بائی سرن کی وادی کے سرسبز میدان میں ایک لاش کے پاس بیٹھی خاتون کی تصویر منگل کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر ہوئے حملے کے بعد سے انڈین سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہے۔
یہ تصویر انڈین بحریہ کے افسر ونے نروال اور اُن کی اہلیہ ہمانشی کی ہے۔ 26 سالہ لیفٹیننٹ ونے نروال منگل کو ہونے والے اس حملے میں مارے جانے والے 26 افراد میں شامل ہیں۔
اس حملے کے فوری بعد واقعے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی جس میں ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی کو یہ کہتے دیکھا جا سکتا ہے کہ ’میں یہاں تھی، بھیل پوری کھا رہی تھی، میرے شوہر اِس طرف تھے، ایک شخص نے آ کر انھیں گولی مار دی۔‘
ونے نروال کا خاندان انڈین ریاست ہریانہ کے ضلع کرنال کے گاؤں بھوسلی سے تعلق رکھتا ہے مگر اُن کی رہائش کرنال شہر کے سیکٹر سات میں ہے۔
ونے اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اُن کی شادی آٹھ روز قبل یعنی 16 اپریل کو ہوئی تھی اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہنی مون پر کشمیر گئے ہوئے تھے۔
ونے کے دادا ہوا سنگھ نروال نے بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ شادی کے بعد سوئٹزرلینڈ جانا چاہتا تھا لیکن ویزا نہیں ملا، اس لیے وہ کشمیر چلا گیا۔‘
اہلخانہ کے مطابق ونے نروال نے دو برس قبل انڈین بحریہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اُن کے دادا کا کہنا تھا کہ ’اگر اسے گولی نہ لگی ہوتی تو شاید وہ دو چار دہشت گردوں کو مار دیتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اُس کی موت کا بدلہ لیا جائے۔ یہ شورش ختم ہو۔ جن لوگوں نے یہ کیا ہے انھیں پکڑا جانا چاہیے اور اُن کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔‘
ان کی موت پر انڈین بحریہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل دنیش ترپاٹھی اور تمام انڈین بحریہ کے اہلکار پہلگام میں اس بزدلانہ حملے میں لیفٹیننٹ ونے نروال کی موت سے صدمے میں ہیں۔‘
انڈین حکومت نے اس واقعے میں مارے جانے والے 25 افراد کی ایک فہرست جاری کی ہے جن کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے ہے۔ ہلاک شدگان کی لاشیں سرینگر پہنچائی جا چکی ہیں اور بدھ کو انھیں ان کے آبائی علاقوں تک بھیجنے کا عمل شروع ہو گا۔
ونے نروال کے علاوہ اس حملے میں حسین شاہ نامی ایک مقامی کشمیری بھی مارے گئے۔ حسین شاہ پہلگام میں سیاحوں کو سفر کے لیے خچر اور گھوڑے فراہم کرتے تھے۔
ان کے رشتہ دار سید حیدر شاہ نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ ’حسین مزدوری کے لیے وہاں گھوڑے چلانے گیا تھا۔ہمیں تین بجے اس واقعے کی رپورٹ ملی۔‘
جب ہم نے اس کو فون کیا تو کال نہیں مل سکی۔ چار بجے کے بعد اس کا فون آن ہوا مگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ بعدازاں ہسپتال گئے تو وہاں اس کی میت پڑی تھی۔‘
اس حملے میں مرنے والوں میں کرناٹک کی کاروباری شخصیت منجوناتھ بھی شامل ہیں، جو اپنی اہلیہ پلوی اور بیٹے ابھیجے کے ساتھ کشمیر گئے تھے اور اپنے دورے کے تیسرے دن پہلگام پہنچے تھے۔
پلوی کہتی ہیں کہ حملہ ان کے پہلگام پہنچنے کے فوراً بعد ہوا اور ان کے شوہر کو ان کے سامنے گولی لگی۔
انھوں نے انڈیا کے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’میں نے حملہ آوروں کو کہا کہ مجھے بھی مار ڈالو۔ میرے بیٹے نے بھی کہا کہ تم نے میرے والد کو مار دیا تو اب ہم دونوں کو بھی مار ڈالو۔ جس پر حملہ آور نے کہا کہ ہم آپ کو نہیں ماریں گے۔ جاؤ مودی کو بتا دو۔‘
منجوناتھ کی بہن روپا نے بتایا کہ ’میرے بھائی کے دوست نے منگل کی شام ساڑھے چار بجے فون پر اس حملے کے بارے میں ہمیں بتایا اور کہا کہ منجوناتھ ہسپتال میں داخل ہیں۔ بعد میں خبروں کے ذریعے ہمیں ان کی موت کا علم ہوا۔ وہ اپنی زندگی میں پہلی بار کشمیر گئے تھے۔‘
مرنے والوں میں انڈین ریاست مہاراشٹر کے چھ سیاح بھی شامل ہیں۔ مہاراشٹر کے ضلع تھانے سے تعلق رکھنے والے سنجے لیلا، اتول مونے اور ہیمنت جوشی مرنے والوں میں شامل ہیں جبکہ باقی دو کا تعلق پونے اور ایک کا تعلق پنویل سے تھا۔
BBCمہاراشٹر کے ضلع تھانے سے تعلق رکھنے والے سنجے لیلا، اتول مونے اور ہیمنت جوشی مرنے والوں میں شامل ہیں
ضلع تھانے کے سنجے لیلا کی عمر 50 برس کے لگ بھگ تھی اور وہ ممبئی میں ادویات کی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کا ایک بیٹا ہے، جس کی عمر 18 برس ہے۔
سنجے لیلا کے کزن نے بی بی سی مراٹی کو بتایا کہ ’ہمیں اس بارے میں گذشتہ رات علم ہوا۔ ان کا خاندان صدمے میں ہے۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ ہم وہاں سیاحت کے لیے جاتے ہیں اور بدقسمتی ہے کہ ایسا کچھ ہو جائے۔‘
ضلع تھانے کے 43 سالہ اتول مونے انڈین ریلوے میں بطور انجینیئر کام کر رہے تھے۔وہ اپنی بیوی اور 18 سالہ بیٹی کے ساتھکشمیر سیاحت کے لیے گئے تھے۔
پنویل کے رہائشی کا نام دلیپ تھا اور ان کی عمر 60 برس تھی۔ ان کے ساتھ 42 برس کے سوبدھ پٹیل بھی موجود تھے، جو اس حملے میں زخمی ہوئے اور ان کا سرینگر کے ہسپتال میں علاج جاری ہے۔
انتظامیہ کے مطابق پونے سے تعلق رکھنے والے سنتوش جگدالے اور کوستبھ گمبوٹے ہلاک ہو گئے ہیں تاہم سنتوش جگدالے کی اہلیہ زخمی ہیں اور ان کا علاج جاری ہے۔
منگل کی دوپہر پہلگام میں کیا ہوا؟
حسین شاہ تو اس حملے میں جان سے گئے مگر اسی روزگار سے وابستہ ایک اور شخص نے اس حملے کو رونما ہوتے دیکھا اور نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کی۔
ان کا کہنا تھا ’مجھے اُن کی درست تعداد کا اندازہ نہیں مگر حملہ آور گھاس کے میدان کے قریب والے جنگل سے اچانک باہر آئے اور انھوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ وہ لوگ خواتین کو چھوڑ رہے تھے اور مردوں پر گولی چلا رہے تھے۔‘
عینی شاہد نے کہا کہ ’ایک طوفان سا تھا۔ کبھی وہ ایک گولی چلاتے اور کبھی ایک ساتھ کئی گولیاں چلا دیتے۔‘
پہلگام کے اس مقام پر موجود عینی شاہدین کے مطابق جس وقت اس حملے کے آغاز ہوا اس وقت بڑی تعداد میں سیاح اور مقامی افراد وہاں موجود تھے۔
خبررساں اداروں ’روئٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ نے نام ظاہر کیے بغیر ایک عینی شاہد کے بیان پر مبنی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس عینی شاہد نے بتایا کہ ’یہ سب ہمارے سامنے ہوا۔ ابتدا میں ہم نے سوچا کہ کوئی پٹاخہ پھوڑ رہا ہے۔ جب دوسرے لوگ چیخنے لگے تو ہم وہاں سے بھاگے اور اپنی جان بچائی۔‘
ایک دوسرے عینی شاہد نے بتایا کہ فائرنگ کی آواز سُن کر وہ ’چار کلومیٹر تک بھاگتے رہے اور رُکے نہیں۔ 'میں ابھی بھی کانپ رہا ہوں۔‘
اے ایف پی نے کرناٹک کی ایک مارکیٹنگ کمپنی میں کام کرنے والیخاتونپلّوَی سے بھی بات کی ہے جن کے شوہر اس حملے میں مارے گئے۔
پلوی خود بھی اپنے شوہر کے ہمراہ موجود تھیں تاہم انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کو بچانے کے لیے کچھ نہ کر سکیں۔
انھوں نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ ’میرے شوہر نے میرے سامنے جان دے دی اور میں کچھ نہ کر سکی۔ میرے بیٹے اور میں نے حملہ آوروں کی مِنّت کی کہ انھیں نہ مارو۔ لیکن وہ نہیں مانے۔ ہمیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔‘
EPAوادی بائی سرن تک ہائیکنگ یا گھوڑوں کی مدد سے ہی پہنچا جا سکتا ہے اور اب اس علاقے میں ہر طرف سکیورٹی تعینات ہے
حملے کے وقت بائی سرن میں موجود ایک سیاح خاتون نے ’اے این آئی‘ کو بتایا کہ اگر انھیں دو منٹ کی دیر ہو جاتی تو شاید آج وہ بھی دنیا میں موجود نہ ہوتیں۔
یہ خاتون سیاح اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ بائی سرن کی سیر کے لیے گئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب حملہ شروع ہوا تو ’لوگوں نے آواز دی کہ فائرنگ ہو رہی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ چلتے جائیے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم دوڑ رہے تھے اور پیچھے سے لوگ آ رہے تھے اور ہمیں دھکے لگ رہے تھے۔ میں لوگوں کے پیروں میں آ گئی تھی۔‘
خاتون سیاح کا کہنا تھا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تھی تو وہ اس وقت وہ بائی سرن سے واپس آنے کے لیے نکل رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ وہاں انھوں ایک شخص کو روتے ہوئے سُنا کیونکہ اس کے بھائی اس حملے میں مارے گئے تھے۔ ’لیکن وہاں کسی کے پاس وقت نہیں تھا کہ وہ واپس جا کر انھیں ڈھونڈے۔ سب بس آگے بڑھتے جا رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ہوش ہی نہیں تھا۔ بس دو منٹ کا فاصلہ تھا۔ اگر دو منٹ میں ہم باہر نہیں نکل پاتے تو آج ہم بھی یہاں پر دکھائی نہیں دیتے۔‘
انڈیا کے سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پہلگام حملے کے ایک عینی شاہد کا ویڈیو بیان شیئر کیا ہے۔
عمر نامی شہری نے بتایا کہ حملے کے بعد وہ شدید پریشانی کی حالت میں تھے کیونکہ اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ ’ہم بھی پریشان ہیں، ہمارے مہمان بھی پریشان ہیں۔یہ بہت غلط ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
’بائی سرن‘ جہاں ہائیکنگ کر کے یا گھوڑوں کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے
پولیس اور فوجی ذرائع نے بی بی سی کے سرینگر میں نمائندے ریاض مسرور کو بتایا کہ یہ واقعہ جنوبی کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام سے چھ کلومیٹر دُور ایک خوبصورت وادی ’بائی سَرن‘ میں منگل کی دوپہر پیش آیا۔
بائی سرن ایک خوبصورت سیاحتی مقام اور وادی ہے جہاں تک صرف پیدل (ہائیکنگ کرتے ہوئے) یا گھوڑوں اور خچروں کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ ہندوؤں کے مقدس مقام ’امرناتھ گھپا‘ تک جانے کا راستہ بھی پہلگام کے اسی مقام سے ہو کر گزرتا ہے جہاں ہر سال ’امرناتھ یاترا‘ کے سلسلے میں لاکھوں یاتری کشمیر آتے ہیں۔
اس سال جون کے آخر سے شروع ہونےوالی اس یاترا کے لیے مارچ سے ہی اندراج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور سرکاری ترجمان کے مطابق ابھی تک تقریباً پانچ ہزار یاتریوں نے اس یاترا کے لیے اندراج کیا ہے۔
’یہ ہمارا سات اکتوبر ہے‘: پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ’جنگ کے نعرے‘، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کی گونجپہلگام حملے میں انڈین بحریہ کے افسر سمیت 26 ہلاک: مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس، پاکستان کا اظہارِ افسوسکشمیر میں ’جنگل وار فیئر‘: انڈین فورسز کو دشوار گزار علاقوں میں آپریشن کے دوران مشکلات کا سامنابالاکوٹ فضائی حملہ: وہ سوال جن کے جواب نہیں مل سکے