انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح افراد کے حملے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان اور انڈیا کے معاملات میں ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس حملے کے تناظر میں انڈیا کی جانب سے متعدد سخت اقدامات کیے گئے جن میں اٹاری سرحد کی بندش، سفارتی عملے میں کمی اور ویزوں پر پابندی کے علاوہ چھ دہائی پرانے سندھ، طاس معاہدے پرعملدرآمد کی معطلی بھی شامل ہے۔
اسی طرح پاکستان نے بھی انڈیا سے دو طرفہ معاہدے معطل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے، فضائی حدود اور واہگہ سرحد بند کرنے اور دو طرفہ تجارت کا عمل معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان نے بھی انڈیا کی طرح دفاعی اتاشیوں اور اُن کے معاونین کو ملک چھوڑنے اور سفارتی عملہ محدود کرنے کو کہا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت جمعرات کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رُخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور یہ کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کر سکتا ہے۔
اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان شملہ معاہدے سمیت کتنے دو طرفہ معاہدے ہیں اور اُن کی نوعیت کیا ہے؟
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کتنے دو طرفہ معاہدے ہیں؟Getty Imagesپاکستان اور انڈیا کے درمیان مجموعی طور پر 40 دو طرفہ معاہدے ہیں
پاکستان میں انڈیا کے ہائی کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان مجموعی طور پر 40 دو طرفہ معاہدے ہیں۔ یہ معاہدے تجارت، ویزوں کے حصول، جوہری ہتھیاروں کی فہرست کے تبادلہ، سرحدی امور، سکیورٹی، جوہری تجربات سے متعلق قبل از وقت آگاہ کرنے سے لے کر پانی کی تقسیم سے متعلق سندھ طاس معاہدہ، شملہ اور تاشقند معاہدوں اور لاہور اعلامیے پر مشتمل ہیں۔
ان میں سے چند اہم باہمی معاہدے یہ ہیں:
کسٹمز امور پر باہمی تعاون اور مدد کا معاہدہجوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرے کو کم کرنے کا معاہدہبیلیسٹک میزائل کے تجربات میں پیشگی اطلاع کا معاہدہدو طرفہ تعلقات سے متعلق لاہور اعلامیہ یا لاہور معاہدہدونوں ممالک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی روک تھام اور عسکری جہازوں کی لینڈنگ اور پرواز سے متعلق معاہدہعسکری مشقوں اور عسکری نقل حرکت کی صورت میں قبل از وقت آگاہ کرنے کا معاہدہجوہری تنصیبات پر حملے کی ممانعت کا معاہدہثقافتی تعاون اور فروغ کا معاہدہتجارت، تعلیم، صحت، سیاحت اور صنعتی شعبے میں مشترکہ مفادات کے لیے جوائنٹ کمیشن کے قیام کا معاہدہدریائے چناب پر صلال ہائیڈرو پاور الیکٹرک پلانٹ کا معاہدہٹیلی کمیونیکشنیا مواصلات سے متعلق معاہدےفضائی خدمات کا معاہدہریلوے مواصلات سے متعلق معاہدہباہمی تجارت کے مختلف ادوار میں ہونے والے معاہدےپاکستان اور انڈیا سے ہونے والی تجارت کا معاہدہویزوں کے حصول سے متعلق معاہدہانڈیا اور پاکستان کے درمیان 1971 کی جنگ سے قبل کسی بھی ملک میں نظر بند افراد کی رہائی اور وطن واپسی کا معاہدہدو طرفہ تعلقات سے متعلق شملہ معاہدہانڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجوں کے انخلا کا معاہدہتاشقند معاہدہسندھ طاس معاہدہمحدود ادائیگی یا رقوم کی منتقلی کا معاہدہمختلف ادوار میں ایڈہاک بنیادوں پر سندھ طاس نظام میں پانی کی تقسیم کے معاہدےمالیاتی معاملات سے متعلق معاہدہانڈیا اور پاکستان کے درمیان ریل بحالی کا معاہدہاقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نہرو لیاقت یا دہلی معاہدہانڈیا اور پاکستان کے مابین بینکاری سے متعلق معاہدہفضائی سروس سے متعلق معاہدہانڈیا اور پاکستان میں آمدن پر دوہرے ٹیکس سے بچاؤ کا معاہدہ
اگرچہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان گذشتہ 77 برسوں کے دوران کم و بیش 40 دو طرفہ معاہدے ہوئے ہیں تاہم اِن میں سے چند انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
ہم یہاں انھیں چند معاہدوں کے بارے میں تفصیل پیش کر رہے ہیں۔
شملہ معاہدہGetty Imagesشملہ معاہدہ 1971 کی جنگ کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف ایک اہم قدم سمجھا جاتا ہے
پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک اور اہم دوطرفہ معاہدہ شملہ معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ 1971 کی جنگ کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف ایک اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔
یہ معاہدہ دو جولائی 1972 کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ ایک امن معاہدہ تھا جو انڈین ریاست ہماچل پردیش کے دار الحکومت شملہ میں ہوا تھا اسی وجہ سے اسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے۔
اس کے اہم نکات میں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا پرامن تصفیہ اور کسی فریق ثالث کی مداخلت کے بغیر دو طرفہ اور پرامن طریقے سے تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر حل کرنے پر اتفاق کرنا، علاقائی خودمختاری اور سالمیت کا احترام، سیاسی آزادی اور داخلی معاملات میں عدم مداخلت کا احترام کرنا شامل تھا۔
اس معاہدے میں جموں اور کشمیر میں سرحدی لائن کو ایل او سی کے طور پر نامزد کیا گیا تھا، دونوں فریقوں نے یکطرفہ طور پر اسے تبدیل نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اسی معاہدے کے تحت انڈیا نے بنگلہ دیش جنگ کے دوران 93,000 پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور پائیدار امن کا قیام کی کوشش کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
جوہری تنصیبات اور سہولیات پر حملے کی ممانعت کا معاہدہAFPاس معاہدے کا مقصد جوہری تصادم کے خطرے کو کم کرنا اور جوہری تنصیبات کے حوالے سے یقین دہانی اور شفافیت فراہم کرنا ہے
انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک اور دوطرفہ اہم معاہدہ جوہری تنصیبات اور سہولیات پر حملے کی ممانعت کا ہے۔
اس معاہدے پر 31 دسمبر 1988 کو دستخط کیے گئے تھے اور 27 جنوری 1991 کو یہ نافذ العمل ہوا۔ اس کے کلیدی نکات میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات اور سہولیات پر حملہ یا تباہ نہ کرنے پر اتفاق کرنا، ہر سال یکم جنوری کو اپنی جوہری تنصیبات اور سہولیات کی فہرستوں کا تبادلہ کرنے، جوہری ری ایکٹر، فیول فیبریکیشن، ری پروسیسنگ، اور تحقیقی سہولیات کے ساتھ ساتھ دیگر تنصیبات کا احاطہ کیا گیا جہاں جوہری مواد موجود ہے۔
اس معاہدے کا مقصد جوہری تصادم کے خطرے کو کم کرنا اور جوہری تنصیبات کے حوالے سے یقین دہانی اور شفافیت فراہم کرکے خطے میں استحکام کو فروغ دینا ہے۔
فوجی مشقوں اور عسکری نقل حرکت کی صورت میں پیشگی آگاہ کرنے کا معاہدہ
انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی مشقوں اور عسکری نقل و حرکت پر پیشگی اطلاع پر معاہدے کا مقصد شفافیت کو بڑھانا اور فوجی سرگرمیوں کی غلط تشریح کے خطرے کو کم کرنا ہے۔
یہ معاہدہ چھ اپریل 1991 میں کیا گیا تھا اور اس کے اہم نکات میں دونوں ممالک سرحد کے قریب یا حساس علاقوں میں فوجی مشقوں، اور عسکری سازو سامان کی نقل و حرکت کے بارے میں پیشگی اطلاع فراہم کرنے پر متفق ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی مشقوں یا مخصوص حد سے تجاوز کرنے والے عسکری دستوں کی نقل و حرکت کی دوسرے ملک کو پیشگی اطلاعات دینے کے پابند ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس معاہدے کے تحت دو طرفہ عسکری معلومات جس میں مشق کی نوعیت، مقام، مدت، اور اس میں شامل فوجیوں کی تعداد شاملفراہم کرنا شامل ہے۔ اس معاہدے کا مقصد دو طرفہ غلط فہمیوں کی روک تھام، تناؤ کو کم کرنا، اور دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کو فروغ دینا ہے۔
فضائی حدود کی خلاف ورزی کی روک تھام اور عسکری جہازوں کی لینڈنگ اور پرواز سے متعلق معاہدہGetty Imagesاس معاہدے کا مقصد خطے میں سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے، غلط فہمیوں اور غیر ارادی طور پر کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کی روک تھام اور عسکری طیاروں کو اوور فلائٹس اور لینڈنگ کی اجازت دینے کے معاہدے کا مقصد حادثاتی یا غیر مجاز اوور فلائٹس کو روکنا اور محفوظ ہوا بازی کے طریقوں کو فروغ دینا ہے۔
یہ معاہدہ بھی چھ اپریل 1991 کو ہوا تھا اور اس کے اہم نکات میں دونوں ممالک پیشگی اجازت کے بغیر ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کرنے پر متفق ہیں۔
فوجی طیاروں کو ایک دوسرے کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے پیشگی اطلاع فراہم کرنے، معاہدے میں مخصوص شرائط کے تحت جن میں کسی ہنگامی حالات میں اوور فلائٹس کی اجازت دینا، ہنگامی لینڈنگ کے طریقہ کار اور دونوں ممالک کے درمیان اطلاع اور تعاون کے علاوہ دونوں ممالک حادثاتی یا غیر مجاز اوور فلائٹس کو روکنے کے لیے ضروری حفاظتی اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔
اس معاہدے کا مقصد خطے میں سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے، غلط فہمیوں اور غیر ارادی طور پر کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
بیلیسٹک میزائل کے تجربات میں پیشگی اطلاع کا معاہدہGetty Imagesانڈیا اور پاکستان کے درمیان بیلسٹک میزائلوں کے تجربے کی پیشگی اطلاع کے معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان شفافیت کو بڑھانا اور میزائل تجربات کی غلط تشریح کے خطرے کو کم کرنا ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان بیلسٹک میزائلوں کے تجربے کی پیشگی اطلاع کے معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان شفافیت کو بڑھانا اور میزائل تجربات کی غلط تشریح کے خطرے کو کم کرنا ہے۔
یہ معاہدہ تین اکتوبر 2005 میں طے ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کا بیلسٹک میزائل تجربات کی پیشگی اطلاع فراہم کرنے پر اتفاق، میزائل کی قسم، لانچ کی جگہ، اور متوقع متاثرہ علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کرنا شامل ہے۔
اس معاہدے کے تحت ایک اطلاع کی مدت کا تعین طے ہے یعنی مقررہ ٹیسٹ سے پہلے چند دنوں سے لے کر ایک ہفتہ تک یہ اطلاع دی جا سکتی ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرے کو کم کرنے کا معاہدہ
انڈیا اور پاکستان کے درمیان جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات سے خطرات کو کم کرنے کے معاہدے کا مقصد جوہری حادثات کو روکنا اور غیر ارادی جوہری تصادم کے خطرے کو کم کرنا ہے۔
یہ معاہدہ 21 فروری 2007 کو طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کسی بھی جوہری حادثے یا غیرارادی ایٹمی دھماکے کی صورت میں فوری طور پر ایک دوسرے کو مطلع کرنے پر متفق ہیں۔ اس معاہدے کے تحت معلومات اور اطلاعات کے تبادلے کے لیے خصوصی رابطہ چینلز قائم کرنا، دونوں ممالک جوہری حادثات کو روکنے اور غیر مجاز جوہری استعمال کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
اس معاہدے کے تحت کسی بھی ایسے حادثے کی صورت میں تابکاری کے اثرات کو محدود رکھنے سے متعلق اقدامات کے متعلق معلومات کا دو طرفہ تبادلہ کرنا شامل ہے۔
لاہور ڈیکلریشنAFPلاہور معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے مابین 21 فروری 1999 کو طے پایا تھا
پاکستان اور انڈیا کے دو طرفہ تعلقات میں ایک اہم پیش رفت لاہور اعلامیہ یا لاہور معاہدہ بھی ہے۔ یہ دو طرفہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے مابین 21 فروری 1999 کو طے پایا۔ اس معاہدے پر انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جبکہ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دستخط کیے۔
یہ معاہدہ لاہور میں تاریخی مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ لاہور اعلامیہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک میں ایٹمی تجربات کے بعد ہونے والا معاہدہ تھا جو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بڑی پیش رفت قرار دیا گیا۔
اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان امن اور استحکام کو فروغ دینا تھا۔اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو پرامن بات چیت اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔
اعلامیے میں جوہری تصادم کے خطرے کو کم کرنے اور جوہری تحفظ اور سلامتی کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس معاہدے میں کہا گیا کہدونوں ممالک ایک دوسرے کی خودمختاری، علاقائی سالمیت کا احترام کرنے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے پابند ہیں۔ جبکہاعلامیہ میں دہشت گردی کی تمام صورتوں اور مظاہر کی مذمت کی گئی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
مذہبی مقامات پر زائرین کے دوروں کا معاہدہ
انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذہبی مقامات پر زائرین کے دورے کے معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان مذہبی مقاصد کے لیے سفر کو آسان بنانا تھا۔
یہ دو طرفہ معاہدہ 14 ستمبر 1974 میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹریز کی سطح پر کیا گیا تھا۔
اس معاہدے کے اہم نکات میں زائرین کو ویزہ کے بغیر یا مخصوص مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے خصوصی ویزا جاری کرنے کے انتظامات کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دینا، دونوں ممالک میں نامزد مذہبی مقامات تک زائرین کو رسائی فراہم کرنا، ثقافتی اور مذہبی تبادلے کو فروغ دینا شامل ہے۔
اس معاہدے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سفر کے خصوصی انتظامات، جیسے کہ گروپ ٹور یا انفرادی دورے کو محفوظ بنانے کے لیے سہولت فراہم کی جائےگی، دونوں ممالک زائرین اور سیاحوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔
دہلی معاہدہGetty Imagesدہلی معاہدہ پر آٹھ اپریل 1950 کو انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان نے دستخط کیے تھے
نہرو، لیاقت معاہدہ، جسے دہلی معاہدہ بھی کہا جاتا ہے، آٹھ اپریل 1950 کو انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تھا۔
اس معاہدے کے اہم نکات میں دونوں ممالک کی جانب سے اقلیتوں کی جان و مال اور عزت کے تحفظ پر اتفاق کرنا، مذہب یا نسل سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق اور روزگار سمیت دیگر مواقع فراہم کرنے پر زور دینا، مذہب، نسل، ذات یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو ختم کرنا اور انھیں تعلیم، صحت کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ طور پر عبادت کرنے کی اجازت دینے کا عہد شامل تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ بٹوارے کے دوران کسی بھی ملک میں ہنگاموں کے دوران اغوا شدہ خواتین اور لوٹی ہوئی املاک کی واپسی کے لیے ہر ممکن تعاون اور کوشش کرنا شامل تھا۔ دونوں ممالک نے معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کے لیے دونوں ممالک میں اقلیتی کمیشن قائم کیے گئے تھے۔
سندھ طاس معاہدہAFP
انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔
اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے اور یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہو گا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 65 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کے منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی متنازع منصوبے کے حل کے لیے بھی کام کرتا ہے تاہم اگر کمیشن مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا تو معاہدے کے مطابق حکومتیں اسے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ، معاہدے میں ماہرین کی مدد لینے یا تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لیے ثالثی عدالت میں جانے کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا تھا۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس کے حتمی معاہدے تک پہنچنے سےقبل سنہ 1959، 1957، 1955 میں بھی دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق ایڈہاک بنیادوں پر مختلف معاہدات ہوئے اور انھیں معاہدات نے سندھ طاس معاہدے کو جنم دیا تھا۔
شملہ معاہدے سمیت دیگر معاہدوں کو معطل کرنے کا کیا مطلب ہو گا؟
انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے جواب میں پاکستان کا کہنا ہے کہ وہپانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رُخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کرے گا اور یہ کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت دیگر تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کر سکتا ہے۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے قائد اعظم یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی سطح پر ان دو طرفہ معاہدات پر عملدرآمد روک دیا جاتا ہے تو یہ دونوں پڑوسی ممالک میں کشیدگی اور تناؤ میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔
اُن کے مطابق جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کی جانب سے اس نوعیت کے اہم معاہدے ختم کرنے سے خطے کا توازن بگڑے گا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا تناؤ دونوں ممالک کو روایتی جنگ کے دھانے پر بھی لے جا سکتا ہے۔
پروفیسر اشتیاق کے مطابق اِن معاہدوں پر عملدرآمد رُکنے کی وجہ سے دونوں ممالک متاثر ہوں گے اور ان کی معیشتوں پر بھی اس کے اثرات ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان انڈیا کی طرح یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے کوئی اہم باہمی معاہدہ معطل کرتا ہے تو اس صورت میں عالمی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مطابق ’ایسے معاہدے جن کے ثالث عالمی ادارے یا طاقتیں ہوں تو ایسے معاہدوں میں یکطرفہ تبدیلی یا مداخلت اتنی آسانی سے نہیں کی جا سکتی ہے۔‘
دوسری جانب تجزیہ کار ہما بقائی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شملہ معاہدے کو تو ایک ایسا تھریٹ کہہ سکتے ہیں جس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا مگر انڈیا کے ساتھ ہاٹ لائنز اور ہمارے نیوکلیئر معاملات سے متعلق معاہدے بھی ہیں جبکہ لائن آف کنٹرول سے متعلق بھی ایک اہم دو طرفہ معاہدہ موجود ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کے اہم معاہدات کی معطلی کے دیرپا اثرات ہو سکتے ہیں اور عالمی برادری کبھی نہیں چاہے گی کہ دونوں نیوکلیئر ممالک کے تعلقات میں زیادہ خرابی پیدا ہو اور وہ اس نہج تک پہنچیں۔