ٹوٹی ونڈ سکرینز، ڈینٹ، پارٹس کی دگنی قیمتیں اور ایڈوانس بکنگ: اسلام آباد میں ژالہ باری سے تباہ گاڑیوں کے متاثرین کو کن مشکلات کا سامنا رہا؟

بی بی سی اردو  |  Apr 17, 2025

BBC

’میرے بیٹے نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی ہی گاڑی کو ژالہ باری میں تباہ ہوتے دیکھا مگر وہ کچھ کر نہیں سکا۔ میں نے رات کو ایک دکان پر کال کر کے ونڈ سکرین کا پوچھا تو اُس کی قیمت پہلے سے دگنی ہو چکی تھی۔ دکان دار نے کہا ہے کہ اگر ابھی ایڈوانس پیسے دے کر بک نہیں کروائیں گے تو صبح تک یہ مل سکے گی ورنہ نہیں۔‘

16 اپریل کی صبح سے دوپہرتک اسلام آباد میں معمول سے کچھ بڑھ کر گرمی سے ستائے شہریوں نے شاید ہرگز یہ نہ سوچا ہو گا کہ جن سیاہ بادلوں کو آسمان پر چھاتے ہوئے دیکھ کر وہ موسم کی انگڑائی سے لطف لینے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، لمحوں کے اندر اندر غیر معمولی ژالہ باری کی صورت اختیار کر کے ان کی گاڑیوں کا حلیہ ہی بدل کے رکھ دیں گے۔

معاملہ یہیں تک رہتا تو قدرتی آفت یا ناگہانی سمجھ کر دل کو تسلی دے لی جاتی تاہم جب ژالہ باری سے تباہ حال گاڑیوں کی مرمت کے کام کے لیے جب متاثرین نے مکینکس اور ورکشاپوں کا رخ کیا تو ان کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔

جی ہاں کیونکہ ایک ہی دن میں کہیں ونڈ سکرین ’ناپید‘ ہو چکی تھی تو کہیں گاڑی کے سائیڈ والے شیشے اور سکرین بلیک میں دگنی قیمت پر مل رہی تھی۔

اور تو اور گاڑی کے ڈینٹ نکالنے کے لیے ایڈوانس بکنگ کے بغیر ڈینٹر ہی دستیاب نہ تھے۔

اور یوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں بدھ کے روز غیر معمولی ژالہ باری سے جن شہریوں کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا تھا اب وہی لوگ اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کی ورکشاپوں میں تباہ حال گاڑیوں کی مرمت کے لیے خواری کاٹتے دکھائی دیے۔

اسلام آباد کے بیشتر شہری آج پورا دن دفتر یا کام کاج پر جانے کی بجائے اپنی گاڑیاں ٹھیک کرواتے رہے۔ کسی کو تو میکینک نے ٹائم دیا اب بھی کوئی اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر صارفین کی پوسٹس سے جب صورت حال سامنے آئی تو بی بی سی نے خود مختلف ورکشاپوں کا رخ کیا جہاں جا کر معلوم ہوا کہ ڈیمانڈ کی وجہ سے ونڈ سکرین مارکیٹ سے یا تو مل ہی نہیں رہیں اور جو مل رہی ہیں اس کے ریٹ پہلے کے مقابلے میں واقعی دگنا ہو چکے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم سوشل میڈیا پر صارفین کی بحث کو مضمون میں شامل کریں پہلے اسی حوالے سے کچھ متاثرین سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں۔

BBC’میں صبح سے گاڑی لے کر مختلف ورکشاپس پر پھر رہا ہوں‘

اسلام آباد کے شہری یاسین خان کی گاڑی بھی گذشتہ روز اسلام آباد کے سیکٹر ای 11 میں موجود تھی جن کا بیٹا اپنی ملازمت پر گاڑی لے کر نکلا تھا۔

’میرا بیٹا وہاں نوکری کرتا ہے۔ اتنے بڑے اولے تھے اور اس قدر تیزی سے پڑ رہے تھے کہ وہ کچھ کر نہیں سکا۔‘

یاسین خان کے مطابق ’رات کو سکرین 14 ہزار کی بتا رہے تھے اور اب 16 ہزار کی بھی نہیں دے رہے۔ انھوں نے رات کہا تھا کہ اگر ابھی پیسے ٹرانسفر کر کے بک نہیں کروائیں گے تو صبح کی گارنٹی نہیں۔‘

ہم نے ایک اور ایسے ہی شہری ابرار پرویز سے بات کی جو اپنی ٹوٹی پھوٹی گاڑی کے آگے پریشان کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔

وہ کبھی پیچھے جا کر شیشے کو دیکھتے تو کبھی گاڑی کی چھت پر موجود ڈینٹ دیکھتے۔

ابرار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں صبح سے گاڑی لے کر مختلف ورکشاپس پر پھر رہا ہوں، ہر میکینک دوسری گاڑیاں مرمت کرنے میں مصروف ہے۔ مجھے ابھی اس کی پیچھلی سیٹ کا شیشہ نہیں مل رہا میں نے راولپنڈی میں بھی پتا کیا مگر زیادہ پیسے دینے کے باوجود نہیں مل رہا۔‘

BBC’آپ دو دن کے بعد آئیے‘

یہ کہانی صرف چند شہریوں تک محدود نہیں، اسلام آباد اور راولپنڈی کی ورکشاپس پر اس وقت گاڑیوں کی لمبی لبمی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔

کسی کی ونڈ سکرین پوری طرح ٹوٹ چکی ہے تو کسی کی گاڑی کی چھت اندر کی طرف دھنسی ہوئی ہے اور کسی کی تو پوری کی پوری گاڑی ہی تباہ ہو چکی ہے۔

میاں عمران نامی شہری نے بتایا کہ وہ صبح اپنی گاڑی لے کر ایک ورکشاپ پر گئے تو وہاں موجود میکینک نے کہا کہ ’آپ دو دن کے بعد آئیے، ابھی ہم پہلے اُن گاڑیوں کی مرمت کر رہے ہیں جو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ جن گاڑیوں پر ڈینٹ آیا ہے یا پھر جن کے سائیڈ کا شیشہ ٹوٹا ہے وہ اگلے ہفتے میں مرمت کریں گے۔‘

یہاں پر کچھ مناظر ایسے بھی تھے کہ اگر آپ کے پاس ونڈ سکرین پر لگانے کے لیے شیشہ ہے اور ہاتھ میں مکینک کو دینے کے لیے پیسے بھی مگر شاید میکینک کے پاس آپ کو دینے کے لیے ٹائم نہ ہو۔

کئی شہری اپنی تباہ شدہ گاڑی کو مرمت کروانے کے لیے ایک ورکشاب سے دوسرے ورکشاپ پر لے کر پھرتے دکھائی دیے۔ کیونکہ اب تو کئی ورکشاپ والوں نے گاڑیاں مرمت کرنے کے لیے اگلے ہفتے کا وقت دے دیا ہے۔

’ایک شیشہ گیارہ سے بارہ لاکھ میں خریدنا پڑے گا‘: اولے پڑتے کیوں ہیں اور کہاں بنتے ہیں؟جنوبی وزیرستان میں غیر معمولی ژالہ باری سے کھڑی فصلیں تباہ: ’ایسے لگتا تھا جیسے ہر پھل کو زخمی کر دیا گیا ہو‘پاکستان میں پانی کا شدید بحران، تین صوبوں میں خشک سالی کا خطرہ: ’اپریل میں صرف پینے کے لیے پانی ہو گا‘پاکستان میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز خطرناک سیلابی ریلوں میں کیوں بدل رہے ہیں؟’چھوٹی گاڑیوں کی دو لاکھ، بڑی گاڑیوں پر پانچ لاکھ تک کی مرمت‘

دوسری طرف میکینکس نے بھی موقع غنیمت دیکھتے ہوئے گویا اپنی اپنی چھریاں تیز کر لی ہیں۔

انور ایک موٹر مکینک ہیں اور اسلام آباد کے سیکٹر جی 11 میں ان کی ورکشاپ ہے۔ اُن کی ورکشاپ پر مختلف گاڑیاں کھڑی تھیں۔ وہ اُن میں سے ایک گاڑی کے نقصان کا اندازہ لگا رہے تھے۔

’یہ گاڑی کورولا ہے جویہ مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ صرف چھت پر لگے شیشے کی قیمت دو لاکھ سے زیادہ ہے تو تقریباً اس کی مکمل مرمت پر سات سے آٹھ لاکھ خرچہ آئے گا۔‘

انوار نے بتایا کہ ’چھوٹی گاڑیوں پر تقریباً دو لاکھ جبکہ بڑی گاڑیوں پر پانچ لاکھ ، یا گاڑی کے ماڈل کے مطابق زیادہ بھی خرچہ آ سکتا ہے۔‘

ایک اور ورکشاپ پر کام کرنے والے محمود نے بتایا کہ مہران گاڑی کی ونڈ سکرین کا شیشہ ابھی آٹھ سے دس ہزار کے درمیان میں لگایا جا رہا ہے۔ کل تک اس کی قیمت پانچ ہزار تھی۔ راتوں رات ریٹس میں اضافہ ہو گیا ہے اور ویسے ہم نے بھی کام کے مطابق ریٹس رکھے ہیں۔‘

Getty Images’اسلام آباد میں مکینکس کی عید‘

بی بی سی سے بات چیت میں جہاں ایک شہری نے پریشانی میں یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستانی قوم کو موقع چاہیے کسی چیز کی ڈیمانڈ جیسے ہی زیادہ ہوئی یا تو وہ چیز مارکیٹ سے ہی غائب کر دیں گے یا پھر اُس کے ریٹس ڈبل کر دیے جائیں گے۔

وہیں سوشل میڈیا پر صارفین نے ژالہ باری سے گاڑیوں کی تباہی اور مکینکس کی چاندی کو بھی موضوع گفتگو بنائے رکھا۔ ایک صارف نے ازراہ تفنن لکھا کہ اسلام آباد میں اج کار مکینکس کی عید ہے۔‘

ایک اور صارف نے اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے لکھا کہ ’آج اسلام آباد میں ژالہ باری سے ہر چوتھی گاڑی کی سکرین ٹوٹی ہے، اب دیکھئے گا الباکستان میں خاص کر اسلام آباد میں گاڑیوں کے سکرینز (شیشوں) کی قیمت راتوں رات فرش سے عرش تک کیسے پہنچتی ہے۔‘

کئی صارفین نے اپنی رائے میں یہ بھی لکھا کہ ان کے دل ان تمام متاثرین کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں جن کی گاڑیوں پر ڈینٹ پڑے، شیشے ٹوٹے اور ہر طرح کا نقصان ہوا۔

پاکستان میں پانی کا شدید بحران، تین صوبوں میں خشک سالی کا خطرہ: ’اپریل میں صرف پینے کے لیے پانی ہو گا‘پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیں’ایک شیشہ گیارہ سے بارہ لاکھ میں خریدنا پڑے گا‘: اولے پڑتے کیوں ہیں اور کہاں بنتے ہیں؟پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیںآسمان سے گرتے ’پتھر‘ اولے جو وقت کے ساتھ مزید وزنی ہوتے جا رہے ہیںپاکستان میں پانی کا شدید بحران، تین صوبوں میں خشک سالی کا خطرہ: ’اپریل میں صرف پینے کے لیے پانی ہو گا‘مٹی کی صراحی، مٹکے کا پانی اور بان کی چارپائیسخت گرمی سے نمٹنے کے سستے طریقے35 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور اسلام آباد میں موسم بہار کی روٹھتی ٹھنڈی شامیں: کیا اب اپریل ہی موسمِ گرما کا آغاز ہو گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More