سانحے کے بعد مقامی اخبار کا پہلا صفحہ (فوٹو: بوسٹن ڈاٹ کام)کمپنی کو نقصانات کا ازالہ کرنے کا حکم

واقعے کے بعد کمپنی کے خلاف بے شمار کیس کیے گئے جن میں کہا گیا تھا کہ ٹینک محفوظ نہیں تھا اور اس کے باوجود بھی اس میں اتنا مواد ڈالا گیا جو انسانوں زندگیوں کے لیے خطرے کا باعث بنا جن کو کمپنی کی جانب سے غلط قرار دیا گیا۔

تاہم بعدازں 1925 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا گیا جس میں ٹینک کو غیرمحفوظ قرار دیا گیا اور کمپنی کو لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کا کہا گیا جبکہ سانحے کے بعد عمارتوں اور دوسرے مقامات کی تعمیر کے لیے سخت قوانین بھی وضع کیے گئے۔

بعدازاں برسوں یہ بحث جاری رہی کہ ایک نسبتاً کم خطرناک مواد اتنا خطرناک کیسے ثابت ہوا، جس پر ماہرین کی جانب سے بتایا گیا کہ سرد موسم کی وجہ سے شیرا جلد جمنا شروع ہو گیا تھا جس سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات پیش آئیں اور اگر موسم گرم ہوتا تو شاید کم نقصان ہوتا، یہ بھی بتایا گیا کہ جانی نقصان عمارتوں سے گرنے اور ان میں دب جانے کی وجہ سے ہوا۔

واقعے کے بعد کئی ماہ تک امدادی کارروائیاں جاری رہیں (فوٹو: بوسٹن گلوب)ڈارک ٹائیڈ

اس واقعے کے 100 سال پورے ہونے پر مصنف سٹیفن پیولیو کی کتاب ’ڈارک ٹائیڈ‘ سامنے آئی، جس کے لیے انہوں نے اس مقام کا دورہ کیا اور بتایا کہ ٹھیک اسی مقام پر جہاں ٹینک موجود تھا، ایک سبز رنگ کی تختی لگائی گئی ہے جس پر سانحے کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں۔

’بُو اب بھی آتی ہے‘

اگرچہ اس واقعے کو آنکھوں سے دیکھنے والا کوئی شخص شاید ہی زندہ ہو مگر بوسٹن ہی نہیں امریکہ بھر میں ایسی لوک داستانیں مشہور ہیں جن میں اس کے بارے میں حیرت انگیز قصے بیان کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آج بھی گرمی کے دنوں میں شہر کی فضا میں شیرے کی بو محسوس ہوتی ہے، کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ 15 جنوری کو ساڑھے 12 کے قریب ویسی ہی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی ہے جیسی اس دور کے عینی شاہدین نے بتائی تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More