Getty Imagesبُکنگ اور ادائیگیوں میں تاخیر کو پاکستان میں پرائیویٹ حج کوٹہ میں نمایاں کمی سے جوڑا گیا ہے (فائل فوٹو)
پاکستان کے شہر ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے محمد زاہد خان نے رواں سال فریضہ حج کی ادائیگی کی نیت کی اور اسلام آباد کے ایک آرگنائزر کو کل رقم کا 75 فیصد حصہ جنوری میں ہی ادا کر دیا۔
پاکستانی حکومت کی اس منظور شدہ پرائیویٹ حج کمپنی نے انھیں بقیہ رقم ویزے کے اجرا کے بعد دینے کا کہا تھا۔ مگر بعد میں زاہد خان کو بتایا گیا کہ حج تو دور کی بات ان کا سعودی عرب کا ویزا ہی نہیں لگ سکا ہے۔
اب زاہد کو لگتا ہے کہ ان کے لیے رواں سال حج ادا کرنا مشکل ہوگا۔
پاکستان میں اس سال حج کا مجموعی کوٹہ تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار افراد تھا جس میں نصف کو سرکاری حج سکیماور نصف کو پرائیوٹ حج آرگنائزر نے اس مذہبی فریضے کی ادائیگی کروانا تھی۔
لیکن وزارت مذہبی امور کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اس برس پرائیوٹ حج کے تحت صرف 23 ہزار 620 افراد ہی سعودی عرب جا پائیں گے جبکہ باقی تقریباً 67 ہزار افراد نہیں جا سکیں گے۔ تاہم اتنی بڑی تعداد کے نہ جانے کی وجوہات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب سرکاری طور پر حج کے لیے جانے والے تقریباً نوے ہزار حاجیوں کے تمام تر اقدمات کر لیے گئے ہیں اور اکثریت کو ویزے جاری ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کی کمیٹی برائے مذہبی امور نے اس صورتحال پر وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پہلے ہی اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔
جب بی بی سی نے اس حوالے سے وزرات مذہبی امور کے ترجمان عمر بٹ سے رابطہ قائم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے منتظر ہیں۔
پاکستان میں پرائیویٹ حج کا کوٹہ کیوں کم ہوگیا؟
پنجاب کے ضلع فیصل آباد کے ایک حج آرگنائزر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے پاس تقریباً 100 افراد کا حج کوٹہ تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وزارت مذہبی امور کے اکاؤنٹ میں تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ریال اکتوبر میں جمع کروا دیے تھے۔ جنوری میں یہ پیسے واپس میرے اکاؤنٹ میں آئے اور کہا گیا کہ ہم اپنی ضروری خریداری کر لیں مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ آخری تاریخ 14 فروری ہے۔‘
’لیکن مختلف مسائل جس میں پاکستان سے ڈالر باہر منتقل کرنے کی پابندی، وقت کی کمی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ڈیڈلائن تک یہ خریداری مکمل نہیں ہو سکی۔ جس بنا پر میرے آدھے سے زیادہ لوگوں کا حج خطرے میں پڑ گیا اور جو خریداریاں نجی طور پر کی ہیں۔ وہ پیسہ بھی واپس ملنے کا کوئی امکان نہیں۔‘
حج آرگنائزر کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے حج کے دوران مختلف سروسز کی خریداری کے لیے اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کی۔
’پہلے ایسا ہوتا تھا کہ حج آرگنائزر خود جا کر اپنی خریداری کو مکمل کر کے حاجیوں کے ویزے حاصل کرتے تھے۔ مگر اب طریقہ کار تبدیل ہو گیا۔ پورٹل قائم کیا گیا اور کہا گیا کہ پہلے تمام شرائط پوری کریں جس کے بعد ویزے کا اجرا ہوگا۔‘
حج آرگنائزر کے مطابق ’خریداری کے لیے بھی زیادہ تر آن لائن طریقہ کار اختیار کر لیا گیا تھا۔ مخصوص پورٹل قائم کیے گئے جہاں پر تمام اہم امور کی انجام دہی کرنا تھی۔ حکومت کی جانب سے حج آرگنائزر کو اس طریقہ کار کے بارے میں بروقت اطلاعات فراہم نہیں کی گئیں۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس کے لیے 14فروری آخری تاریخ ہے۔‘
حج آرگنائزر کے مطابق منیٰ میں حاجیوں کے لیے زون کی خریداری کے لیے اکتوبر سے پورٹل کا آغاز کر دیا گیا تھا جبکہ دیگر تمام امور کی انجام دہی کے لیے 14 فروری کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی جس کے بعد اب وہ پورٹل بند ہو چکا اور تمام شرائط پوری نہیں ہوئیں تو ویزے کا اجرا نہیں کیا گیا۔
Getty Imagesپاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے پر تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے
حج آرگنائزر کے مطابق حکومت پاکستان کی پالیسی کے تحت حج آرگنائزر نے ریال میں رقم وزارت مذہبی امور کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دی تھی۔ نئی پالیسی کے تحت وزارت مذہبی امور کو یہ رقم حج آرگنائزر کو وقت پر واپس کرنی چاہیے تھا تاکہ حج آرگنائزر تمام ضروری امور انجام دے سکتے مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔
’وزارت مذہبی امور کے اکاؤنٹ میں جو رقم اکتوبر میں جمع ہوئی اوراس رقم کو حج آرگنائزر کو دسمبر، جنوری میں واپس کیا گیا۔‘
حج آرگنائزر کے مطابق اب وقت انتہائی کم رہ چکا تھا اور اتنے کم وقت میں تمام امور انجام دینا ممکن نہیں تھا جبکہ سرکاری حج کے تمام امور پہلے ہی وقت پر انجام دیے جا چکے تھے۔
دوسری طرف ترجمان وزارت مذہبی امور عمر بٹ نے اپنے تحریری پیغام میں اِن تمام الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ وزارت مذہبی امور حج پالیسی کو نافذ کرنے کی پابند ہے جس کی منظوری کابینہ دیتی ہے اور سعودی حکومت کی جانب سے ہدایات ملتی ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سعودی وزیر برائے حج وعمرہ ڈاکٹر توفیق ربیا کے دورہ پاکستان کی 2023 کی خبروں اور اطلاعات کو فالو کرنا چاہیے۔‘
ترجمان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس تاخیر پر ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے اور وہ اس کی رپورٹ کے منتظر ہیں۔
خیال رہے کہ وزارت مذہبی امور کے ایک اجلاس میں کہا گیا ہے کہ 14 فروری کی ڈیڈلائن کے متعلق ستمبر میں بتا دیا گیا تھا مگر حج آرگنائزر کے پاس فنڈز کی کمی تھی جس بنا پر وہ تمام امور انجام نہیں دے سکے۔
’اپنی زمین بیچ کر بھی لوگوں کو رقم واپس نہیں کر سکتے‘
پاکستان میں پرائیویٹ حج کی کمپنیاں اس معاملے پر تاخیر اور حکومت کی جانب سے عدم توجہ پر نالاں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں سے رقوم لی گئیں انھیں واپس کرنے میں مشکلات ہو رہی ہیں۔
ایک حج آرگنائزر کا کہنا تھا کہ ’جب مجھے وزارت مذہبی امور کی جانب سے میرے جمع کروائے گے ریال واپس میرے اکاوئنٹ میں جنوری میں منتقل ہوئے تو اس کے بعد میں نے حاجیوں کے لیے مکہ اور مدینہ میں عمارتوں کا انتظام، ہوٹل کے پیسے، زون کی خریداری، ویزوں کے لیے درخواستیں اور یہ سب کچھ کرنا شروع کیا تو وقت کم تھا۔ جو مکمل نہ ہوسکا۔‘
ان کے بقول انھوں نے بہت کچھ ایڈوانس ادا کر دیا تھا۔ ’اب صورتحال یہ ہے کہ اگر متوقع حج کے لیے جانے والے کے لیے زون کی خریداری مکمل ہے تو عمارتوں وغیرہ کی ادائیگی نہیں ہوسکی۔ اگر ایک کی عمارت کے پیسے جمع کروا دیے ہیں تو کھانے کے پیسوں کی ادائیگی مکمل نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ سے ویزے جاری نہیں ہوئے اور اب متعلقہ پورٹل بند ہوچکا ہے۔‘
حج آرگنائزر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عموماً لوگ کبھی بھی مکمل رقم ادا نہیں کرتے بلکہ وہ نصف سے کم تھوڑی بہت ایڈوانس رقم ادا کرتے ہیں۔ تو صورتحال میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انھیں ڈر ہے کہ ’اگر ہمیں اس ڈیڈلائن میں مزید وقت نہ ملا تو ممکنہ طور پر ہمارے لاکھوں ریال ڈوب جائیں گے اور جو لوگ حج پر نہیں جاسکیں گے ان کو ہم لوگ اپنی زمین، جائیداد فروخت کر کے بھی ادائگیاں نہیں کر پائیں گے۔‘
پرائیوٹ حج کے لیے جانے کے خواہش مند ایبٹ آباد کے رہائشی محمد زاہد خان کے لیے یہ صورتحال قابل قبول نہیں ہے۔ ’میں نے حکومت کے منظور کردہ حج آرگنائزر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ حج کے لیے میری تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ چھٹیاں بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔‘
اسی طرح رحمان خان نے اپنی والدہ کے ساتھ حج پر جانے کے لیے پشاور کے ایک حج آرگنائزر کے پاس پیسے جمع کروائے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سو فیصد رقم جنوری میں جمع کروا دی تھی۔ مگر اب مجھے بتایا گیا ہے کہ میرا ویزا لگ چکا ہے مگر والدہ کا نہیں لگا۔ میں نے تو والدہ کو حج کروانا تھا۔ یہ والدہ کی سب سے بڑی تھی۔ اب وہ بہت افسردہ ہیں۔‘
حج آرگنائزر پنجاب کے وائس چیئرمین احسان اللہ کو امید ہے کہ جیسے گذشتہ سال تاخیر کی صورت میں رعایت دی گئی ویسے اس بار بھی ممکن ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ سعودی حکومت نے گذشتہ سال نئی حج پالیسی متعارف کرائی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے پرائیوٹ حج آرگنائزرکو جنوری میں بُکنگ کی اجازت دی تھی مگر بُکنگ اور ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث بات اس نہج پر پہنچی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ بعض دیگر ممالک بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ 'ہم نے حکومت پاکستان سے گزارش کی ہے کہ وہ سعودی حکومت سے رابطہ قائم کر کے اس مسئلے کا حل نکال لیں۔۔۔ آئیندہ بروقت بکنگ کی اجازت دی جائے تاکہ حج آرگنائزر اور حاجی بروقت بُکنگ کروا سکیں اور ادائیگیاں ممکن ہوسکے۔'
ادھر وزارت مذہبی امور کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ 'وقت ضائع کرنے میں حج آرگنائزر کا بھی بڑا کردار ہے۔ انھوں نے سندھ ہائی کورٹ سے سٹے آرڈر حاصل کیا جس کی وجہ سے سارا پراسس رک گیا تھا اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں حج آرگنائزر نے اپنی درخواست بھی واپس لے لی تھی۔'
احسان اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت سے رجوع حج آرگنائزر اور حکومت کے درمیان معاہدہ پر کیا گیا تھا۔ اس کا حج پراسس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔