’ماں نے کہا تھا پاکستان جا کر راستہ ڈھونڈو لیکن یہاں تو گرفتاری کا خطرہ ہے‘

اردو نیوز  |  Apr 18, 2025

’پاکستان میں ہر روز مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ میں کابل میں انسانی حقوق کی کارکن تھی، لیکن اب یہاں کے بازار میں پراٹھوں کا سٹال لگاتی ہوں۔ جب سے کہا گیا کہ افغانوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے، اب جب میں اپنے اردگرد لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتی ہوں کہ افغان ہے، افغان ہے۔ تو پولیس کے خوف سے اپنا سٹال اٹھا کر چلی جاتی ہوں کیونکہ اب ویزے کی تجدید بھی نہیں ہو رہی۔‘

پانچ ماہ قبل آریانہ آزاد (فرضی نام) ویزے پر پاکستان پہنچی تھیں۔ ان کے خاندان کو ویزا تو نہیں ملا تاہم ان کی والدہ نے انہیں یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ’تم نکلو اور آگے کوئی راستہ ڈھونڈو۔‘

آریانہ آزاد ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں اور وہ خواتین کے حقوق کے موضوع اور ٹی وی کے حالات حاضرہ کے پروگراموں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔

اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں نے نہ صرف اپنے گھر کا خرچ اٹھایا بلکہ درجنوں ایسے دیگر گھرانوں کا بھی جو انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے۔‘

ان کے والد وفات پا چکے ہیں، چار بہنوں میں وہ سب سے بڑی ہیں اور ان کے دو بھائی بھی ہیں جو ابھی سکول میں پڑھتے ہیں۔

’میں اس امید سے پشاور آئی ہوں کہ میں یہاں کوئی کام کروں۔۔۔ اب باہر جانا چاہتی ہوں، یو این ایچ سی آر گئی، وہاں انٹرویو تو ہو گیا لیکن جواب نہیں آیا۔۔۔ اب کوئی اور راستہ دیکھنا پڑے گا، لیکن سچ بتاؤں تو کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اب تو گرفتاری کا خطرہ ہے۔‘

جمعے کو ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے واضح طور پر کہا کہ غیرملکیوں سمیت افغان پناہ گزینوں کی واپسی کی تاریخ میں توسیع نہیں کی جائے گی۔

’30 اپریل کے بعد ہم کیس ٹو کیس کا جائزہ لیں گے اور اگر کوئی یہاں رہے گا تو پاسپورٹ اور ویزے پر رہے گا۔ جس کو بھی یہاں 30 اپریل کے بعد رہنا ہے تو اسے ویزا کی تجدید کرانا ہوگی یا نیا ویزا حاصل کرنا پڑے گا۔‘

طلال چوہدری نے کہا کہ وزارت داخلہ ویزے میں دو مرتبہ توسیع کرتی ہے۔ (فوٹو: پی آئی ڈی)ان کا کہنا تھا کہ ’ہر 10 میں سے دو ویزے کی توسیع کے لیے درخواست آتی ہے اور وزارت داخلہ دو مرتبہ توسیع کرتی ہے۔ 10 لاکھ میں سے 20 فیصد توسیع کی درخواستیں ہیں اور زیادہ تر کو یہ توسیع دی جاتی ہے۔‘

طلال چوہدری کی گفتگو کا بیش تر حصہ قانونی پہلو سے متعلق تھا تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا انسانی پہلو بھی بہت اہم ہے اور حکومت کو اسے بھی پالیسی سازی میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔

اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بڑی تعداد میں صحافی، اداکار، موسیقار، آرٹسٹ، سابقہ حکومت کے ارکان اور انسانی حقوق کے کارکن پاکستان منتقل ہوئے۔

آریانہ آزاد کی طرح حال ہی میں صحافی فرشتہ سدید کو اس مشکل صورتحال سے گزرنا پڑا جب انہیں و گرفتار کر کے ڈی ٹینش سینٹر بھجوایا گیا۔

’میں ایک سال سے مالی پریشانی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوں۔ مجھے ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کسی بھی لمحے پولیس آ کر مجھے گرفتار کر کے افغانستان ڈیپورٹ کر دے گی اور بالآخر وہی ہوا ۔۔۔ مجھے گرفتار کر لیا گیا۔‘

28 برس کی افغان صحافی فرشتہ سدید سنہ 2022 سے پاکستان میں مقیم ہیں۔

اسلام آباد میں قیام کے دوران انہیں ہر تھوڑے عرصے بعد ویزا تجدید کی ضرورت پیش آئی، تاہم رواں برس ان کی ویزا تجدید کی درخواست دو مرتبہ مسترد کر دی گئی اور 15 اپریل کو انہیں اسلام آباد پولیس نے حراست میں لے کر تارکین وطن کے لیے قائم کردہ ایک ڈیٹیشن سینٹر منتقل کر دیا۔

’ویزا ایکسپائر ہو چکا تھا اور میں نے ویزا تجدید کے لیے درخواست دے رکھی تھی۔ ایجنٹس ویزا کی فیس کے لیے مزید رقم مانگ رہے تھے لیکن میری حالت ایسی نہیں تھی کہ میں وہ دے پاتی۔‘

سابق افغان رکن پارلیمنٹ فوزیہ کوفی کی سربراہی میں 10 رکنی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ (فوٹو: ویمن فار افغانستان)اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے ادارے یو این ایچ سی آر کی مداخلت کی وجہ سے ان کو رہائی مل گئی ہے۔ 

ویزے کی معیاد ختم ہونے پر 480 ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کے بعد اب انہیں پاکستان سے نکلنے کے لیے صرف ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ اب وہ اپنی دو بہنوں کے ہمراہ ایک یورپی ملک منتقل ہو رہی ہیں، جہاں انہیں پناہ ملنے کی امید ہے۔

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فرشتہ سدید نے کہا کہ افغانستان واپسی کا مطلب ہے ایک مرتبہ پھر گھر کی چاردیواری میں قید ہو جانا اور غربت اور افلاس میں زندگی گزارنا۔

فرشتہ سدید کا تعلق افغانستان کی شمال مشرقی صوبے کاپیسا سے ہے، جہاں صحافت کے ساتھ ساتھ وہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک ادارہ چلا رہی تھیں اور اپنے خاندان کی مالی معاونت بھی کر رہی تھیں۔ تاہم طالبان کے کنٹرول کے بعد ان کے لیے یہ دونوں کام کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔

پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ افغانوں کو ملک بدری کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں واپس بھیجنے کے لیے تین مراحل پر مشتمل منصوبے کا اعلان کیا تھا۔

یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 

حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی میں سرحد پار سے دہشت گرد تنظیمیں اور بعض افغان شہری بھی ملوث ہیں۔ تاہم کابل میں طالبان کی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔

یکم اپریل سے اب تک 84 ہزار 869 افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)رواں ہفتے افغانستان کی سابق رکن پارلیمنٹ فوزیہ کوفی کی قیادت میں افغان خواتین کا 10 رکنی وفد اسلام آباد پہنچا تھا۔ انہوں نے سابق فوجی اہلکاروں، انسانی حقوق کے کارکنوں، خواتین اور اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا اور جبری ملک بدری کو فوری طور پر روکنے کی اپیل کی۔

’ہم حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان خطرے سے دوچار افراد کے لیے ویزا تجدید کے نظام پر نظرثانی کرے جن کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے، موجودہ ماہانہ تجدید کا عمل غیر یقینی اور مشکلات پیدا کرتا ہے۔‘

یہ بات ایک افغان صحافی نے بھی بتائی جنہوں نے طالبان کے کنٹرول سے قبل خصوصی نامہ نگار کے طور پر جنگ، سکیورٹی، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق پر کام کیا۔ انہیں اگست 2021 میں طالبان کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ 

وہ ستمبر 2021 میں اپنی جان بچا کر اہل خانہ سمیت اسلام آباد پہنچے تھے۔

’2025 کے آغاز سے قبل میں چھ ماہ کے لیے ویزا تجدید کروا لیا کرتا تھا لیکن اب ہر ماہ مجھے ویزا نیا کرنا پڑتا ہے اور یہ ویزا بھی ایجنٹس کے ذریعے ملتا ہے۔ ہر مہنیے مجھے گھر کے ہر ایک فرد کے لیے 25 ہزار فیس دینا پڑتی ہے اور پوری فیملی کی فیس دو لاکھ 50 ہزار روپے بنتی ہے۔‘

’یہ مالی لحاظ سے کمر توڑ دینے والی صورتحال ہے۔ میرے پاس کوئی نوکری نہیں اور یورپ میں مقیم رشتہ دار ہی یہ خرچ برداشت کر رہے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے ادارۂ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان میں دو لاکھ 10 ہزار ایسے تصدیق شدہ افغان پناہ گزین موجود ہیں جنہیں افغانستان واپسی پر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے بتایا کہ ان میں صحافی، فنکار، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے کارکن، اور سابقہ افغان حکومتوں سے وابستہ اہلکار شامل ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان افراد کے تحفظ کا معاملہ حکومت کے سامنے باضابطہ طور پر اٹھایا ہے۔

فنکاروں اور موسیقاروں کو بھی افغانستان واپسی پر خطرے کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)قیصر خان آفریدی نے بتایا کہ یو این ایچ سی آر نے ان افغان شہریوں کو قانونی دستاویزات فراہم کی ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے نہ صرف حکومتِ پاکستان سے بات چیت کر رہے ہیں بلکہ انہیں تیسرے ملک منتقل کرنے کے انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ 

جب ان سے یہ سوال ہوا کہ خطرے کا سامنا کرنے والے کتنے افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’چند ہزار‘ کو بھیجا گیا ہے۔

یو این ایچ سی آر نے سنہ 2021 میں ایک ایڈوائزری جاری کی تھی جس میں تمام ممالک پر زور دیا گیا تھا کہ وہ افغانوں کو زبردستی واپس نہ بھیجیں۔

حکومت پاکستان کے اعدادوشمار کے بعد مطابق یکم اپریل سے اب تک 84 ہزار 869 افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجا گیا ہے، جن میں 25 ہزار اے سی سی کارڈ ہولڈر تھے جبکہ باقی غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم تھے۔

مجموعی طور پر اب تک 9 لاکھ سات ہزار 391 افغان پناہ گزینوں کو بھیجا گیا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More