ڈھاکہ ایئرپورٹ کے قریب اُس خفیہ جیل کی دریافت کی کہانی جہاں حسینہ واجد کے ناقد ’لاپتہ افراد‘ کو رکھا جاتا تھا

بی بی سی اردو  |  Apr 18, 2025

BBC/Aamir Peerzadaاحمد بن قاسم حراستی مرکز میں کھڑے ہوئے ہیں، یہ وہ دیوار ہے جس کے پیچھے خفیہ عقوبت خانہ ہے

تفتیش کاروں نے جب عجلت میں تعمیر کی گئی ایک دیوار توڑی تو اس کے پیچھے انھیں ایک خفیہ جیل کا دروازہ نظر آیا۔

اس سے گزر کر ایک تنگ دالان تھا جس کے دائیں بائیں چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ وہاں گھپ اندھیرا تھا۔

اگر احمد بن قاسم اور دیگر نے اپنی یادداشتوں میں اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو تفتیشی ٹیم کو یہ خفیہ جیل کبھی نہیں ملتی جہاں سے ڈھاکہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ بہت قریب ہے۔

اس جیل میں بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے ناقدین کو قید کیا جاتا تھا۔

قیدیوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہتی تھی۔ لیکن انھیں طیاروں کے اترنے کی آواز واضح طور پر یاد تھی۔

ایسی ہے ایک یادداشت نے تفتیش کاروں کو ہوائی اڈے کے قریب ایک فوجی اڈے تک پہنچنے میں مدد کی۔ کمپاؤنڈ کی مرکزی عمارت کے پیچھے، انھیں بغیر کھڑکیوں والی ایک عمارت ملی جہاں قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔

BBC/Aamir Peerzadaوہ راستہ جسے دیوار کے ذریعے چھپایا گیا تھا

گذشتہ سال اگست میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے تفتیش کاروں نے قاسم جیسے سینکڑوں متاثرین سے بات کی ہے اور اس طرح کی جیلوں میں قید قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت پر بہت سے لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام بھی ہے۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان خفیہ جیلوں کو چلانے والے افراد زیادہ تر انسداد دہشت گردی کی ایلیٹ یونٹ، ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) سے تھے اور وہ براہ راست حسینہ کے حکم پر کام کر رہے تھے۔

بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے بی بی سی کو بتایا: ’متعلقہ افسران نے کہا کہ جبری گمشدگی کے تمام مقدمات خود وزیراعظم کی منظوری، اجازت یا حکم سے کیے گئے تھے۔‘

تاہم شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ مبینہ جرائم ان کے علم کے بغیر کیے گئے، اس لیے ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور یہ کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اکیلے یہ کام کرتی ہے۔

دوسری جانب فوج نے پارٹی کے ان الزمات کو مسترد کیا ہے۔

سات ماہ بعد اگرچہ قاسم اور دیگر افراد کو رہا کر دیا گیا لیکن وہ اپنے اغوا کاروں سے خوفزدہ رہتے ہیں جو سکیورٹی فورسز میں ابھی بھی کام کر رہے ہیں اور وہ سب ابھی تک آزاد بھی ہیں۔

قاسم کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی ٹوپی اور ماسک پہنے بغیر گھر سے نہیں نکلتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں سفر کر رہا ہوتا ہوں تو مجھے ہمیشہ چوکنا رہنا پڑتا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں کہ کہیں تعاقب تو نہیں کیا جا رہا ہے۔‘

بڑے پیمانے پر پھیلا منظم جیل نیٹ ورک

قاسم دھیرے دھیرے کنکریٹ کے زینے پر قدم رکھتے ہوئے بی بی سی کو دکھاتے ہیں کہ انھیں کہاں رکھا گیا تھا۔ ایک دھات کے وزنی دروازے کو دھکیلتے ہوئے وہ اپنا سر جھکاتے ہیں اور ایک اور تنگ دروازے سے ’اپنے‘ کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ وہ کوٹھڑی ہے جہاں انھیں آٹھ سال تک قید رکھا گیا تھا۔

وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں: ’ایسا لگتا تھا جیسے میں زندہ دفن کر دیا گیا ہوں، باہر کی دنیا سے بالکل کٹ گیا تھا۔‘ قدرتی روشنی کے لیے وہاں کوئی کھڑکی یا روشن دان نہیں تھے۔ جب وہ اندر تھے تو وہ دن اور رات کے درمیان فرق نہیں بتا سکتے تھے۔

قاسم 40 کی دہائی میں ہیں اور پیشے سے ایک وکیل ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ انٹرویوز دے چکے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب انھوں نے اس چھوٹے سے سیل کے اندر سے تفصیلی گفتگو کی جہاں انھیں رکھا گیا تھا۔

یہ اتنا چھوٹا اور بدبودار کمرہ ہے کہ ایک اوسط حجم کا شخص سیدھا کھڑا بھی نہ ہو پائے۔ کچھ دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اینٹوں اور کنکریٹ کے ٹکڑے زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ یہ جرائم کے شواہد کو ختم کرنے کی آخری کوشش لگتی تھی۔

پراسیکیوٹر اسلام بھی جیل کے دورے پر بی بی سی کے ساتھ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ’ایک حراستی مرکز ہے۔ ہم نے پایا ہے کہ ملک بھر میں 500، 600، 700 سے زیادہ سیل موجود ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وسیع پیمانے پر اور منظم تھا۔‘

قاسم کو اپنے سیل کی دھندلی نیلی ٹائلیں بھی واضح طور پر یاد ہیں، جو اب فرش پر ٹکڑوں کی شکل میں پڑی ہیں۔

BBC/Aamir Peerzadaکچھ سیل اتنے چھوٹے ہیں کہ آپ ان میں اپنی ٹانگیں سیدھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی کھڑے ہو پاتے ہیں

قاسم کمرے میں ٹہلتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انھوں نے قید میں وقت کیسے گزارا۔ وہ بتاتے ہیں کہ موسم گرما میں یہ ناقابل برداشت حد تک گرم تھا۔ وہ فرش پر جھک جاتے اور ہوا کے لیے اپنا چہرہ دروازے کے نچلے حصے کے جتنا قریب رکھ سکتے تھے رکھتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے ’موت سے بھی بدتر احساس‘ تھا۔ یہاں آنا ان کے لیے مشکل تھا لیکن قاسم کا خیال ہے کہ دنیا کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اعلیٰ حکام اور اعلیٰ افسران جنھوں نے فاشسٹ حکومت کی مدد کی اور ان کے ساتھ تعاون کیا وہ اب بھی اپنی پوزیشن پر ہیں۔‘

پچھلی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ انھیں ایک بدنام زمانہ حراستی مرکز کے اندر رکھا گیا تھا، جسے ’آئینہ گھر‘ کہا جاتا ہے اور یہ ڈھاکہ میں مرکزی انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر کے اندر تھا۔ لیکن اب تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ ایسی کئی جگہیں تھیں۔

قاسم نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے پہلے 16 دنوں کے علاوہ اپنی تمام حراست آر اے بی کے بیس پر گزاری۔

ان کا خیال ہے کہ انھیں ان کے خاندان کی سیاست کی وجہ سے غائب کیا گیا تھا۔ سنہ 2016 میں وہ اپنے والد کی نمائندگی کر رہے تھے، جو ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت جماعت اسلامی کے ایک سینئر رکن تھے۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انھیں پھانسی دے دی گئی۔

BBC’میں نے سوچا میں یہاں سے کبھی بھی نہیں نکل پاؤں گا‘

بی بی سی سے بات کرنے والے پانچ اور افراد کے مطابق ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور ہتھکڑیاں لگائی گئیں، انھیں کنکریٹ کے اندھیرے سیلز میں رکھا گیا جہاں بیرونی دنیا تک رسائی نہیں تھی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

اگرچہ بی بی سی آزادانہ طور پر ان کی تصدیق نہیں کر سکا، لیکن تقریباً سبھی کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ ایک دن، وہ سڑک پر یا بس میں کسی ایسے شخص سے ٹکرا سکتے ہیں جو انھیں قید کرنے والوں میں شامل تھا۔

35 سالہ عتیق الرحمان کہتے ہیں کہ ’اب، جب بھی میں گاڑی میں بیٹھتا ہوں یا گھر پر اکیلا ہوتا ہوں، تو مجھے یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ میں کہاں ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں حیران ہوں کہ میں کیسے زندہ رہا، کیا مجھے واقعی زندہ رہنا چاہیے تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کی ناک ٹوٹ گئی تھی اور ان کا ہاتھ اب بھی تکلیف میں ہے۔ ’انھوں نے مجھے ہتھکڑیاں لگا دیں اور مجھے بہت مارا پیٹا۔‘

Handout عتیق الرحمان اب اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں لیکن ماضی میں ان پر جو بیتی وہ یاد اب بھی انھیں خوفزدہ کرتی ہے

عتیق کا کہنا ہے کہ گذشتہ جولائی میں جب حکومت مخالف مظاہرے جاری تھے تو ڈھاکہ کے پرانے شہر میں ایک مسجد کے باہر لوگوں کے ایک گروپ نے ان سے رابطہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہیں۔

اگلے ہی منٹ انھیں ایک گاڑی میں لے جایا گیا، ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔ چالیس منٹ بعد انھیں گاڑی سے باہر نکالا گیا، ایک عمارت میں لے جایا گیا اور ایک کمرے میں ڈال دیا گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد، لوگ ایک ایک کرکے اندر آنے لگے اور سوال پوچھنے لگے۔ کون ہو تم؟ تم کیا کرتے ہو؟‘ اس کے بعد مار پیٹ شروع ہو گئی۔ ’مجھے لگا کہ میں کبھی باہر نہیں نکلوں گا۔‘

وہ اب اپنی بہن اور اس کے شوہر کے ساتھ رہتے ہیں۔

ڈھاکہ میں اپنے فلیٹ میں کھانے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے وہ قید میں گزارے گئے ہفتوں کو تفصیل سے بیان کر رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ ان کی حراست سیاسی محرکات پر مبنی تھی کیونکہ وہ حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ایک سٹوڈنٹ لیڈر تھے، جس کے ان کے والد ایک سینئر رکن تھے۔ ان کے بھائی، جو بیرون ملک رہتے تھے، اکثر سوشل میڈیا پر حسینہ واجد پر تنقید ی پوسٹس لکھتے تھے۔

عتیق کا کہنا ہے کہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ انھیں کہاں رکھا گیا تھا۔ لیکن اس سال کے اوائل میں عبوری رہنما محمد یونس کو تین حراستی مراکز کا دورہ کرتے ہوئے دیکھنے کے بعد انھیں لگتا ہے کہ انہیں ڈھاکہ کے اگرگاؤں نامی ضلع میں رکھا گیا تھا۔

Bangladesh Chief Advisor Office of Interim Government via AFP ڈھاکہ میں عبوری سربراہ محمد یونس کو قیدیوں کو اذیت دینے کے لیے موجود ایک کرسی دکھائی جا رہی ہے جو کہ خفیہ اداروں کے ایک مرکز میں موجود ہےبنگلہ دیش میں کرفیو: فوج بلانے کے انتہائی اقدام کی ضرورت کیوں پڑی؟شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ ہونے کے بعد انڈیا کو ’بہترین کی امید، بدترین کی تیاری‘’دھان منڈی 32‘: شیخ مجیب الرحمٰن کا وہ گھر جسے ’فاشزم کی زیارت گاہ‘ قرار دے کر گرا دیا گیا’کچھ ماہ تو موت کے کنویں میں گزرے‘: بنگلہ دیش کی بدنام زمانہ جیل ’آئینہ گھر‘ جہاں قیدی روشنی کو بھی ترس جاتے ’مجھے کہا گیا کہ مجھے مٹا دیا جائے گا‘AFP حسینہ واجد نے بنگلہ دیش پر 15 سال حکومت کی

تفتیش کاروں، مخالفین اور قیدیوں کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیخ حسینہ اپنے مخالفین کو بالکل برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ ’ان کے خلاف بولنے کا مطلب ہے کہ آپ غائب کر دیے جائیں گے۔‘

ایک بنگلہ دیشی این جی او، جس نے سنہ 2009 سے اب تک جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے کوائف اکھٹے کیے ہیں، نے کم ازکم 709 افراد کا ڈیٹا اکھٹا کیا۔ ان میں سے 155 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

قاسم جیسے لوگوں سے بات کرنے کے ذریعے ہی تاج الاسلام شیخ حسینہ سمیت حراستی مراکز کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

محمد علی عرفات، عوامی لیگ کے ترجمان ہیں۔ وہ الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر لوگوں کو زبردستی غائب کیا گیا ہے، یہ حسینہ واجد کی ہدایات پر نہیں کیا گیا، اور نہ ہی ان کی کابینہ میں سے کسی کی طرف سے کیا گیا۔‘

عرفات کا کہنا ہے کہ اگر اس قسم کے عقوبت خانے موجود تھے تو یہ فوج کی داخلی محرکات کا نتیجہ ہیں۔

’میں نے اس میں عوامی لیگ کے لیے کوئی سیاسی فوائد نہیں دیکھے یا پھر حکومت کے لیے اس میں کوئی فائدہ تھا کہ وہ لوگوں کو خفیہ جیلوں میں رکھے۔‘

دوسری جانب فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کے بارے میں فوج کو کچھ معلوم نہیں۔‘

لیفٹیننٹ کرنل عبداللہ ابن زیاد نے بی بی سی کو بتایا کہ فوج واضح طور پر اس بات سے انکار کرتی ہے کہ وہ اس قسم کے قید خانے چلا رہی ہے۔

Getty Imagesبہت سی خفیہ جیلیں ریپڈ ایکشن بٹالین کے تفتیش کار چلا رہے تھے

تاج الاسلام کا خیال ہے کہ ان جیلوں میں قید لوگ عوامی لیگ کے ملوث ہونے کا ثبوت ہیں۔

’یہاں پر قید تمام لوگوں کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے جنھوں نے فقط اس وقت کی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور اسی وجہ سے انھیں یہاں لایا گیا تھا۔‘

71 سالہ اقبال چوہدری جیسے متاثرین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگیاں اب بھی خطرے میں ہیں۔ اقبال چوہدری بنگلہ دیش سے چلے جانا چاہتے ہیں۔ سنہ 2019 میں جب انھیں رہا کر دیا گیا تو کئی سال تک وہ اپنے گھر سے نہیں نکلے، حتیٰ کہ قریبی مارکیٹ تک نہیں جاتے تھے۔

ان کو قید کرنے والوں نے انھیں خبردار کیا تھا کہ تم کبھی بھی بات مت کرنا۔

وہ کہتے ہیں کہ مجھے کہا گیا کہ ’اگر تم نے کبھی بھی بتایا کہ تم کہاں تھے یا کیا ہوا تھا، اور اگر تمھیں دوبارہ اٹھایا گیا تو تمھیں کبھی بھی کوئی بھی دیکھ نہیں پائے گا۔ تم اس دنیا سے غائب ہو جاؤ گے۔‘

اقبال چوہدری کہتے ہیں کہ انھیں اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان پر الزام تھا کہ وہ انڈیا اور عوامی لیگ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انھیں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور انھیں زدو کوب کیا گیا۔ ’میری ایک انگلی بھی الیکٹرک شاک کی وجہ سے بہت زیادہ مثاثر ہوئی ہے۔ میری ٹانگ کی طاقت ختم ہو گئی۔ میں اپنی جسمانی طاقت کھو چکا ہوں۔‘

اقبال کا کہنا ہے کہ ’مجھے اب بھی ڈر لگتا ہے۔‘

’میری موت تک یہ خوف برقرار رہے گا‘BBC/Neha Sharmaرحمت اللہ نے کہا کہ انھوں ایسی جگہ بنائی جہاں کسی انسان کو نہیں ہونا چاہیے۔

23 سالہ رحمت اللہ بھی خوفزدہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’انھوں نے میری نصف زندگی چھین لی۔ وہ وقت کبھی بھی نہیں لوٹ پائے گا۔‘

’انھوں نے میرے لیے ایسی جگہ بنائی جہاں کسی انسان کو نہیں ہونا چاہیے۔‘

29 اگست 2023 کو انھیں آر اے بی کے افسران نے رات گئے ان کے گھر سے اٹھایا۔ ان میں سے کچھ یونیفارم میں تھے جبکہ کچھ نے سادہ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔

رحمت اللہ ساتھ والے گاؤں میں باورچی تھے اور ساتھ ہی الیکٹریشن بننے کی ٹریننگ لے رہے تھے۔

بارہا تفتیش کے بعد رحمت اللہ کو پتہ چلا کہ انھیں اس لیے اٹھایا گیا ہے کیونکہ انھوں نے سوشل میڈیا پر انڈیا مخالف اور اسلامی پوسٹس لگائی تھیں۔

ایک قلم اور پیپر کی مدد سے انھوں نے اس سیل اور اس جگہ کا خاکہ بنایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈھاکہ میں موجود اس جگہ کا تصور ہی انھیں خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔

’وہاں لیٹنے کے لیے جگہ نہیں تھی۔ مجھے اپنے جسم کو سمیٹ کر لیٹنا پڑتا تھا۔ میں لیٹے لیٹے اپنی ٹانگیں سیدھی نہیں کر سکتا تھا۔‘

بی بی سی نے سابقہ قیدیوں مائیکل چکما اور مسرور انورسے بھی انٹرویوز کیے تاکہ خفیہ جیلوں کے بارے میں موجود تفصیلات کی تصدیق کر سکیں اور ان کے بارے میں جو الزامات عائد کیے گئے ان کے بارے میں جان سکیں۔

کچھ ایسے متاثرین بھی ہیں جن کے جسم پر قید کے دنوں کے اثرات موجود ہیں۔ وہ سبھی اس ذہنی اذیت کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ہر جگہ ان کا پیچھا کرتی ہے۔

بنگلہ دیش اپنی تاریخ کے اہم دوراہے پر ہے کیونکہ وہ ملک میں سالوں تک رہنے والی آمرانہ حکومت کے بعد تعمیر نو کی کوشش کر رہا ہے۔

جمہوریت کی جانب ملک کی پیش رفت کا ایک اہم امتحان ان جرائمکے مجرموں کے خلاف منصفانہ ٹرائل کرنے کی اس کی صلاحیت ہوگی۔

اسلام کا خیال ہے یہ ہو سکتا ہے اور ضرور ہونا چاہیے۔

’ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اس قسم کے جرائم کو پھر سے ہونے سے روکنا ہو گا۔ اور ہمیں متاثرین سے انصاف کرنا ہو گا۔ انھوں نے بہت کچھ سہا ہے۔‘

کنکریٹ کے بنے اس سیل پہ کھڑے ہو کر قاسم نے کہا کہ مقدمہ جلد ازجلد ہونا چاہیے تاکہ ملک اس باب کو ختم کر سکے۔

رحمت اللہ کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ’خوف ختم نہیں ہوا۔ خوف میری موت تک میرے ساتھ رہے گا۔‘

بنگلہ دیشی فوج میں ’پاکستان کے حامی جنرل‘ کی جانب سے بغاوت کی کوشش کا الزام: ’فوج متحد ہے، انڈین میڈیا سنسنی نہ پھیلائے،‘ آئی ایس پی آر بنگلہ دیشکیا بنگلہ دیش سیکولرازم سے اسلام پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے؟بنگلہ دیش کا شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ: کیا یہ دلی اور ڈھاکہ کے درمیان نئے تنازع کی شروعات ہیں؟’دھان منڈی 32‘: شیخ مجیب الرحمٰن کا وہ گھر جسے ’فاشزم کی زیارت گاہ‘ قرار دے کر گرا دیا گیا’کچھ ماہ تو موت کے کنویں میں گزرے‘: بنگلہ دیش کی بدنام زمانہ جیل ’آئینہ گھر‘ جہاں قیدی روشنی کو بھی ترس جاتے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More