سٹیج ڈرامے میں ہونے والی بدمزگی جس نے عمر شریف کو کامیڈی سٹار بنا دیا

بی بی سی اردو  |  Apr 19, 2025

یہ ستر کے دہائی کے اوائل کی بات ہے جب کراچی کے علاقے لالو کھیت میں لوہار کی ایک دُکان پر ویلڈنگ کرنے والا ایک یتیم بچہ، محمد عمر، پھر سے اوور ٹائم لگا رہا تھا۔ اُنگلیوں میں سوجن اور آنکھوں میں سوزش کے باوجود اُس بچے کے ہاتھ اِس مشقت والے کام کے دوران نہ تو لرزتے ہیں اور نہ ہی رُکتے تھے۔

اس بچے کی جانب سے اوور ٹائم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُسے سنیما کے ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے اکھٹے کرنا ہوتے تھے۔

اس بچے کا نام محمد عمر تھا جسے آج دنیا معروف کامیڈین اور اداکار عمر شریف کے نام سے جانتی ہے۔

عمر شریف کی بیوہ زرّیں غزل نے بی بی سی کے لیے صحافی احسان سبز سے بات کرتے ہوئے اپنے شوہر کے منہ سے اُس سخت دور کے متعلق کہی ہوئی باتیں دہرائی ہیں۔

زرّیں غزل کے مطابق ’وہ خود بتایا کرتے تھے کہ لوہے کی گِرلوں، کھڑیوں اور دروازوں پر اُن کا لگایا ہوا ٹانکا اُستاد کو سب سے زیادہ پسند تھا کیونکہ اس میں صفائی ہوتی تھی۔ وہ وحید مراد اور محمد علی پر فلمائے گئے گیت گاتے جاتے اور ویلڈنگ کرتے رہتے۔ میرے شوہر بتاتے تھے کہ جمعے کا دن ایسا ہوتا کہ وہ صبح سے جا کر سنیما میں بیٹھ جاتے اور ایک کے بعد ایک شو لگاتار دیکھتے، یہاں تک کہ رات ہو جاتی، انھیں کئی فلموں کا ایک ایک ڈائیلاگ اور گانے حفظ تھے۔‘

زرّیں نے بتایا کہ 'جب عمر رات کو گھر دیر سے پہنچتے تو اماں سے خوب ڈانٹ پڑتی، لیکن جوانی کے بہت سال انھوں نے یہی پیٹرن فالو کیا۔ یوں کہہ لیجیے کہ سنیما عمر شریف کی پہلی محبت تھا۔‘

اگرچہ عمر شریف کی منزل تو سنیما تھی لیکن راستے میں ان کی قسمت انھیں آڈیٹوریم لے آئی۔ اُس زمانے میں کراچی میں تھیٹر کَور کرنے والے صحافی پرویز مظہر کہتے ہیں کہ ’عمر شریف کو میں 1974 سے جانتا ہوں۔ وہ اٹھارہ سال کے تھے اور اسے لکھنے اور ڈائریکشن کا بہت شوق تھا۔ اُس زمانے میں کراچی میں قسمت سنیما ہوا کرتا تھا جہاں کارڈ پر ون ڈے ڈرامے پیش کیے جاتے تھے، وہاں نہ کرسیاں ہوتی تھیں، نہ پنکھے۔ لوگ کرسیاں گھروں سے لے آتے اور جو نہ لاتے وہ پورا کھیل کھڑے ہو کر دیکھتے۔ میں خبروں کی تلاش میں اکثر یہاں چکر لگاتا، اور اسی طرح ایک روز میری نظر عمر پر پڑی۔ وہ سٹیج کے فرش پر بیٹھے ساتھیوں کے ساتھ کوئی سکرپٹ ڈسکس کر رہے تھے۔‘

پرویز مظہر بتاتے ہیں کہ ’میں نے وہاں ایک واقف ڈائریکٹر سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ اُنھوں نے بتایا کہ عمر نام کا لکھاری ہے، نیا ہے، تھوڑا جذباتی ہے، لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کام کے لیے جتنا مرضی رُکوا لو، انکار نہیں کرتا۔ بہت محنتی اور شوقین ہے۔‘

اس کے بعد عمر شریف کی قسمت انھیں اِسی قسمت سنیما سے نسبتاً بڑے پلیٹ فارم ’آدم جی آڈیٹوریم‘ لے آئی جہاں پہلی بار ان کا لکھا ہوا کھیل ’ڈولی‘ پیش کیا گیا۔ مگر اس دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے عمر کی زندگی ایک نئے ٹریک پر ڈال دی۔

عمر شریف: وہ فنکار جس کا جادو 14 برس کی عمر میں چل گیا تھا’جب تک لوگ ہنسنا چاہیں گے عمر شریف زندہ رہے گا‘معروف مزاح نگار اطہر شاہ، جیدی کیسے بنے؟اداکار لہری کا سٹینو گرافر سے ’وی آئی پی‘ کامیڈین بننے تک کا سفر

سٹیج ڈرامہ ’ڈولی‘ میں مرکزی سین کے دوران سیٹ ڈیزائن کی غلطی کی وجہ سے ’ڈولی‘ دروازے میں پھنس گئی جس پر ڈرامہ دیکھنے والوں نے ہنگامہ مچا دیا۔ سنہ 1976 میں پیش کیے جانے والے اس کھیل کو عمر نے بہت محنت سے لکھا تھا لیکن سیٹ ڈیزائن میں ایک غلطی کی وجہ سے ان کی محنت ان کی آنکھوں کے سامنے رائیگاں جا رہی ہے، جو عمر شریف کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

صحافی پرویز مظہر اُس روز ’آدم جی آڈیٹوریم‘ میں موجود تھے اور انھیں وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔

’دروازہ چھوٹا تھا اور لکڑی کی ڈولی اس میں بُری طرح پھنس چکی تھی۔ اس صورتحال کے باعث سٹیج سے آتے ڈائیلاگ رُکے تو پبلک کوموقع مل گیا۔ پہلے مجمعے میں سے دو تین نعرے گونجے ’پھنس گئی، پھنس گئی، ہمارے پیسے واپس کرو‘ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا ہال جملے کستا اور قہقہے لگاتا نظر آیا۔‘

پرویز مظہر کہتے ہیں کہ ’عمر کو زیادہ غصہ اگلی چند نشستوں میں بیٹھے تھیٹر کے اُن ساتھیوں پر تھا جو عام پبلک کے ساتھ ہوٹنگ میں ہمنوا بن چکے تھے۔ وہ بیک سٹیج سے سامنے آئے اور انھیں بے نقط سنانے لگے۔ اشارہ کر کے آٹھ، دس افراد کو خاص طور سے شرم دلانے لگے کہ کم از کم وہ پبلک ہوٹنگ کا حصہ نہ بنیں۔‘

سینئیر صحافی اطہر جاوید صوفی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ عمر شریف کا اشارہ کراچی تھیئیٹر انڈسٹری کے ناظم آباد گروپ کی جانب تھا۔

یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جس میں ناظم آباد گروپ کا لالو کھیت گروپ سے سخت مقابلہ رہتا تھا۔

’ڈولی‘ دیکھنے کے لیے اُس روز آدم جی آڈیٹوریم میں پرویز مظہر اور سینیئر سٹیج آرٹسٹ انور کمال کے ساتھ ساتھ سٹیج ڈراموں میں جدید رجحانات متعارف کرانے والے پروڈیوسر فرقان حیدر بھی آئے ہوئے تھے۔

پرویز مظہر اُس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’پبلک کا دل ’ڈولی‘ دیکھنے سے زیادہ ہوٹنگ میں لگ رہا تھا۔ فرقان صاحب اگلی نشست سے اٹھ کر سٹیج پر چڑھے اور تیش میں آئے عمر کو اپنے پاس بلایا، پیار کیا، گلے سے لگایا۔ انھوں نے کہا، دیکھو یہ ہوٹنگ اور شور شرابہ ہوتا ہے، یہ سٹیج ڈراموں کا کلچر ہے، تمہیں خود کو ٹھنڈا رکھنے کی ضرورت ہے، ابھی بہت موقعے آئیں گے، فرقان بھائی کی طرح میں نے بھی اپنا فرض نبھایا، اُس کی تصویر اُتاری، جو دو کالمی خبر کے ساتھ اگلے روز ’آغاز‘ اخبار میں لگی جہاں میں ملازمت کرتا تھا، عمر اتنا ایکسائیٹڈ تھا کہ اُس نے گھر کے نزدیکی ہاکر سے اخبار کی ساری کاپیاں خرید لیں اور اپنی تصویر دکھا کر جاننے والوں میں تقسیم کیں۔‘

اس کے بعد پرویز مظہر عمر شریف کے گہرے دوست بن گئے، دروازے میں ڈولی پھنسنے کے اس واقعے نے فرقان حیدر کے ذریعے عمر شریف کے کیرئیر میں موقعوں کی لائن لگا دی۔ اس جوڑی نے مزاحیہ اُردو تھیٹر پسند کرنے والوں کو ’بڈھا گھر پہ ہے‘ اور ’بکرا قسطوں پر‘ سمیت درجنوں کامیاب ترین ڈرامے دیے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا میں بھی ریکارڈ مقبول ہوئے۔

’مسجد میں چل کر قسم کھا کہ سٹیج پر میرا مذاق نہیںاُڑائے گا‘

معین اختر تھیٹر میں عمر شریف کے سینیئر ہی نہیں بلکہ اُس زمانے میں ایک کامیاب فنکار کے طور پر رجسٹر ہو چکے تھے۔ فرقان حیدر کے ساتھ انھوں نے 'مصیبت در مصیبت'، 'بچاؤ معین اختر'، 'بہروپیہ معین اختر'، 'ٹارزن معین اختر' اور 'بس جانے دو' جیسے کامیاب کمرشل کھیل پیش کیے۔

عمر شریف کا تعارف معین اختر سے فرقان حیدر ہی کے ذریعے ہی ہوا جنھوں نے اُنھیں ایک ہونہار لکھاری کے طور پر متعارف کروایا۔ عمر نے معین اختر کے لیے جو پہلا ڈرامہ لکھا، بدقسمتی سی اُسی میں لیڈ رول پر تنازع ہو گیا۔

عمر شریف نے یہ رول اپنے لیے لکھا تھا لیکن سکرپٹ پڑھنے کے بعد معین اختر نے اسےسٹیج پر خود نبھانے کی فرمائش کر دی۔ چار و ناچار رائٹر کو لیڈ ایکٹر کی بات ماننی پڑی لیکن پرویز مظہر کے بقول اس واقعے کے بعد دونوں میں کچھ عرصے تک ایک دوسرے کے لیے سرد مہری محسوس کی جاتی رہی۔

پرویز مظہر کہتے ہیں کہ ’صرف میں نے ہی نہیں بلکہ اُس زمانے میں فرقان بھائی اور دیگر نے بھی اس بات کو محسوس کیا۔ ویسے بھی تخلیقی ذہن رکھنے والے لوگوں میں یہ بات فطری ہے، معین اختر کی ایک مرتبہ شکایت پر فرقان حیدر نے عمر کو بٹھا کر سمجھایا کہ وہ سینیئر ہے، لوگوں میں پسند کیا جاتا ہے، تمہیں اپنے رویّے میں نرمی لانی ہو گی۔‘

پرویز مظہر کہتے ہیں ’میں نے معین کو لے کر عمر میں بہت بڑی تبدیلی محسوس کی۔ بڑے دل والوں کے لیے انفرادی کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جس روز خداداد صلاحیتوں اور فنی اعتبار سے بڑے پن کا احساس ہو گیا، عمر نے اُسی روز معین اختر کے آگے سرنڈر کر دیا۔ وہ خود انُ کے پاس گیا، معافی مانگی اور کہا کہ مجھے آپ کے ساتھ کام کر کے فخر محسوس ہوتا ہے، بعد میں دنیا نے دیکھا کہ دونوں نے جس ڈرامے میں بھی ساتھ کام کیا، کتنی عمدگی سے کیا۔‘

لیکن دونوں فنکاروں کا مزاج اور آڈئینس بہرحال ایک دوسرے مختلف تھیں۔

عمر شریف کے ساتھ کئی ایک سٹیج ڈرامے کرنے والے بہروز سبزواری کہتے ہیں کہ ’دیکھیں سٹیج کی بات کریں تو معین اختر ایک کلاسک فنکار تھے۔ اُس زمانے میں بھی وہ کلاسز ہی کی ترجمانی کرتے تھے، لیکن رائٹنگ کے بعد عمر نے جب بطور اداکار سٹیج سنبھالا تو وہ عوام میں شہرت حاصل کرنے لگے، دونوں کی انفرادیت اپنی اپنی جگہ تھی، میں سمجھتا ہوں ان کا آپس میں مقابلہ کرنا درست نہیں ہو گا۔‘

عمر شریف کی بیوہ اور ان کے ساتھ طویل عرصے تک سٹیج پر کام کرنے والی اداکارہ زرّین غزل کہتی ہیں کہ بہترین ورکنگ ریلیشن شِپ کے باوجود معین بھائی، عمر کی برجستگی سے گھبراتے تھے۔

’معین اختر نے تھیٹر میں اپنا مقام ایسے ہی نہیں بنایا تھا بلکہ بہت محنت کی تھی اور وہ اسے مینٹین رکھنا چاہتے تھے۔ ایسے میں ایک واحد عمر ہی تھے جس سے انھیں خطرہ رہتا کہ سٹیج پر کچھ ایسا ویسا نہ کہہ دیں کہ پبلک کے سامنے اُن کی ساکھ خراب ہو۔ ایک روز وہ گھر آئے اور عمر کو اپنے ساتھ مسجد لے گئے، بولے یہاں کھڑے ہو کر قسم کھاؤ کہ پبلک کے سامنے تم مجھے کچھ نہیں کہو گے اور نہ کسی سین میں ساتھی فنکاروں کے ساتھ میرا مذاق اُڑاؤ گے، عمر پہلے تو خوب ہنسے، پھر قسم کھائی تو معین بھائی کو قرار آیا۔‘

آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہو گی کہ اُس زمانے میں عمر شریف کے تھیٹر مداحوں کو اُن کے جوتے کا سائز تک معلوم تھا۔ زرّین غزل نے اس بارے میں بتایا کہ ’اسی، نوے کی دہائی کی بات کر رہی ہوں، آپ یہ سمجھ لیجیے کہ عمر شریف کا ہاتھ تھیٹر ہالز میں بیٹھے مداحوں کی نبض پر ہوا کرتا تھا۔ اُن کی اِنٹری بیک سٹیج سے بلند ہونے والی اُن کی آواز سے ہوتی، اور پھر اُن کا پیر اِنٹری گیٹ سے جھانکتا جس پر پبلک کرسیاں چھوڑ کر تالیاں بجاتی ہوئی کھڑی ہو جایا کرتی تھی۔ یہ ایک غیر معمولی منظر ہوتا تھا جس کے بارے میں اخبارات سرخیاں لگاتے کہ مداحوں کو عمر شریف کے جوتے کا نمبر تک پتہ ہے، جسے پہچان کر وہ سیٹیاں بجاتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کرتےتھے۔‘

عمر شریف کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جیسا کہ اُن کا ناکام ٹی وی اور کامیاب فلمی کیریئر، ون مین شوز، سٹیج کمپئیرنگ، انڈیا کے دورے، لافٹر شوز، انڈین فلمی ستاروں سے قربت، ملکی سیاست میں شمولیت، کراچی سے لاہور اور پھر واپس کراچی شفٹ ہونے کے قصے، جوان بیٹی کی وفات کا صدمہ اور سٹیج آرٹسٹوں کی بے لوث مدد کا جنون۔

حالانکہ سالگرہ کے دن وفات کا ذکر چبھتا ہے لیکن وہ جس انداز میں اور اچانک اپنے مداحوں کو جرمنی کے ایک ہسپتال میں اکیلا چھوڑ گئے، اس کی خلش آج بھی دنیا بھر میں مزاحیہ اردو تھیٹر پسند کرنے والے بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں۔

عمر شریف: وہ فنکار جس کا جادو 14 برس کی عمر میں چل گیا تھا’جب تک لوگ ہنسنا چاہیں گے عمر شریف زندہ رہے گا‘محمد حنیف کا کالم: عمر شریف کو کس کا ڈر تھا؟’عمر شریف جیسا نہ کوئی تھا نہ ہوگا‘معروف مزاح نگار اطہر شاہ، جیدی کیسے بنے؟معین اختر: لطیفے سنانے اور نقالی کرنے والا شریر لڑکا جو کامیڈی کا ’آئن سٹائن‘ بن گیااداکاروں کی استاد جسے پولیس میں بھرتی کی پیشکش بھی ہوئی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More