صحرائی پودے کیکٹس کی 10 لاکھ ڈالر کی چوری جو ایک سمگلر کے زوال کی وجہ بنی

بی بی سی اردو  |  Apr 20, 2025

کیا کبھی آپ نے ایک ویران صحرائی علاقے سے لاکھوں ڈالر کی چوری کی کوئی کہانی سنی ہے؟ اگر نہیں تو اس کے لیے آپ کو چِلی کے ویران صحرا اٹاکاما لے چلتے ہیں جہاں صحرائی پودے کیکٹس کی ایک نایاب قسم کی چوری تاریخی مقدمے کا مرکز بنی۔

یہ کہانی 2013 میں شروع ہوئی جب ایک ہوائی اڈے پر کسٹمز نے کیکٹس کے 143 پودوں کی ایک غیر معمولی کھیپ پکڑ لی تھی۔

صحرائے اٹاکاما زمین کے خشک ترین مقامات میں سے ایک ہے جہاں پہلی نظر میں ہی آپ دھول اور گندگی سے گھری نارنجی اور سفید چٹانوں کو ہزاروں کلومیٹر تک دیکھ سکتے ہیں۔

بظاہر یہاں زندگی کا کوئی امکان نہیں لیکن اسی صحرا کے ساحل کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی تہہ کے کونے کونے تک ہزاروں صحرائی پودے کوپیاپوا کیکٹی موجود ہیں۔

یہ 30 سے زیادہ اقسام پر مشتمل ایک کیکٹس گروپ، کوپیاپوا صرف چِلی میں پایا جاتا ہے اور یہ ہر سال بمشکل ایک سینٹی میٹر تک اُگ پاتا ہے۔

کوپیاپوا کیکٹس سائز میں ایک سکّے سے لے کر چھوٹی گاڑی جتنے بڑے ہو سکتے ہیں۔ ان کے نوکیلے کانٹے ان کی ’جیومیٹریکل‘ شکل کو مزید نمایاں کرتے ہیں۔ سال میں ایک بار ان پر سفید، زرد یا نارنجی رنگ کے خوبصورت پھول کھِلتے ہیں۔

ان کی ظاہری سادگی کے باوجود ان کی خوبصورتی، نایابی اور سخت جان ہونے کی خصوصیات اطالوی کیکٹس کلیکٹر آندریا پیومبیٹی پر بھی اثرانداز ہوئیں۔

143 پودوں کی غیر معمولی کھیپ اور سمگلنگ

اطالوی پودوں کی دنیا میں ایک معروف شخصیت، پیومبیٹی دہائیوں سے کیکٹس جمع کرنے والے تاجر رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس علاقے کے اپنے منفرد علم پر بہت فخر کرتے ہیں۔

ان کی فیس بک پروفائل تصویر ایک بیگ ہے جو کیکٹس پودوں سے متعلق ہے۔ ان کے واٹس ایپ سٹیٹس میں لکھا ہے ’کیکٹس کے قزاقوں کا بادشاہ۔‘

انھیں ایک جیکٹ میں دیکھا گیا ہے جس کی پشت پر ’چِلی کا بادشاہ‘ لکھا ہوا ہے۔

اس سٹوری کے لیے جب ان کے موبائل نمبر پر کال کی گئی تو انھوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور ایک لفظ کہے بغیر فون کاٹ دیا۔

ان کے وکلا سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

سال 2013 میں میلانو مالپینسا ہوائی اڈے پر کسٹمز نے کیکٹس کے 143 پودوں کی ایک غیر معمولی کھیپ پکڑی تھی جس کے ساتھ بظاہر مشکوک اور جعلی سینیٹری دستاویزات تھیں۔

مزید معائنہ کرنے پر پولیس کو ان کے گھر اور قریبی قصبے میں ایک دوست کے گھر سے کیکٹس کے مزید ڈبے ملے۔

ٹیم کے نباتاتی ماہر جلد ہی کوپیاپوا کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے، جن میں سے بہت سے خود پیومبیٹی سے زیادہ عمر کے تھے۔

مٹی کے فرانزک ماہرین کو جلد ہی پتا چلا کہ ان کیکٹس پودوں کو ان کی قدرتی رہائش گاہ سے غیر قانونی طور پر نکال دیا گیا تھا اور اس شخص کے گھر میں ان کا کوئی کام نہیں تھا۔

پولیس نے اس دریافت کے حوالے سے یورپ بھر میں داخلی پولیس وارننگ جاری کی اور اطالوی حکومت نے قانونی چارہ جوئی شروع کردی۔ تاہم کیس کے فیصلے سے پہلے ہی اس کیس کی قانونی مدت ختم ہو گئی۔

ایک دلچسپ مقدمہ

یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا اور مقامی پولیس فورس میں خطرے سے دوچار انواع کے یونٹ کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل سیمون سیچینی کا خیال تھا کہ کسی بھی غیر قانونی تجارت کو روک دیا گیا ہے۔

لیکن فروری 2020 میں سیچینی اس وقت دوبارہ پیومبیٹی کے گھر واپس آئے جب انھیں شکایت موصول ہوئی کہ پودے جمع کرنے کے شوقین شخص نے مبینہ طور پر ایک خاتون نباتات دان اینڈریا کیٹابریگا کی نرسری سے ایک نایاب پودا چُرایا تھا۔ لیکن پیومبیٹی نے پولیس کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔

سیچینی بتاتے ہیں کہ وہ تقریباً 10 منٹ تک وہاں رُکے۔

سیچینی کا کہنا ہے کہ پولیس کو وہاں نایاب پودا نہیں ملا لیکن ان کے وہاں جانے سے ایک ’زیادہ دلچسپ‘ کیس شروع ہو گیا۔

پیومبیٹی کے برآمدے اور بند کمرے میںایک ہزار سے زائد کوپیاپوا کیکٹی اور دیگر نایاب کیکٹی پڑے تھے جس کے بارے میں انھوں نے ابتدائی طور پر پولیس کو بتایا تھا کہ اس کمرے کی چابی کھو گئی ہے۔

اس دریافت کے بارے میں سیچینی کا کہنا ہے کہ ’یہ حسین اتفاق تھا۔‘

پیومبیٹی نے یہ بھی کہا کہ ان کا پاسپورٹ گم ہو گیا تھا، لیکن پولیس کو جلد ہی پتا چلا کہ پاسپورٹ ان کی الماری کے اوپر تھا۔ شاید انھوں نے جلدی میں اسے وہاں پھینک دیا تھا۔‘

دستاویز میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ وہ 2016 سے 2019 کے درمیان پانچ مرتبہ چِلی کا دورہ کر چکے ہیں۔

ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل سے ملنے والے ریکارڈ سے پولیس کو ان کے ایک قریبی مقامی ساتھی میٹیا کریسنٹنی کے ساتھ ساتھ 10 دیگر غیر قانونی پلانٹ تاجروں اور 10 باقاعدہ خریداروں کے نیٹ ورک کی شناخت کرنے میں مدد ملی۔

خیال رہے کہ پودوں کو عام طور پر خصوصی نیلامی کی ویب سائٹوں کے ذریعے آن لائن فروخت کیا جاتا تھا اور دنیا بھر میں نجی آرائشی مجموعہ رکھنے والے لوگوں کے ذریعے خریدا جاتا تھا۔

کریسنٹنی نے کیکٹس اٹلی نامی انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنا کیکٹس پوسٹ کیا۔

مثال کے طور پر فیشن انڈسٹری میں کام کرنے والا ایک جاپانی خریدار ہر ماہ 2500 یورو کی رقم بھیج رہا تھا۔ پیومبیٹی خود بھی سینکڑوں ڈالر میں پودے خرید رہے تھے۔ اس دن برآمد ہونے والے چوری شدہ پودوں کی قیمت پولیس کے مطابق 10 لاکھ یورو سے زیادہ تھی۔

جائے واردات کی تصاویر پودوں کی شناخت کے لیے ماہرین کو بھیجی گئیں جن میں کیٹابریگا بھی شامل ہے، جو مقامی کیکٹس ماہر ہیں۔

کیٹابریگا کا کہنا ہے کہ ’یہ ناقابل یقین پودے تھے۔ قدیم پودے سینکڑوں سال پرانے تھے۔‘

کیٹابریگا کا کہنا ہے کہ پیومبیٹی اعلیٰ معیار کے نمونوں اور درست اجتماعی طریقوں کے لیے گہری اور منتخب نظر رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

میلان کے نباتاتی باغ کے فرانزک نباتات دانوں نے مٹی کے تجزیے کیے تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ تقریباً ایک ہزار کوپیاپوا کے پودے صحرائے اٹاکاما سے غیر قانونی طور پر نکالے گئے تھے اور ان بیجوں سے کئی سو چھوٹے چھوٹے پودے اگائے گئے تھے۔

اگرچہ چِلی میں جنگلی علاقوں میں بیج جمع کرنا غیر قانونی نہیں ہے لیکن مناسب دستاویزات کے بغیر پودوں کو ہٹانا اور برآمد کرنا جرم ہے۔

اٹلی میں بغیر دستاویزات کے ملک میں پودوں کی درآمد غیر قانونی ہے جبکہ کوپیاپوا کو جنگلی جانوروں اور نباتات کی خطرے سے دوچار اقسام میں بین الاقوامی تجارت کے کنونشن کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے۔

کیکٹی چلی سے یونان اور رومانیہ اور پھر اٹلی بھیجی گئی تھی۔ نومبر 2020 میں ایک اور کھیپ ضبط کی گئی جس میں امریکہ، میکسیکو اور ارجنٹائن سے غیر قانونی طور پر تجارت کی گئی کیکٹی پائی گئی۔

آپریشن اٹاکاما کا آغاز

اس کیس کو آپریشن اٹاکاما کا نام دیا گیا تھا اور یہ یورپ میں اب تک کی سب سے بڑی غیر قانونی کیکٹس کارروائیوں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔

نتیجتاً اطالوی حکومت نے 2020میں پیومبیٹی اور اس کے ساتھی کے خلاف سائٹس کنونشن کی خلاف ورزی پر ایک نیا مقدمہ شروع کیا۔

جنوری 2025میں ختم ہونے والے پانچ سالہ مقدمے کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع کے جرائم کی تاریخ میں کئی واقعات سامنے آئے۔

ایک تو یہ کہ پولیس کی جانب سے ضبط کیے جانے کے بعد چوری شدہ کوپیاپوا کے تقریباً 840 پودوں کو واپس چلی بھیج دیا گیا۔

آئی یو سی این ایس ایس سی کیکٹس اینڈ سکولینٹ پلانٹس اسپیشلسٹ گروپ کی شریک چیئر باربرا گوئٹش کہتی ہیں کہ میرے لیے یہ سوال بھی نہیں تھا کہ پودوں کے ساتھ کیا کیا جانا چاہیے تھا۔

گوئٹش کہتی ہیں کہ 'مجھے کسی اور معاملے کا علم نہیں ہے جہاں پودوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا گیا ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ یقینی طور پر ایک کامیابی تھی۔'

کیکٹی اب چلی کی نیشنل فاریسٹ کارپوریشن کے زیر انتظام اٹاکاما ریگستان گرین ہاؤس میں ہیں، حالانکہ کچھ مقامی اطلاعات کے مطابق کچھ پودے غائب ہو ئے ہیں۔

کوناف نے ان کی حیثیت کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا اور کہا کہ وہ اپریل 2025تک بی بی سی کو گرین ہاؤس تک رسائی نہیں دے سکتے ہیں۔

شاید ضبط شدہ پودے کبھی بھی حقیقی طور پر گھر واپس نہیں آئیں گے۔انھیں جنگلی علاقوں میں دوبارہ نہیں بھیجا جا سکتا کیونکہ اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ وہ کس علاقے سے آئے تھے۔ وہ ممکنہ طور پر جینیاتی اور نباتاتی تحقیق اور پھیلاؤ کے تجربات کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

دریں اثنا گوئٹش کی ٹیم نے جنگلی علاقوں میں مستقبل کی حفاظت کی کوششوں کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے ملک کا پہلا کوپیاپوا کنزرویشن ایکشن پلان تیار کیا ہے جو مارچ 2025 میں باضابطہ اشاعت کے لیے تیار ہوا۔

اٹاکاما کے صحرا میں کوپیاپوا کی تلاش

اٹاکاما صحرا میں گھنٹوں چلنے کے بعد سانس لینا تقریباً مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود موریسیو گونزالیز اور روڈریگو کاسٹیلو، دو ادھیڑ عمر کے مرد ہیں، جن میں سے ہر ایک کی چال میں ہلکا سا لنگڑا پن ہے۔ اپنے پیارے کوپیاپوا کی تلاش میں بڑی صحرائی پہاڑیوں پر چڑھ رہے ہیں۔

زمین میں ایک دراڑ سے ابھر ے اور بائیں طرف ٹیڑھے جھکے ہوئے ایک کیکٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گونزالیز کہتے ہیں، 'یہ شاید 100 سال پرانا ہے'۔

گونزالیز اور کاسٹیلو رضاکار اساتذہ کے ایک گروپ کیمینینٹس ڈیل ڈیسیرٹو کا حصہ ہیں جو چلی کے علاقے انٹوفاگسٹا میں صحرائی نباتات اور حیوانات کے بارے میں آگاہی پھیلاتے ہیں۔

کوپیاپوا ان کے پسندیدہ کیکٹی میں سے ایک ہے۔

گروپ کے صدر گونزالیز کا کہنا ہے کہ ’ان پودوں نے کئی سالوں کے بعد اس علاقے کو اپنایا ہے۔‘

رضاکار گروپ کا کہنا ہے کہ بہت سے کم تجربہ کار مقامی افراد کو بین الاقوامی کولیکٹرز آن لائن کنٹریکٹ دیتے ہیں اور انھیں بڑے پیمانے پر کوپیاپوا لوٹنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

وہ راستے میں پائے جانے والے کسی بھی یا پھر تمام پودوں کو ختم کر سکتے ہیں، اور اکثر کچھ اکھاڑے ہوئے پودے راستے میں چھوڑ دیتے ہیں۔

سال میں کم از کم تین یا چار بار، رضاکاروں کو پتا چلتا ہے کہ ان کے کچھ پسندیدہ راستوں پر یہ پودے مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔

جب بھی وہ اپنی کسی واک سے تصویر پوسٹ کرتے ہیں تو انھیں سوشل میڈیا پر سینکڑوں ایسے پیغامات ملتے ہیں جن کے ارادے اچھے نہیں ہوتے۔

بعض اوقات رضاکار اپنے پسندیدہ پودوں کو ممکنہ شکاریوں سے چھپانے کے لیے چٹانوں کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ چونکہ کیکٹی میں انتہائی مقامی طور پر پائے جانے والے اینڈیمزم ہوتے ہیں اور ان کی آبادی صرف مخصوص مقامات پر پائی جاتی ہے، اس لیے شکاری چھنی کی چند ضربوں سے ایک پوری نسل کا صفایا کر سکتے ہیں۔

سڑکوں کی تعمیر اور بے قاعدہ رہائش میں اضافے نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سخت اور ویران صحرائی علاقوں تک رسائی حاصل کرنے کے قابل بنا دیا ہے جہاں کوپیاپوا ہیں۔

چلی میں یونیورسیڈ ڈی کانسیپسیون میں کیکٹس کے محقق پابلو گیریرو کہتے ہیں کہ 'آپ شکار کے لیے کھڑکی کھول دیتے ہیں۔'

سوشل میڈیا نے پودے جمع کرنے والوں کے لیے ایک دوسرے کو تلاش کرنا بھی آسان بنا دیا ہے جبکہ ضابطےاور قانون کا نفاذ بہت سست ہے۔

کوپیاپوا کو درپیش واحد خطرہ شکار نہیں ہے۔ اس ایک دن میں ہم نے جو کیکٹس دیکھے ان میں سے زیادہ تر مر رہے ہیں۔

صحرا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، بارش کے پیٹرن میں اتار چڑھاؤ اور ساحل پر نمی کے پیٹرن میں تیزی سے تبدیلی کی وجہ سے وہ خود ختم ہو رہے ہیں اور راکھ کی طرح سیاہ ہو رہے ہیں۔

رضاکار سالانہ کیکٹس واٹرنگ ٹور ز کا اہتمام کرتے ہیں لیکن صحرا کے طویل قحط کے پیش نظر یہ بہت کم ہے۔'

18 ماہ قید اور 26000 ڈالر جرمانے کی سزا

گوریرو اور گوئٹچ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ کوپیاپوا کی 76 فیصد انواغ سمگلنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہے۔

گوریرو کا کہنا ہے کہ یہ کمی بہت تیزی سے ہو رہی ہے۔ ’کچھ (انواع) بہت تیزی سے جلد ہی ختم ہو جائیں گی، یہ بہت ڈرامائی ہے۔‘

چھاپے اور اس کے بعد آنے والے عدالتی کیس نے پیومبیٹی کو نہیں روکا۔ ستمبر 2024 میں اگرچہ اٹلی میں فیصلہ آنا باقی تھا لیکن وہ ایک بار پھر چلی گئے۔

جب وہ سانتیاگو ائیر پورٹ پر ااترے تو انھیں حراست میں لے لیا گیا اور اب وہ چلی میں بھی جنگلی بناتات کی غیر قانونی تجارت کرنے کے الزام میں مطلوب ہیں۔

کیکینی کا کہنا ہے کہ چلی کے پراسیکیوٹر نے واٹس ایپ پر ان سے فروری 2024 میں سمگل شدہ کیکٹی کی واپسی کے بعد رابطہ کیا۔ اور اس کے نتیجے میں پیومبتی کے خلاف کیس کا آغاز ہوا۔

ان پودوں کو اکٹھا کرنے والے کلیکٹر کے خلاف اٹاکاما کورٹ میں سماعت کا آغاز ہوا اور چلی کے حکام نے انھیں 5300 امریکی ڈالر جرمانہ کیا اور انھیں ملک سے 10 سال کے لیے بے دخل کر دیا۔

کیکینی کا کہنا ہے کہ مستقبل میں سمگلنگ کی روک تھام کے لیے ملک میں داخلے پر پابندی ایک بہت پر اثر اقدام ہے۔

31 جنوری 2025 کو اٹلی کی عدالت نے کریسینٹکی اور پائیومبتی کے خلاف اپنے پہلا فیصلہ جاری کیا۔ بی بی سی نے بھی اس فیصلے کو دیکھا ہے۔

عدالت نے پائیومبتی کو 18 ماہ قید اور 26000 ڈالر جرمانے کی سزا سنائی اورکریسینٹکی کو 12 ماہ قید کی سزا سنائی اور 19000 ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

یہ فیصلہ 14 فروری کو شائع کیا گیا تھا۔

نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کی بلکہ قدرت کے بھی خلاف گئے

ماہرین بناتات کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ ایک اور بڑا نتیجہ لے کر آیا ہے۔

عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ پائیومبتی نے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کی بلکہ انھوں نے قدرت کی بھی خلاف ورزی کی۔

کیکٹس کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایسوسیازیون پر لا بائیو ڈائیورسٹا ای لا سوا کنزرویزیون (اے بی سی) کو متاثرہ سول پارٹی کے طور پر اس کیس میں شامل کیا گیا تھا۔

پیومبیٹی اور ان کے ساتھی کو اب اے بی سی کو سول ہرجانے کے طور پر اضافی 21000 ڈالر ادا کرنا ہوں گے تاکہ کیکٹس کے تحفظ کے کام کو ہونے والے نقصان کی تلافی کی جا سکے۔

کیٹابریگا کے مطابق، فنڈز سے براہ راست کیکٹی تحقیق، آگاہی اور تحفظ میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔

کیکٹس کے نوکیلے پتوں سے ماحول دوست چمڑا بنانے والے نوجوانوہ ملک جہاں دھند سے پانی کی کمی پورا کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہےمستقبل کے پانچ کھانے انسان، زمین دونوں کے لیے مفیدبرٹش میوزیم سے بیش قیمت نوادرات کی کئی برس تک چوری کا پول ایک ڈیلر نے کیسے کھولا

جیکب فلپ جو کہلنکاسٹر یونیورسٹی میں ٹراپیکل ماحولیاتی تبدیلی اور پالیسی کے لیکچرر اور حیاتیاتی تنوع کے قانون سے متعلق ایکتنظیمکے شریک بانی ہیں، اس کیس میں ان سے بھی معاونت لی گئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کا نتیجہ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا بدلہ لینے کا نظام قائم کرنے کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔

فلپ کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اسی قسم کے فیصلے سامنے آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر 2019 میں ایک فرانسیسی نیشنل پارک کے قدرتی ماحول کو مچھلی شکار کرنے والوں کی جانب سے پہنچنے والے نقصان کے بعد ہرجانہ دیا گیا۔ پھر 2021 میں انڈونیشیا میں ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نے ایک مقامی چڑیا گھر پر کیس کیا اور الزام عائد کیا کہ اس نے یہاں قانون طورپر اجازت لیے بغیر ایسے انواع کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے جو بہت نایاب ہیں۔

فلپ جنھوں نے جرنل کنزرویشن لیٹرز میں ان قانونی فریم ورک کی وضاحت کے لیے ایک مقالہ لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کی تنظیموں کو ’لوراکس کی طرح کام کرنے اور درختوں کے آواز اٹھانے کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی قانونی دفعات بہت سارے ممالک میں موجود ہیں، لیکن وہ کبھی استعمال نہیں کی گئیں، یا اگر وہ استعمال کی گئی ہیں، تو ان کا تواتر سے استعمال نہیں کیا گیا ہے، یہ معاملہ واقعی اہم ہے کیونکہ اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں۔

اس طرح کی کامیابی کو حاصل کرنے کی کوشش کے لیے فیلپ کی ٹیم کے پاس پہلے ہی یوگنڈا، فلپائن اور انڈونیشیا میں اسی طرح کے مقدمات مختلف مراحل میں ہیں۔

فیلپس کہتے ہیں کہ اس وجہ سے حکومت کو اس بات کے استعمال کے لیے قائل کرنے میں تیزی نہیں ہے۔

’لیکن ہم اسے ماحول کے تحفظ کے لیے قانونی چارہ جوئی کی ایک نئی لہر کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

لیکن گونزالیز اور کاسٹیلو، جب کوپیاپوا کے رضاکار محافظوں کے طور پر صحرا میں گشت کرتے ہیں تو وہ اس کے مستقبل کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوتے ہیں۔

گونزالیز کا کہنا ہے کہ 'میں پریوں کی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتا۔‘

سفر کے آدھے راستے میں خود کو ایک اور سگریٹ جلاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں بتاتا ہوں کہ یہ کیسا ہے۔‘

اگرچہ رضاکار پُرامید ہیں کہ اس مقدمے کا فیصلہ جنگلی حیات کے شکار کے متعلق آگاہی بڑھانے میں مدد فراہم کرے گا تاہم وہ جانتے ہیں کہ فیصلہ ایک پیچیدہ مسئلے کے آسان حل کی ضمانت نہیں۔

دن کو صحرا میں اپنے سفر کے دوران ہمیں فقط چار گاڑیاں دیکھنے کو ملیں۔ کوئی بھی اپنی گاڑی سے باہر لاکھوں سالوں سے موجود انواع کی ارتقا کو کاٹ سکتا ہے اور کوئی اس کا نوٹس نہیں لے گا۔

اور خشک سالی سے پودے اندر سے سکڑ رہے ہیں، چاہے رضاکار کتنی ہی بار اپنے پانی کے کین کے ساتھ صحرا میں جائیں۔

زمین کا یہ پورا مغربی ٹکڑا نایاب رس بھرے پودوںسے بھرا ہوا ہے۔ جن میں سے کچھ کی 20 موٹی، پانی سے بھری شاخیں ہوتی ہیں اور کچھ صرف چند سال کی عمر کے بچوں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔

یہاں پچھلے کچھ دنوں میں بہت سوں پر پھول دکھائی دیے اور دوسروں پر کھلنے والے ہیں۔

کاسٹیلو نے کوپیاپوا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ایک ملا ہے۔‘ جہاں جیسے ہی ہم نے ایک کھلے ہوئے پھول کے اندر دیکھا وہاں ایک چھوٹی سی سرخ چیونٹی زیرہ پوشی کر رہی تھی۔

وہ ملک جہاں دھند سے پانی کی کمی پورا کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہےکیکٹس کے نوکیلے پتوں سے ماحول دوست چمڑا بنانے والے نوجوانمستقبل کے پانچ کھانے انسان، زمین دونوں کے لیے مفیدجرمنی میں ’موت کا جال‘ کہا جانے والا انسانی سمگلنگ کا وسیع کاروباربارزان کمال مجید: بی بی سی نے یورپ کو انتہائی مطلوب انسانی سمگلر ’بچھو‘ کو کیسے تلاش کیابرٹش میوزیم سے بیش قیمت نوادرات کی کئی برس تک چوری کا پول ایک ڈیلر نے کیسے کھولا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More